خادم اعلیٰ پنجاب، شکریہ

خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جہاں صوبہ بھر کی عوام کو دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کمربستہ ہیں وہاں سفری دشواریوں کے تدارک کیلئے بھی ہنگامی اقدامات اٹھا رہے ہیں جس کی ایک مثال غیر ملکی کمپنیوں کے اشتراک سے شیخوپورہ تا لاہور میٹرو سٹی بس سروس کے منصوبہ کا اجراءہے ، سی این جی سے چلنے والی ا س بس سروس کے اجراءکاسہرہ سٹی ایم این اے میاں جاوید لطیف کے سر ہے، جسے انکی عوام دوستی کا برملا اظہار کہا جائے توقطعی غلط نہ ہوگا، جس سے ایک طرف شیخوپورہ سے لاہور اور اسکے راستہ میں آنے والے علاقوں کے ہزاروں لوگوں کی سفری مشکلات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے تو دوسری طرف نہایت کم کرایہ جات پر معیاری سفری سہولت میسر آئی ہے درحقیقت بتی چوک شیخوپورہ سے بتی چوک لاہور تک بڑی بسوں پر سفر نہایت دشوار گزار تھا آئے جبکہ روز سی این جی کی بندش و سی این جی اسٹیشنز مالکان کی ہڑتال کی وجہ سے کرائے زائد اور بونس میں دھکے عوام کا مقدر تھے، گاڑیاں کم ہونے کی وجہ سے مرد حضرات تو بسوں کی چھتوں پر بھی سوار ہو کر امور زندگی کے سلسلہ میں اپنی منزل مقصود تک کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے تھے مگر ورکنگ وویمن اور خصوصاً بچوں کے ہمراہ سفر کرنیوالی خواتین کسی گاڑی میں بیٹھنے کی گنجائش کے انتظار میں کئی کئی گھنٹے کھڑے رہنے کی صعوبتیں اٹھاتیں اور چاہتے نہ چاہتے گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ڈھونسے جانے پر مجبوراً سفر اختیار کرتیںجبکہ ٹیوٹا ہائی ایس اور کوسٹر ویگنوں میں سفر کرنےوالے مسافر اس سے کہیں بڑھ کر دشواریوں کا شکار تھے اور اکثر اوقات چوک مینار پاکستان لاہور کے بس اسٹاپ پر بھرپور رش کی حامل گاڑیوں پر سے چڑھتے اترتے وقت کھینچا تانی کے دوران جیب تراش مسافروں کی جیبوں کا صفایا تک کرجاتے یہی نہیں بلکہ قیمتی اشیاءکا گاڑیوں سے چرایا جانا بھی معمول تھا، آئے روز کنڈیکٹروں اور ڈرئیوروں کی بدتمیزیوں کی وجہ سے مسافروں کا باعزت سفرکرنا ایک خواب بن چکا تھا، ایسے میں جب میٹرو سٹی بس سروس کا شیخوپورہ سے باقائدہ اجراءہوا تواسے بھرپور عوامی پذیرائی میسر آئی جسے دیکھتے ہوئے راقم کے دل میں بھی خواہش سفر پیدا ہوئی اور اگلے ہی روز لاہور سے شیخوپورہ تک کا سفر اختیار کرنے کیلئے مینار پاکستان بس اسٹاپ پر گاڑی کا منتظر تھا کہ تھوڑے انتظار کے بعد گاڑی آگئی، مگر رش کے باعث اسکے کچھا کھچ بھرے ہونے پر فکر میںپڑ گیا مگردل کو امادہ کیا کہ کچھ بھی ہو شیخوپورہ واپسی کا سفر آج اسی بس سروس کے تحت اختیار کیا جائے گااور اس خواہش کی تکمیل کیلئے آٹو رکشہ پکڑا اور ریلوے اسٹیشن جاپہنچا تاکہ سیٹ پر بیٹھ کر پرسکون سفر کالطف لے سکوں، ریلوے اسٹیشن کے قریب پہنچ کر دیکھنے کو ملا کہ وہاں ان سی این جی بسوں کا باقائدہ ایک ٹرمینل قائم کیا گیا تھا البتہ وہاںبھی رش دیدنی تھا اور پہلے سے ہی مسافروں کی ایک کثیر تعداد بس کے انتظار میں تھی بہرحال بس 20، 25 منٹ بعد ٹرمینل پر آن پہنچی جسے دیکھتے ہی مسافر اسکے رکنے سے پہلے ہی اسکی طرف لپکے یہ نظارہ دیکھ کر سیٹ پر بیٹھ کر سفر کرنے کی خواہش میرے دل میں دم توڑنے لگی ، صورتحال یہ تھی کہ بس میں بغیر چیکنگ اتنی زیادہ سواریوں سوار ہو گئیں کہ بس میں کھڑا ہونا تک ممکن نہیں رہا تھا