ایس ایم ایس کا بڑھتا ہوا رجحان

ہمارے ہاں بہتوں کو اب خاصی کوشش پر بھی یاد نہیں آتا کہ جب طرح طرح کے ٹی وی چینلز اور ان پر پیش کئے جانے والے چیختے چنگھاڑتے ٹاک شو نہیں تھے تب پرائم ٹائم کِس طرح گزارا کرتے تھے! کلاسیکی موسیقی کے تان پلٹوں کی طرح زمانے نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ زندگی کی سرگرم ہی بے سرے پن کی نذر ہوگئی ہے!
صہبا اختر نے کہا تھا۔
تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی

زندگی کبھی تنہا بھی ہوتی ہوگی مگر ہم نے تو اِسے کبھی تنہا نہیں دیکھا۔ اب تو یاد بھی نہیں پڑتا کہ ہر وقت رابطے میں رہنے کی وباءعام ہونے سے قبل زندگی کِس ڈھنگ اور ڈھب کی ہوا کرتی تھی۔ اب اگر تین چار منٹ تک کوئی برقی پیغام یعنی ایس ایم ایس نہ آئے تو تو دل گھبرانے لگتا ہے کہ خدا ناخواستہ سب کچھ ٹھیک تو نہیں چل رہا! ہر وقت خود کو باقی دنیا سے جوڑے رکھنے کی دوڑ جاری ہے اور فنشنگ لائن کا کسی کو کچھ علم نہیں!

مشرق و مغرب کے تکنیکی ماہرین نے ہزار طرح کے عجیب و غریب آلات بنالیے ہیں مگر اب تک وہ ایسا کوئی آلہ تیار نہیں کر پائے ہیں جو یہ بتاسکے کہ پاکستان کی فضاو ¿ں میں کس کا تناسب زیادہ ہے.... آکسیجن کا یا ایس ایم ایس کا! قدرت نے ہر بیماری کا ایک خاص موسم متعین کیا ہے مگر ایس ایم ایس کے ذریعے ”دخل در معقولات“ وہ وباءہے جو وقت اور مقام کی پابند ہے نہ محتاج! ایس ایم ایس کی وباءکے ہاتھوں وقت کو دن رات قتل کرکے بھی ہم بخوبی زندہ ہیں۔ زندہ و پائندہ قوم جو ٹھہرے!

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ زندگی، کِسی نہ کِسی طرح، سکون سے گزاری جاسکتی ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ ایسا کوئی بھی مفروضہ ذہن کے کھیت میں اگ تو سکتا ہے، پنپ نہیں سکتا۔ ابھی چند لمحوں میں کوئی نہ کوئی ایس ایم ایس آکر آپ کے تمام مفروضوں کو تہس نہس کردے گا۔

کل تک ایس ایم ایس کے جھرنے بہہ رہے تھے۔ پھر وہ دریا میں تبدیل ہوئے۔ اب ایس ایم ایس پیکیجز سمندر کی طرح ہیں جس کے ”پانی میں ڈوب کر ہم غرقاب“ ہوچکے ہیں! اب تو نئی اور پرانی نسل کی بھی کوئی قید نہیں رہی۔ ایس ایم ایس کے معاملے میں
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے!

دنیا آج بھی غار کے دور میں جی رہی ہے۔ ذہن اور ذہنیت کی فرسودگی تو ملاحظہ فرمائیے کہ دنیا بھر میں وقت کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے طریقوں کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت بچایا جائے۔ ہم حیران ہیں کہ دنیا بچائے ہوئے اِتنے سارے وقت کا کرے گی گیا؟ وقت کو بچانے سے کہیں بڑا مسئلہ اسے ٹھکانے لگانے کا ہے! پاکستانی قوم نے کئی عشروں تک وقت بچانے کی ہزار کوششیں کیں اور کامیاب بھی ہوئی۔ اور اب وقت اِتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ اسے ٹھکانے لگانا اولین ترجیح ٹھہرا ہے! کِسی بھی چیز کی زیادتی نقصان پہنچاتی ہے۔ اور وقت کا حد سے زیادہ جمع ہو جانا؟ یہ تو قیامت ہے۔ اگر وقت زیادہ ہو تو انسان کو قاتل بناکر دم لیتا ہے یعنی وقت کو kill کرنا پڑتا ہے! قتل کے الزام سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ وقت کو اِس طور ٹھکانے لگایا جائے کہ یہ بچ ہی نہ پائے! جدید ترین ٹیلی کام ٹیکنالوجی اِس معاملے میں اپنا کردار خاصی عمدگی سے ادا کر رہی ہے، بلکہ کام پر لگی ہوئی ہے!

