ماں کی گود انسان کی پہلی درس
گاہ ہے۔ ماں کا جذبہ ایمان جتنا زیادہ ہوگا یہ درس گا ہ اتنی ہی بلند معیار
کی حامل ہو گی اور اس میں پلنے والے بچوں کی تربیت اتنی ہی عمدہ ہو گی۔عربی
میں ماں کو” ام“ کہا جاتاہے۔ نبی اکرم ﷺ کو بھی” امّی“ کہا گیا۔اس میں لفظی
نسبت کے ساتھ ساتھ ایک معنوی نسبت ہے اور وہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ ساری انسانیت
کے لیے رحمت و شفقت تھے اور ماں اپنی اولاد کے لیے سراپا محبت و شفقت ہوتی
ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں عورت اگر علم و ادب کی کوئی بڑی خدمت انجام نہ دے
سکے تب بھی صرف اس کی ممتا ہی قابل قدر ہے جس کے طفیل مشاہیرِ عالم پروان
چڑھتے ہیں ۔حکیم الامت نے امومت کو رحمت کہا اور اسے نبوت سے تشبیہہ دی
ہے۔ماںکی شفقت کو وہ پیغمبر کی شفقت کے قریب قراردیتے ہیں کیونکہ اس سے
اقوام کی کردارسازی ہوتی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ماں کو بلند مقام عطا فرمایا ۔باپ کی
نسبت اس کا درجہ تین گنا زیادہ رکھا،آخرت میں نجات کا ذریعہ قرار دیا،ماں
کی خدمت اور فرماں برداری کو جہاد سے افضل قرار دیا اور ماں کے قدموں تلے
جنت بیان فرمائی۔یہ سب مقام ماں کو ایسے ہی نہیں ملا بلکہ اولاد کی تربیت
کی بھاری ذمہ درای کی وجہ سے ملا۔آج مائیں اخلاصِ عمل اور جزبہ ایمانی کے
لحاظ سے اس معیار اوردرجے پر نہیںہیں جس پر نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کی روشنی
میں انہیں ہونا چاہیے تھا۔
بچہ ماں کے رحم میں ایک مخصوص وقت گزارنے کے بعد دنیا میں جنم لیتا ہے۔یہ
دورانیہ وہ خالصتا صرف ایک ہی ہستی کے ساتھ گزارتا ہے۔ایسے میں ماں اچھی
سوچ،اچھے اخلاق، اچھے کردار کے ذریعے ایک نئے انسان کے لیے ایسی بہتر بنیاد
فراہم کر سکتی ہے جس پر آئندہ کی عمارت تعمیر ہونی ہے۔ماؤں کی سیرت و
کردار،علم و فضل اور معمولات بچے کی شخصیت پر ولادت سے پہلے ہی اثرانداز
ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ماں کا کام انسانیت کی بقا ءکے لیے بچے کو انسان
بنانا ہے۔ بچے کا ذہن شفاف آئینہ کے طرح ہوتا ہے۔ماں اگر بچے کی تربیت
اسلامی تعلیمات کی روشنی میںکرتی ہے تو یہ بچہ بڑا ہو کر اسلامی معاشرے کا
ایک مفید رکن بن جاتا ہے اور معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہتر طور پر
ادا کر سکتا ہے۔ماں جتنی مہذب،شائستہ اور بلند اخلاق ہو گی بچے پر بھی اتنے
ہی یہ اثرات مرتب ہوں گے ۔چھوٹ سے بچنا،غلط بیانی نہ کرنا،ہر حال میں سچ
بولنا،کسی کی چیز بغیر اجازت نہ لینا،دوسروں کی مدد کرنا،وعدہ پورا
کرناجیسے اہم تصورات صرف ماں ہی اپنی تربیت اور باعمل رویئے کے ذریعے بچوں
کو سکھاسکتی ہے۔
بچوں کی کردار سازی میں ماں کی محنت کے ساتھ ا س کی دعاؤں کا بہت عمل دخل
ہے۔ماں کی دعاؤں کو قبولیت کا خاص مقام حاصل ہے۔امام بخاری ؒ کے مقام سے
کون واقف نہیں۔بچپن مین نابینا ہو گے تھے۔والدہ نیک اور عابدہ خاتون
تھیں۔دن رات اللہ سے بیٹے کے لیے دعا کی تو اللہ نے بینائی بحال فرما دی۔
معاشرے کے بگاڑ اور اصلاح کی محرک ماں ہے۔وہ بچوں کی بہترین معلمہ
ہے۔پھولوں کے بغیرجس طرح ہر باغ بے رنگ و بو ہوتا ہے۔اسی طرح عمدہ پرورش
اور تربیت کے بغیر ہر بچہ نا سمجھ اور گنوار رہتا ہے۔بچے پھولوں کی طرح
نازک ،خوبصورت اور حساس ہوتے ہیں۔ان کی نگہداشت ،پرورش بھی اتنی ہی ضروری
اور محنت طلب ہے جتنی کسی باغ کی دیکھ بھال اور آرائش۔ماں کی محنت،توجہ اور
ایثار ان پھولوں میں رنگ بھرتا ہے۔اس طرح وہ دلکش اور کارآمد بنتے ہیں۔
نپولین نے کہا تھا۔تم مجھے اچھی مائیں دو،میںتمہیں اچھی قوم دوں گا۔علامہ
اقبال کا کہنا ہے:قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض
ہے۔
مسلمان معاشرے کا اپناایک تشخص ہے اور یہ دین کے حوالے سے ہے۔دین سے صحیح
طور پر واقف ہوئے بغیر ایک ماں معاشرے کی اصلاح کس طرح کر سکتی ہے؟ وہ اپنی
ذمہ داری جانے بغیراپنا کردار کس طرح بھر پور ادا کر سکتی ہے؟اسے علم ہو نا
چاہیے کہ اس کا دین ایک مکمل دین ہے۔اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا، پڑھنا لکھنا
ہر عمل دین کے تابع ہے اور اپنے ہر عمل کے لیے رب کریم کو جواب دہ ہے۔
تربیت اولاد کے لیے اہم نکات
۱۔ نکاح کے وقت اپنے بچوں کے لیے ایسی ماں کا انتخاب کیا جائے جو عقل و فہم
کے ساتھ ساتھ دل و نگاہ سے بھی مسلمان ہو۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:”دنیا متاع ہے اوراس کی بہترین متاع نیک عورت
ہے۔“(ریاض الصالحین)
۲۔ ماں اور باپ دونوں کثرت سے صالح اولاد کی دعا کریں۔
۳۔ ماں،دوران حمل کثرت سے اللہ کاشکر ادا کرتی رہے۔اس دوران پیش آنے والی
کسی بھی جسمانی یا ذہنی تکلیف کو صبراور خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔اللہ
کاذکر،نماز کی پابندی،باوضو رہنے کی کوشش،اچھی اور پاکیزہ گفتگو اختیار کرے
۔اس مدت میں ماں کی افسردگی،بے چینی اور بے آرامی بچے پر اثر انداز ہوتی
ہے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ والدین بچے کو جو بنانا چاہتے ہیں اس زمانے
میں ماں کو اسی کی طرف یکسو ہونا چاہیے۔جس لائن پر لگا نا چاہتے ہیں،جس
مضمون یا فن کا ماہر بنا نا چاہتے ہیں،ماں کواس کی طرف توجہ دینی چاہیے اور
ویسے ہی ماحول میں رہناچاہیے۔اسلاف کی مائیں اس زمانے میں کثرت سے قرآن
مجید کی تلاوت کرتیں یا قرآن مجید سنا کرتی تھیں۔
۴۔ماں کو چاہیے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ،شکر گزاری کے گہرے جذبات
کے ساتھ بچے کا ستقبال کرے۔بیٹاہو یا بیٹی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایک
مسلمان کی حیثیت میں پیدا ہونے پر مولود کے کان میں اذان و اقامت
کہلوانا،نیک ،صالح فرد کے ہاتھوں تحنیک یا گھٹی دلوانا،اچھا اور بامعنی نام
رکھنا،مدت رضاعت میںدودھ پلانا بچے کے وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی ادائیگی کا
اہتمام کرنا ضروری ہے۔ ایک نیک و صالح ماں پہلے سے ہی ان باتوں کے باے
میںاچھی طرح سوچ کر مشورہ کر چکی ہوتی ہے ۔
۵۔دودھ پلانے کی مدت میں باوضو حالت میں دودھ پلانے اور اس دوران قرآن مجید
کی تلاوت کرتے رہنے سے بچے کی شخصیت پر بہت مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب
ہوتے ہیں۔تجربات بتاتے ہیں کہ ایسے بچے غیر معمولی ذہین اور سمجھدار ہوتے
ہیں۔
۶۔چالیس دن کے اندر کیسٹ کے ذریعے، ہلکی آواز میںقرآن مجید کی تلاوت سنا
دینے سے بچہ قرآن سے مانوس ہو جاتا ہے۔
۷۔بتدریج بڑھتے ہوئے بچے کے ساتھ اچھی گفتگو کرنا،لباس تبدیل کرواتے
اورکھلاتے پلاتے وقت دعائیں پڑھنا،اچھی کہانیاں سنانے سے بچے کی شخصیت مثبت
رخ پر پروان چڑھتی ہے اور اس کے ذخیرہ ¿ الفاط میں اضافہ ہوتا ہے۔
۸۔بچہ بولنا شروع کرے توسب سے پہلے اللہ کا نام سکھا یا جائے،اذان کی طرف
متوجہ کیا جائے،کلمہ طیبہ،بسم اللہ،الحمد للہ،السلام علیکم جیسے چھوٹے اور
بابرکت الفاظ نہ صرف سکھائے جائیںبلکہ متعلقہ مواقعوں پر انہیں کہنے کا
اہتمام بھی کیا جائے۔
۹۔بچے کی تربیت و کردار سازی میں ابتدائی چند سال بہت زیادہ اہم ہیں۔بچپن
کا ماحول بچے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتاہے اور بچہ اسی ماحول کے زیر اثر
زندگی گزارتا ہے۔شروع کے چند سال بچے کو والدین اور خاص طور پر ماں کی
بھرپور توجہ اور شفقت نہ ملے اور باہم تعلق پید انہ ہوتو بچے کے اندر غیر
معمولی جارحانہ پن اورمنفی انداز فکر پید اہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ماں