اور مجھے مجبوراً بس کے گیٹ میںکھڑا ہو نا پڑا، اچانک ایک آواز میرے کانوں میں گونجی کہ سر ادھر آجائیں اور میری سیٹ پربیٹھ جائیں جب اس طرف توجہ مبذول کی تو میں نے دیکھا کہ گیٹ کےساتھ والی سیٹ پر سے ایک نوجوان اٹھا اور مجھے بیٹھ جانے کو کہا جس پر میں نے اسکا شکریہ ادا کیا اور سیٹ پر بیٹھ گیا اور اس نوجوان نے میری جگہ کھڑے ہو کر میرا حال احوال پوچھا تو میری حیرت سوچ کو بڑھاوا دینے لگی کہ یہ کون ہوسکتا ہے البتہ اس نے یہ کہہ کر میری ساری کنفیوژن دور کردی کہ ”ساحر صاحب“ میں آپکے لکھے گئے کالم اخبارات اور انٹر نیٹ کی مختلف اخباری ویب سائیڈوں خصوصاً پاک نیوزلائیواور جیو اردو پر نہایت اہتمام سے پڑھتا اور بھرپور استفادہ کرتا ہوں اور خاص طور پر آپ اپنے کالموں میں موضوع کے لحاظ سے اپنے اشعار ایڈجسٹ کرتے ہیں وہ نہایت پرلطف و پر فہم ثابت ہوتے ہیںمگر اس وقت نہایت افسوس ہوتا ہے کہ آپکے وہ کالم جو انٹرنیٹ پر تو آپکے نام سے فراہم ہوتے ہیں لیکن مختلف اخبارات میں انہیں من و عن دیگر ناموں سے شائع کیا جاتا ہے جسکی ایک بڑی مثال 25دسمبر پر قائد ڈے اور 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر لکھے گئے کالموں کا کلر ایڈیشنوں میں دیگر مختلف ناموں سے شائع ہونا ہے، اس نوجوان کی بات سن کر میں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے فقط اتنا کہا کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنےوالوں کو ہدایت دے، البتہ مجھے یہ راحت ضرور میسر آئی کہ میری تحریریں عوام میں سراہی جانے کیساتھ ساتھ باعث استفادہ بھی ہیں اور اب میرا شاعر و صحافی کے علاوہ بطور کالم نویس بھی تشخص ابھر رہا ہے، اتنے میں بس اسٹارٹ ہوئی اور کنڈیکٹر کی آواز آئی کہ تمام سواریاں اپنا اپنا ٹکٹ سنبھال لیں کیونکہ راستہ میں چیکرز ٹکٹ چیک کرسکتے ہیں اور ٹکٹ پاس موجود نہ ہونے پر 500روپے جرمانہ بھگتنا پڑ سکتا ہے اب گنجائش سے دگنے مسافر سوارکئے یہ بس شیخوپورہ کی طرف روانہ ہوچکی تھی اور مسافر نہایت خوش تھے کیونکہ سفر تھوڑا تکلیف دہ و مشکل سہی مگر ارزاں ضرور ہے اور 40روپے میں سفری سہولت کی دستیابی پر یہ دشواری قطعی معنی خیز نہیں تھی، واضح کرتا چلوں کہ اس سے قبل لاہور سے شیخوپورہ کیلئے ڈائیوو بس سروس کا اجراءکیا گیا تھا جس نے مسافروں کی سفری مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایہ جات میں نہایت اضافہ کرتے ہوئے ایک طرفہ کرایہ 130روپے مقرر کردیاتھاجو یقینا مزدوری و ملازمت پیشہ افراد کیلئے قطعی حامل ادائیگی نہیں تھا جس کی نسبت نئی بس سروس کا اجراءبلاشبہ عوام کیلئے بھرپور ریلیف کا سبب بنا، بات دور نکل گئی بہرحال اب بس لاہور شہر سے باہر نکل چکی تھی اوراس میں سوار مسافر بس کو اپنی مرضی سے بغیر سٹاپ کھڑا کرنے کیلئے کنڈیکٹر کو تنگ کررہے تھے اور کنڈیکٹر زودار آواز سے پکارتا رہا کہ استاد جی سواری اتار دو جس پر میں نے کنڈیکٹر کو مخاطب کرکے کہا کہ اتنی قیمتی و پر آسائش گاڑی میں بیل ہی لگوا لیتے یہ سن کر کنڈیکٹر کی بے ساختہ ہنسی نکل پڑی اور بولا کہ جناب اس روڈ کی سواریاں بیل پر خواہ مخواہ ہی ہاتھ رکھ دیتی ہیں جس کی وجہ سے ڈرائیور بار بار ڈسٹرب ہوتا ہے اس لئے وقتی طور پر بیل بند کردی گئی ہے، سفر کے دوران کچھ تو سواریوں کا شور تھا اور کچھ ڈرائیور نے بھی بس میں بلند آواز سے گانے چلارکھے تھے اور گانے بھی ایسے کہ جو