دن کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایک ساعت بھی ایسی نہیں جو حقیقی مفہوم میں محفوظ ہو۔ آپ کچھ اچھا کھا پی کر، س ±کون سے بیٹھے ہیں کہ کسی دوست کا ایس ایم ایس آتا ہے اور آپ کا کھایا پیا حرام ہو جاتا ہے۔ آپ نے شدید گرمی کو پچھاڑنے کے لیے تربوز کا شربت پیا ہے اور ایس ایم ایس کے ذریعے طبی ماہرین کی یہ رائے آپ تک پہنچائی جاتی ہے کہ اِس موسم میں ٹھنڈے مشروبات سوچ سمجھ کر پینے چاہئیں۔ اور پھر وبائی امراض کے خدشے کی عینک سے تربوز کے شربت کو دیکھا اور دکھایا جاتا ہے! اب آپ کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تربوز کا جو شربت آپ معدے میں انڈیل چکے ہیں اس کا کیا کریں!

ایک ایس ایم ایس آتا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں آٹھ گھنٹے نیند پوری کرنا ضروری ہے تاکہ صحت برقرار رہے، جسم میں کہیں کوئی بڑی خرابی پیدا نہ ہو۔ آپ سوچتے ہیں کہ کوئی کوئی ایس ایم ایس کام کا بھی ہوتا ہے۔ آپ آٹھ گھنٹے کی نیند کے مِشن پر نکلتے ہیں۔ ابھی تین دن ہی گزرتے ہیں کہ کسی دوست کا ایس ایم ایس آتا ہے کہ ماہرین کے نزدیک چھ گھنٹے کی نیند بھی کافی ہے، آٹھ گھنٹے سونے والے اپنے دو گھنٹے ضائع کرتے ہیں! اب آپ پھر الجھن میں پڑ جاتے ہیں کہ کتنا سوئیں، کتنا نہ سوئیں!

احباب ویسے تو اور بھی کئی طرح کی کرم فرمائیاں کرتے رہتے ہیں مگر ان کا ایک خاص مشغلہ ہے بے سر و پا مشوروں سے نوازنا۔ بعض سِتم ظریف اِس طریقے سے دوستوں کے تحمل کی گہرائی ناپتے ہیں! بے سر و پا مشوروں کی ترسیل میں ایس ایم ایس ان کی خوب معاونت فرماتے ہیں۔ اگر کوئی مشورہ آپ کے حالات اور مزاج سے مطابقت رکھتا ہو تو پھر مزا ہی کیا رہا؟ مزا تو جب ہے کہ آپ کو مشورے سے نوازا جائے اور آپ تِلمِلا کر، بَل کھاکر رہ جائیں! بعض ایس ایم ایس تو شاید بھیجے ہی اِس لیے جاتے ہیں کہ یہ دیکھا جائے کہ آپ کِس حد تک اور کِس طرح آپے سے باہر ہوتے ہیں!

ہمارے ایک پنجابی دوست نے بتایاکہ میں 1994 میں رشتہ ازواج سے منسلک ہوئے۔ ٹھیک 18 سال بعد یعنی کچھ ہی دن ہوئے، ”محبت ما قبل شادی“ کے ہر دلعزیز موضوع پر ایک دوست کا خاصا ”انتباہی“ نوعیت کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔ مَتن ملاحظہ فرمائیے۔ ”اِسلام نکاح سے پہلے عِشق کی اِس لیے مذمت کرتا ہے کہ اِنسان اپنی ساری محبتیں ا ±س کے لیے بچاکر رکھے جو اِن کا اصل حقدار ہے۔ شادی سے پہلے کی محبت گویا ایسی ہے جیسے افطار سے پہلے کوئی افطار کرلے۔ افطار کا ثواب بھی نہ رہا، گناہ کا مرتکب بھی ہوا۔ کفارے کا خرچہ بھی، سزا بھی۔ جب ہم اپنے لیے پاک دامن شریکِ سفر کی تمنا کرتے ہیں تو ہمیں خود بھی ویسا ہی بننا چاہیے۔“

