پاکستان پچھلے بارہ سال سے دہشت
گردی کی آگ میں مسلسل جل رہا ہے۔فوجی آپریشن بھی ہوئے ، مذاکرات بھی ہوئے
وقتی کامیابیاں بھی ہوئیں لیکن تھوڑے ہی دنوں میں حالات گھوم پھر کر پھر
وہیں آجاتے ہیں اور وطن عزیز کے دروبام اور سڑکیں و بازار پھر بم دھماکوں
سے گونج اٹھتے ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ ہر روز بے گناہوں کی جان لے رہی ہے صرف اس
میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ختم نہیں ہوتی نہ کوئٹہ میں نہ کراچی میں نہ
پشاور یا پنجاب کے کسی شہر میں ۔تھانوں پر بھی حملے ہوتے ہیں اور دفاعی
تنصیبات پر بھی۔ مہران یا پشاور ائیربیس ہو یا کامرہ اور واہ کی اسلحہ ساز
فیکٹریاں یہاں تک کہ جی ایچ کیو بھی ان کی زد میں آیا۔ اس دہشت گردی نے
ہزاروں افراد کی جان لی جن میں عوام اور خواص کی کوئی تخصیص نہیں اور نہ ہی
بچوں اور بڑوں کی کوئی تمیز ہے۔ اگر چہ حکومت اکثر اوقات مختلف قسم کے
اقدامات اٹھاتی رہی ہے کہ حالات کو قابو میں کیا جا سکے جس میں خصوصی دنوں
پر موبائل فون سروس کا بند کرنا بھی شامل ہے جس پر تنقید بھی ہوتی ہے تاہم
اکثر نتائج مثبت بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں اور دس
سال تک اِن حالات کو برداشت کرنے کے بعد عوام بجا طور پر کسی ٹھوس اور
مستقل حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دہشت گرد اس وقت جس آزادی اور تسلی سے اپنا کام کر رہے ہیں ضروری ہے کہ
انکے پکڑے جانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے ۔ اور تمام جدید اور سائنسی
طریقہ ہائے کار بروئے کار لائے جائیں تاکہ شواہد نہ ملنے کا عذر بھی ختم
کرکے انہیں سخت ترین سزائیں دی جاسکیں اور ان کو دوسروں کے لیے نشان عبرت
بنایا جا سکے۔ حکومت نے اگر چہ دہشت گردی روکنے کی وقتی کوششیں جاری رکھی
ہوئی ہیں تاہم کوئی ٹھوس قانون سازی نظر نہیں آرہی تھی۔ اب پارلیمنٹ نے 20
دسمبر 2012 کو ایک بل منظور کیا ہے اور اسے فئیر ٹرائل بل کا نام دیا ہے ۔
جس کے تحت ملک کی چھ انٹیلجنس ایجنسیوں اور قانون نا فذ کرنے والے اداروں
کو یہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی شہری کے ٹیلیفون، ای میلز اور
ایس ایم ایس کو پڑھ یا سن سکیں گے اور ان میں مداخلت کر کے اسے روک بھی
سکیں۔ ان اداروں میں تینوں مسلح افواج کی خفیہ ایجنسیاں ، آئی ایس آئی، آئی
بی اور پولیس شامل ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ بل شہریوں کے نجی معاملات
میں مداخلت ہے جو کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک ناپسندیدہ فعل اور عمل ہے
اور اس کی زد میں انتہائی ذاتی رابطے اور معاملات بھی آسکتے ہیں جو کہ کسی
طرح بھی پسندیدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اور اِن ہی نکات کو بنیاد بنا کر
اعتراض کرنے والے اس بل کی مخالفت کر رہے جو کہ عام حالات میں تو بالکل بجا
اور مناسب سمجھی جا سکتی ہے لیکن اِن دنوں ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اُن
میں کچھ سخت فیصلوں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہ بات سب ہی