سننے سے قابل نہ ہوں، میں نے کنڈیکٹر سے پھر کہا کہ یار یہ جو بس میں ریکارڈنگ چل رہی ہے وہ کمپنی کی طرف سے نوازی گئی ہے یا تمہاری اپنی پسند ہے، جس پر کنڈیکٹر نے میری سنی ان سنی کردی، میں کنڈیکٹر سے پھر مخاطب ہوا کہ راستے میں ٹکٹ چیک کرتا ہے تو ٹکٹ نہ ہونے پر پانچ سو روپے جرمانہ کرتا ہے تو چیکر کو یہ بھی چاہئے کہ تمہاری چلائی جانیوالی بے ہودہ ریکارڈنگ بھی چیک کرے اور تمہیں یہ بھی پوچھے کہ سواریوں کو چیک کرکے سوار کیا ہے یا یوں ہی بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں ٹھونسا گیا ہے، خصوصاً رات کے وقت مسافروں کے ساتھ ہونےوالے ڈکیتی کے واقعات کی طرح اس بس کے مسافروں کیساتھ بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوجائے، میں نے کنڈیکٹر سے کہا کہ دیکھو! دوران سفر تم نے لازماً گانے چلانے ہیں تو ایک انکی آوازکم رکھواور دوسرا ملکی و غیر ملکی بیہودہ گانوں سے اجتناب برتو، بہتر تو یہ ہے کہ اپنے ملکی فوک گلوکاروں کے گانے چلایا کرو وہ بھی اگرمقامی گلوکاروں کی آواز میں ہوں تو کیا ہی بہتر ہے،ویسے بھی ضلع شیخوپورہ کے گلوکار کسی سے بھی کم نہیںہیں، اتنے میں کوٹ عبدالمالک کا بس اسٹاپ آگیا سواریاں اتار کر کنڈیکٹر پھر میری طرف متوجہ ہوامیں نے موقع بھانپتے ہوئے کہا کہ اس سٹاپ (کوٹ عبدالمالک )کے گلوکاروںمیں سے ایک مشہور گلوگار امانت راہی ہے جسکے آڈیو ویڈیو گانے خوب سنے اور گنگنائے جاتے ہیں، گاڑی جب اپنے اگلے سٹاپ مسن کالر کے قریب پہنچی تو میں نے گفتگو کا دائرہ بڑھاتے ہوئے کہا کہہ یہاں بہت پرانے فوک گلوکار سائیں مشتاق حسین رہتے ہیں ، اسی طرح موٹر وے پل کی قریبی آبادی کا رہائشی گلوکار غلام راج اپنے فن پر راج کررہا ہے، جوئیانوالہ موڑ (بھٹو کالونی) میں فوک گلوکار اعجاز اشرف قلندری رہتا ہے اسی طرح شیخوپورہ اور اسکے گردونواح میں مشہور گلوکار علی شہباز ، عمران چوہدری، شوکت علی سقائ، صفدر مان، رانا خوشی، خرم شہزاد، رشید علی ساجن، مصطفی کمال، جاوید مان بھکھی،منشاءکھاریانوالہ، رضا ستار،گلشن شہباز، افتخار اوپل، ملک مشتاق زخمی، زین علی اور سینئر گلوکار لالہ سرور کا تعلق بھی شیخوپورہ سے ہے، اس طرح ایک تو مقامی گلوکاروں کو پروموٹ ہونے کا موقع ملے گا تو دوسرا کسی سواری کو ذو معنی و بیہودہ گانوں پراعتراض نہیں ہوگا،اس دوران ہماری گفتگو خاموشی سے سننے والا ایک مسافر بھی اچانک گفتگو کا حصہ بنتے ہوئے بولا کہ جناب تمام عوامل نہایت معروضی ہیں اصل مسئلہ گاڑیوں کی کمی ہے جس کے باعث مسافر شدید اذیت کا شکار ہیں جن کی تعداد بڑھانا ناگزیرہے جو یقینا کثیر سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہے مگر متعلقہ حکام چاہیں تو قطعی مشکل نہیں ، دوسرا یہ کہ اس بس سروس کے سفری دورانیہ کوبڑھاتے ہوئے فاروق آباد تک محیط کیا جانا چاہئے تاکہ ان علاقوں کے باسیوں کو لاحق سفری دشواریوں کا بھی خاتمہ ہو سکے، بہرکیف بس گامزن منزل رہی اور سواریاں اترتی و چڑھتی رہیں ایسے میںمیرا سٹاپ (بتی چوک)بھی قریب آگیا اور چند فرلانگ قبل کنڈیکٹر نے سٹاپ آمد کی اطلاع دی اور گاڑی رکی تو سواریاں اترنا شروع ہوگئیںتو میں نے بھی کنڈیکٹر کو سلام کیا اور اپنی راہ لی۔
Sahir Qureshi
About the Author: Sahir Qureshi Read More Articles by Sahir Qureshi: 5 Articles with 3825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.