ہم نے جوابی ایس ایم ایس میں عرض کیا۔ ”اب تو ہم خیر سے شادی شدہ ہیں۔ اگر ’زمانہ جاہلیت‘ میں کبھی کِسی سے محبت کی بھی ہو تو اب کیا ہوسکتا ہے؟ بائی دی وے، شادی کے بعد بیوی سے محبت کرنے میں تو کوئی قباحت نہیں؟“

یہ جوابی ایس ایم ایس پڑھنے کے بعد اس دوست نے ایس ایم ایس کی ترسیل میں وقفہ متعارف کرادیا ہے! پنچ لائن یہ ہے کہ دس سال قبل یہی حضرت ایک عدد دھانسو اور دَبنگ قسم کے عِشق میں مبتلا تھے اور پھر اِس عشق کو شادی کی منزل تک پہنچانے میں ہم نے بھی گواہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا تھا! اگر ایس ایم ایس محض دو تین پیسے کا پڑتا ہو تو اِنسان بے فکر ہوکر ہر آئے ہوئے ایس ایم ایس کو آگے بڑھاتا رہتا ہے اور یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کِسے کون سا ایس ایم ایس بھیجنا یا نہیں بھیجنا چاہیے!

خالص کاروباری گھرانے سے تعلق رکھنے اور پرآسائش گاڑیوں میں سفر کرنے والے ایک شناسا کا ایس ایم ایس آیا جس کا متن کچھ یوں تھا۔ ”انسان بھی کیا شے ہے۔ دولت حاصل کرنے کے لیے صحت داؤ پر لگادیتا ہے۔ اور پھر کھوئی ہوئی صحت بحال کرنے کے لیے دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے! جیتا ایسے ہی جیسے ہزاروں سال جینا ہے اور مر اِس طرح جاتا ہے جیسے دنیا میں کبھی آیا ہی نہ تھا!“

ہم نے جوابی ایس ایم ایس میں پوچھا۔ ”بھائی صاحب! ہمارا بسوں میں سفر کرنا اور اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی خاطر نوکری کرنا کیا آپ کے نزدیک دولت کی ہوس کے زمرے میں شامل ہے؟“ اِس جوابی ایس ایم ایس کو پانے کے بعد ان کا ایس ایم ایس پیکیج کم از کم ہمارے لیے تو ختم ہوگیا!

ذرا سوچیے کہ آپ گہری نیند میں ڈوبے ہوئے ہوں اور موبائل کی ٹن ٹن سے آنکھ کھل جائے۔ اور دیکھنے پر پتہ چلے کہ تازہ ترین ایس ایم ایس میں سونے والوں پر جاگنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے! ایسے میں جی چاہتا ہے کہ موصوف سامنے ہوں اور آپ مار مار کر اسے گہری نیند سلادیں!

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کِسی کو دوست کی طرف سے ایس ایم ایس کے ذریعے سِری پائے کی دعوت ملتی ہے۔ بندہ تیار ہوکر جب دوست کے گھر پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پایوں کا پتیلا صاف ہوئے تین گھنٹے گزر چکے ہیں۔ تحقیق سے منکشف ہوتا ہے کہ ایس ایم ایس مذاق پر مبنی نہیں تھا مگر کمپنی کے سسٹم میں پھنس جانے کے باعث چار گھنٹے کی تاخیر سے ملا! ہم پاکستانیوں کی بھی کیا قسمت ہے کہ ہر کام کی چیز دیر سے ملتی ہے۔
Mohammad Siddiq Shamshad
About the Author: Mohammad Siddiq Shamshad Read More Articles by Mohammad Siddiq Shamshad: 16 Articles with 12879 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.