مانتے ہیں کہ موبائل فون نے ایسی کاروائیوں کے دوران باہمی رابطے اور ربط
کو کتنا آسان کر دیا ہے ۔ انٹر نیٹ اور ای میل نے بھی کسی راز کو راز نہیں
چھوڑا۔ گوگل ارتھ سے اگر ایک عام شہری کسی بھی عمارت اور موقع کی انتہائی
درست سمت اور مقام کا تعین کر سکتا ہے تو ایک دہشت گرد گروہ بھی اپنے خودکش
کا رندوں کو اس مقام تک پہنچا سکتا ہے اور وہ یہ ٹیکنالوجی بڑی کامیابی سے
استعمال کر رہے ہیں ، اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد کوئی دستاویزی ثبوت موجود
نہیں ہوتا نہ ہی کوئی اور ثبوت اور شواہد مجرم تک پہنچنے کے لیے موجود ہوتے
ہیں اور ان ہی نا کافی ثبوتوں کی بنا پر ہماری عدالتیں کچھ ایسے مجرموں کو
بھی چھوڑ دیتی ہیں جو کہ جائے وقوعہ سے پکڑے گئے ہوتے ہیں جس کی ایک بڑی
مثال تو ڈاکٹر عثمان کی ہے ۔اسے پکڑے جانے کے بعد چھوڑا گیا اور تب ہی اُس
نے جی ایچ کیو پر حملے کی منصوبہ بندی اور سرکردگی کی۔
مذکورہ بل کم از کم ان ثبوتوں کو تو مستحکم کرے گا جو اب تک گرفت میں نہیں
آرہے تھے۔ پاکستان میںجس حساب سے دہشت گردی ہورہی ہے اور جس طرح انسانی
جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے جس طرح اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس
کے لیے کوئی بھی ایسی قانون سازی کی جائے جو اِن واقعات کی روک تھام میں
مدد گار ہو تو وقتی طور پر اس کے منفی اثرات کو بھی قبول کیا جا سکتا ہے
جہاں تک اس قانون کو لاگو کرنے میں احتیاط کا سوال ہے اس کو ضرور برتنا
ہوگا۔ مخالفت کرنے والے اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسے غلط استعمال
کیا جا سکتا ہے اگر چہ اسے استعمال کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے کسی جج کی
اجازت کی ضرورت ہوگی تاہم پھر بھی اس پر سخت نگرانی اور احتیاط کی ضرورت
ہوگی جہا ں تک کچھ سیاسی جماعتوں کے اس خدشے کا سوال ہے کہ سیاسی مخالفین
اسے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں تو اس کا علاج خود سیاستدانوں
کے پاس ہے کہ وہ خود کو اتنا مہذب اور شائستہ بنائیں کہ کسی ایسی غیر مہذب
حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں سیاست اور دہشت گردی میں فرق کو قائم
رکھیں اور ایسا کرنے والے کسی سیاسی کا رکن کو خود اپنی ہی جماعت اتنی سخت
سزا ضرور دے کہ دوسرا ایسی حرکت کرنے کا سوچے بھی نا۔ بجائے اندیشوں اور
خدشوں کے ہمیں اپنے قومی اور سیاسی کردار کی تعمیر کرنا ہوگی۔ جہاں تک
مختار اداروں کی طرف سے خوف ہے تو اگر ہم اِن کو قومی سلامتی کا ذمہ دار
سمجھتے ہیں تو اِن پر بھروسہ بھی کرنا ہوگا۔ مختصراََ یہ کہ ’’انوسٹٹیگیشن
آف فئیر ٹرائیل بل‘‘ کے اگر کچھ منفی اثرات ہوں بھی تو ہمیں دہشت گردی کے’’
جن‘‘ سے لڑنے کے لیے کچھ سخت فیصلے کرنا اور قبول کرنا ہونگے اگر قومی
اسمبلی نے اس بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے تو اسے قانون و آئین کا
حصہ بنا کر لاگو کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے اس وقت ملک جس
انتہا درجے کے مسئلے سے دوچار ہے اُس کا مقابلہ ہر محاذ پر ضروری ہے تاکہ
شہریوں کے جان و مال کو محفوظ بنا یا جا سکے۔ |