سال2012ع میں پاکستان دہشت گردی کی زد میں

کب کیا ہوا؟
2001ع سے اَب تک پاکستان میں 35 ہزار افراد دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیںجب کہ پاکستانی میڈیا کے مطابق ملک میں2007 ع سے لے کر اَب تک ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تقریبا ساڑھے تین ہزار افرادہلاک ہو چکے ہیں

نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان جن مصائب سے دوچار ہوا اس کا سلسلہ گذشتہ سالوں کی طرح اس برس بھی جاری رہا۔ پاکستان جہاں لا اینڈ آرڈرکے مسئلہ کا گذشتہ کئی دہائیوں سے حل کا متلاشی تھا وہیں دہشت گردی، ٹاگٹ کلنگ، بھتّا خوری اور مذہبی جنونیت کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کی کیفیات نے ملک کو کئی بحرانوں سے دوچار کیے رکھا۔ سال 2012ع میںدہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں کے درجنوں واقعات رونما ہوئے۔ یہ رپورٹ سال 2012ع میں دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات سے متعلق نہایت باریک بینی اور عرق ریزی سے تیار کی گئی ہے تا کہ قارئین اصل حقائق کو جان سکیں اور سمجھ سکیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حقیقتاً پاکستان کا کس قدر اخلاقی اور جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے۔

جنوری2012ع
جنوری2012ع کے آغاز کے ساتھ ہی یکم جنوری کو اہلِ تشیع کی سیاسی جماعت پاسبانِ جعفریہ کے شیعہ رہنما عسکری رضا کو کراچی میں موٹر سائیکل سوار دو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر قتل (شہید) کر دیا مرحوم عسکری رضا اپنے دوست کے ہمراہ اُس کی کار میں تھے۔ حملے کے دوران مرحوم کے دوست زخمی ہو گئے جب کہ اُن کے ساتھی نے حملہ آوروں پر جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں ایک حملہ آور زخمی ہوا لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ احتجاجاً 15ہزار کے لگ بھگ شیعہ مسلک کے ماننے والوں نے گورنرہاﺅس سندھ کا گھیراﺅ کر کے احتجاج کِیا۔
3جنوری:
پاکستان کے تین شہروں گجرات، پشاور اور لنڈی کوتل (خیبر ایجنسی) میں یکے بعد دیگرے تین بم دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر کم از کم پانچ افراد مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
4جنوری:
بلوچستان کے علاقے سوئی میں ریموٹ کنٹرول دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں امن فورس کا ایک گارڈ ہلاک اور دو قبائلی عمائدین زخمی ہوئے۔
5جنوری:
اورکزئی ایجنسی میں پاکستانی طالبان نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 15سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ ان سپاہیوں کو اغوا کرکے قریباً سال بھر حراست میں رکھا گیا تھا۔ پاکستانی طالبان نہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان لاشوں کو ”نئے سال کا تحفہ“ قرار دیا۔ جنوبی وزیرستان سے لاشیں بازیاب ہوئیں جن پر تشدد کے نشانات واضح ہونے کے علاوہ ہر لاش سے قریباً 40گولیاں برآمد ہوئیں۔ دہشت گردوں کی جانب سے ایک پیغام میں کہا گیا کہ ان سپاہیوں کا قتل پختون قبائلی روایات اور اسلام کے خلاف فوجی اپریشن کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔ بعد ازاں سپاہیوں کی تدفین اعلیٰ سرکاری اعزازات کے ساتھ کی گئی اور فرنٹیئر کانسٹیبلری ہیڈ کوارٹر میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
7جنوری:
گلگت میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے دوران مختلف علاقوں میں 4افرادکو جاں بحق کر دیا گیا جس پر گورنر گلگت بلتستان نے دہشت گردوں کو ملتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا۔
9جنوری:
5جنوری کو کانسٹیبلری کے 15سپاہیوں کی شہادت کے محض4دن بعد دسمبر2011ءمیں اغواکیے گئے 15ساپہیوں کو عسکریت پسندوں نے کاروائی کے دوران قتل کر دیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی۔
10جنوری:
خیبر ایجنسی (فاٹا) میں افغان بارڈر کے قریب جمرود کے قصبے میں پٹرول پمپ کے قریب ایک بم دھماکہ ہوا جس سے موقع پر 30افراد جاں بحق اور 72افراد زخمی ہو کر انتہائی تشویشناک حالت میں ہسپتال میں لائے گے۔
12جنوری:
بلوچستان لبریشن آرمی نے تربت کے قریب سپاہیوں کے ایک دستے پر کارروائی کی جس کے نتیجے میں 14سپاہی جاں بحق ہو گئے۔
12جنوری:
پشاور کے قریب ایک پولیس چوکی پر عسکریت پسندوں کی عسکری کارروائی کی۔خیبر ایجنسی کی سرحد پر واقع پشاور کے مضافاتی علاقے سربند میں ریاض شہید چوکی پر 1 سو 50 کے قریب عسکریت پسندوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کا ایک سپاہی جاں بحق جبکہ آٹھ دیگر سیکورٹی اہلکار زخمی ہونے کے علاوہ 11افرد زخمی ہوئے۔ اس واقعے میں کم از کم 7 عسکریت پسند بھی مارے گئے۔
13جنوری:
12جنوری کو پولیس چیک پوسٹ پر حملے کے واقعے کے اگلے ہی روز پشاور کے جنوب مغربی علاقے میں واقعہ پولیس سٹیشن کو نشانہ بناتے ہوئے تین افسران کو قتل کر دیا گیا۔
14جنوری:
4خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ضلعی پولیس آفس پر حملہ کر دیا۔ حملہ کے دوران سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں تو کامیاب نہ ہو سکے لیکن فائرنگ کے تبادلے کے دوران تین خود کش حملہ آروں نے خود کش دھماکے سے خود کو اُڑا لیا جب کہ ایک حملہ آور سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں مارا گیا۔ حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھے اور ان میں سے دو حملہ آور شناختForeignerتھے۔ اس واقعہ کے دوران 3شہری، ایکس پاہی جان بحق ہوئے اور 8افراد شدید زخمی ہوئے۔
15جنوری:
ضلع رحیم یار خان میں کان پور کی ایک تحصیل میں چہلم حضرت امام حسینؓ کے جلوس کے دوران ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 18افراد موقع پر ہی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔
18جنوری:
کراچی میں وارد ٹیلی کام فرنچائز کے ایک ریجنل سیلز آفیسر احسن کمال کو دو مسلح نامعلوم افراد اسلحے کی نوک پر لوٹنے کی کوشش کی۔احسن کمال کے مزاحمت کرنے پر دہشت گردوں نے گولی مار کر قتل کردیا۔
25جنوری:
کراچی ہی میںشہری عدالت کے قریب نامعلوم افراد نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے تین وکلا حضرات کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔
30جنوری:
پشاور میںایک خود کش حملے میں کم از کم چار افراد مارے گئے۔ مرنے والوں میں مقامی بنیاد پرست تحریک انصارالاسلام کے رہنما حاجی اخوند زادہ بھی تھے زیادہ اندازہ یہی ہے کہ یہ دھماکہ اخوند زادہ کو مارنے کے لیے ہی کیا گیا تھا کیوںکہ یہ دھماکہ ان کے گھر کے بہت ہی نزدیک کیا گیا تھا۔ سیکورٹی حکام کے خیال میںیہ کاروائی مقامی گروہ " لشکر اسلام " کی لگتی ہے۔
31جنوری:
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں ٹیلی نار فرینچائز کے اندر دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک محافظ اور ایک عورت موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی۔

