اختلاف فطرتِ انسانی کا ایک حصہ
ہے،اختلاف کی جلوہ گری نظامِ کائنات میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔شب و
روز،نور و ظلمت،نشیب و فراز،خیر وشر،حق و باطل اور اسلام و کفروغیرہ اس کے
مظاہر ہیں۔اس کی تاریخ وجودِ آدم سے بھی پرانی معلوم ہوتی ہے،جب پروردگارِ
عالم نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ مَیں زمین پراپنا نائب تخلیق کرنے والا
ہوںتو فرشتوں نے اس کی حکمت کو نہ جانا اور اس پر اندیشہ ظاہر کیاجس پر
اللہ پاک نے فرمایاانی اعلم مالاتعلمون (مجھے معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے)(بقرہ آیت30ترجمہ کنزالایمان)فرشتوں نے فرمانِ الٰہی پر سر تسلیم خم
کردیا۔
اختلاف محض اختلاف کی حد تک ہوتو غنیمت ہے مگر جب اختلاف انتشار کا سبب ہو
اور مخالفت پر آمادہ کرے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔اس کا آغازاس وقت ہوا جب ربِ
قدیر نے آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کاحکم فرشتوں کودیا۔فرشتے حکم بجالائے
مگر ابلیس کے مقدر میں ابدی بد بختی تھی مخالفت کر بیٹھااور ”توحیدِ
خالص“کے زعم میں جہاں اس نے حکم الٰہی کی عدولی کی وہیںاللہ کے نبی کی
بارگاہ کا گستاخ بھی ٹھہرا۔اسی لیے ابلیس کے گلے میں وکان من الکافرین کا
طوق ڈال دیا گےااورقیامت تک کے لیے یہ واضح کردیا گےا کہ تعظیمِ نبی کا
انکاریا توہینِ نبی کرکے جو بھی توحید کا دم بھرے اس کا دعویٰ جھوٹااور
کھوکھلاہے اورایسی توحید مقصود نہیں مردود ہے۔ایسی” توحیدِخالص“ کو ”ابلیسی
توحید“تو کہا جاسکتا ہے مگر اسلامی توحید نہیں کہا جاسکتا۔کیوں کی جس خالقِ
حقیقی نے اپنے وجود اور توحیدپر ایمان لانے کا حکم دیا اسی نے حضرت آدم سے
لے کر سرورِ کائنات محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا و
مرسلین علیہم السلام کی تعظیم و توقیر کو بھی جزوِایمان قرار دیا ہے۔
انبیاو مرسلین کی تعظیم و توقیر ہردور میںاہلِ ایمان کی متاعِ عزیز رہی ہے
اگرچہ اظہار کا اندازمختلف رہاہے مگر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ عمل مستحسن
اور باعثِ خیروبرکت ہی تصور کیا جاتارہاہے.... اپنے اپنے دور کے تقاضوں اور
مزاج کے مطابق صحابہ کرام،تابعین تبع تابعین اور صلحا و اولیاے امت نے
اظہارِ عقیدت و محبت کیااور تعظیم و توقیر کا مظاہرہ کیا....جس طرح مختلف
دور اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اظہارِ عقیدت و محبت کیا گیااسی طرح
ابلیسی توحیدِ خالص کے پرستاروں نے مختلف انداز میںزہر افشانی کی اورامت
میں انتشار و افتراق پھیلانے کی مذموم کوششیں کیں....گزشتہ دنوں میںہمارے
شہر میں کس طرح سے ماحول کو گرمایا گےاتھااور اتباعِ سنت کے نام پر کس طرح
گستاخی کی مہم چلائی گئی اس سے اہل علم واقف ہیں۔اصلاح کے نام پر ”ایام
اللہ“ کے خلاف زبانی و تحریری محاذآرائی برپا کرکے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے
کی کوشش کی گئی
رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکاجشن اسلامی شان و شوکت سے پوری
دنیامیںمنایاجاتاہے اور اہل ایمان اس کے انعقاداور اہتمام میں بڑھ چڑھ کر
حصہ بھی لیتے ہیں اور اس کے حسنات و برکات سے مستفیض بھی ہوتے ہےں۔یہ جشن
انسانیت کی آزادی کا جشن ہے،جس دن تمام انسانوں کے ہادی،محسنِ اعظم اور
معلمِ کائنات نے اس خاک دان گیتی کوکفرو شرک کے اندھیرے سے نجات دے کر
نورِایمان سے منور کیا،دنیا کو مقامِ آدمیت سے روشناس کروایا،شعورِ بندگی
دیااور امن و بھائی چارگی کادرس دے کر عالمی صالح انقلاب پیداکیا،اسی نبی
اعظم کے جشنِ ولادت منانے کو شرک و بدعت کہاگیااور اس جشن کے منانے والوںکو”
محبتِ رسول کے جھوٹے دعوے دار“ کہاگےا....اس لیے ہم سنجیدہ اور انصاف پسند
ذہنوںنے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ذراان ”توحیدِ خالص کے پرستاروں “سے پوچھیں کہ
اگر نبی کی ولادت کا جشن منانے والے،نبی کی عظمت و شان کاذکر کرنے والے
محبتِ رسول کے جھوٹے دعوے دار ہیں توہمیںبتائیںکہ کیاوہ لوگ محبت رسول کے
سچے دعوے دار ہیں جنہوں نے اپنی کتابوںمیں(معاذ اللہ)نبی کومردہ لکھاہے،
مجبوراور بے بس لکھاہے، چمارسے زیادہ ذلیل لکھاہے،جن لوگوں نے انبیاو
مرسلین کی مقدس بارگاہوں میں دریدہ دہنی کی ہیں کیا انہیںسچا عاشقِ رسول
کہااور ماناجائے گا؟آپ کے نزدیک عشق کا کیا معیار ہے؟؟ع
انصاف کو پکاروں انصاف کہاں ہے |