کی قربت میں بچے کے لیے ایک خاص کشش رکھی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی ۔
۰۱۔ بچہ کچھ اور بڑا ہو جائے تو یہ عمر ایک جستجو کی عمر ہوتی ہے۔ذہنی
استعداد کے مطابق بہت کچھ پہلے ہی سیکھ اور سمجھ چکا ہوتا ہے۔ اس وقت تک اس
کا لا شعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ اب اس کا ظہار کرنا چاہتا ہے۔
جسمانی صحت کا خاص خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ وقت ہے جس میں اس کے تصورات
اور مزاج کو ایک رخ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس کے سوالا ت کے تسلی بخش
جواب دینا،اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت مختلف طریقوں سے اس کے اندر پید
اکرنا،دین اسلام کی سچائی ا س کے دماغ میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وقت
ہے جب وہ اپنے ارد گرد کے بچوں کے زیر اثر کچھ ایسی باتیں اورعادات سیکھ
سکتا ہے جو اس کے لیے غیر مناسب اور اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہوں مشلًا
سالگرہ منانا،موسیقی کی طرف رغبت،نئی نئی چیزوں کی فرمائش وغیرہ۔یہ و قت
والدین اور خاص طور پر ماں کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ کس طرح اس کے ذہن کو
مطمئن کرتی ہے اور حدود کی پاسداری کرنا سکھاتی ہے ۔ماں، ان مواقعوں پر
انتہائی صبر کے ساتھ بچے کی بات توجہ سے سنے۔اس کے مطالبہ کو بے جا کہہ کر
نظر انداز نہ کرے ۔مطالبہ کے پس پردہ محرک کا جائزہ لے کر ،بچے کی نفسیات
کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی تربیت و اصلاح کرے۔شدت اور سختی اصلاح کے بجائے
بگاڑ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔تصورات کی اصلاح کی گئی تو عمل کی اصلاح خود بخود
ہو جائے گی ان شاءاللہ۔اللہ تعالی نے ہر بچے کو ایک الگ مزاج کے ساتھ پیدا
کیا ہے۔اسے اس کے مزاج کے مطابق سکھایا جائے تو وہ بہتر سیکھ سکتا ہے۔ نبی
اکرم ﷺ کے انداز تبلیغ میں ایسی بے شمار روشن مثالیںموجود ہیں کہ آپ نے
لوگوں کے مزاج اور ماحول کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیںدین اسلام کی تعلیمات سے
روشنا س کروایا جس سے ان کے لیے ان پر عمل کرنا آسان گیا۔
۱۱۔ سات سال کی عمر سے اللہ تعالی نے نماز کی ادائیگی کاحکم دیاہے۔اس سے
قبل بچے کو نماز کا سبق تھوڑا تھوڑ اکر کے یاد کروا دیا جائے۔گھر میں ماں
نماز کی پابندی کرنے والی ہو گی تو بچہ خود بخود جائے نماز پر آجائے گا ور
اس کے ساتھ رکوع اور سجود کرنا سیکھ لے گا۔ سات سال سے قبل بچے کی ذہنی
صلاحیت کے مطابق اسے نماز ادا کرنے کا عملی طریقہ سکھایا جائے۔ وضو
کرنا،کھڑ اہونا،رکوع سجدہ کرنا،بیٹھنے کا طریقہ بتا یا جائے۔سات سال کا
ہوتے ہی ایک نماز سے آغاز کروایا جائے اور بتدریج بڑھاتے چلے جائیںیہاں تک
کہ دس سال کی عمر تک بچہ پانچوں نمازیںادا کرنے کے قابل ہو جائے۔اس کے لیے
اللہ سے خاص دعابھی مانگی جائے۔
۲۱۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچے اور بچیوں کے اندر حیا کو بڑھانے کی طرف
توجہ دی جائے۔ لباس کی اصلاح کرنا ماں کی ذمہ داری ہے۔حیا کے تقاضوں کا
خیال رکھنے،لڑکوں کو گھٹنے سے اوپر لباس نہ پہننے،لڑکیوں کو سینہ اور سر
ڈھانکنے کی تربیت دی جائے تاکہ بلوغت کے بعد ستر اورحجاب کے احکامات پر عمل
کرنے میں انہیں کسی مشکل یا تنگی کا سامنا نہ ہو۔
بچے کی تربیت،نہ ختم ہونے والی ایک اہم ذمہ داری ہے۔اللہ تعالی سے دعااہے
کہ وہ ہر ماں کو اپناکردار بخوبی ادا کرنے اور ایسی نسلوں کو پروان چڑھانے
کی توفیق عطا فرمائے جو دنیا میں دین کی سربلندی اور آخرت مین فلاح کا سبب
بن سکیں۔آمین |