فروری2012ع
9فروری:
پاکستان میں القاعدہ کا اعلٰی ترین رہنما بدر منصور 9 فروری کو شمالی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام میران شاہ میں مارا گیا۔القاعدہ سے منسلک پنجابی طالبان کے بدر منصور گروپ کے مرکزی ہیڈکوارٹر میں چار دیگر اعلٰی کمانڈر بھی ہلاک ہو گئے۔ یہ ہیڈکوارٹر ظفر کالونی کے نزدیک میران شاہ بازار میں قائم تھا۔
17فروری:
پارا چنار کے ایک بازار میں خودکش دھماکے کے نتیجے میںشیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے41افراد جاں بحق ہوئے۔بعد ازاں تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک علیحدہ پسند گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
18فروری:
تحریک طالبان پاکستان نے پارہ چنار میںدھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم 41 افرادہلاک ہوئے ، خود کش حملہ آورنے پارہ چنارکے ایکمصروف تجارتی چوک میں اپنے آپ کو اڑا دیا تھا۔ اطلاعت کے مطابق اس دہشت گردانہ حملے کا نشانہ مقامی شعیہ افراد تھے۔
18جنوری:
پاکستان میں ریڈیو وائس آف امریکا کے لیے پشتو زبان میں پروگرام نشر کرنے والے صحاقی مکرّم خان عاطف کو قتل کر دیا گیا ہے۔ انھیںان کے آبائی شہر شبقدر میں جنگجووں نے گولی کا نشانہ بنایا۔ عاطف کے قتل میں طالبان ملوث ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے لیے پشتو زبان میں ریڈیو وائس آف امریکا کے لیے پروگرام نشر کرنے کے باعث انھیںمسلسل دھمکیاں دی جاتی تھیں۔
19فروری:
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ریموٹ بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک اور چار زخمی ہو ئے۔ پولیس اہلکار اس حملے کا نشانہ تھے کیوں کہ ایک روز قبل اس علاقے میں پولیس اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
23فروری:
پشاور میں ایک ریموٹ کنٹرول کار دھماکا ہوا،جس میںکم از کم12افراد لقمہ اجل بنے اور32زخمی ہوئے۔
23فروری:
پشاور میں کوہاٹ کوچ سٹینڈ میں ایک خوفناک بم دھماکے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 15 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔شہر کے جنوبی علاقے میں واقع پرہجوم اڈے میں دھماکہ صبح تقریبا 11.05 ہوا جب سینکڑوں مسافر خیبر پختونخواہ (کے پی) کے جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقہ جات کے لیے روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔دھماکے کی وجہ سے ایک گہرا گڑھا پیدا ہو گیا اور اس سے 15 گاڑیوں اور کچھ ملحقہ عمارات کو نقصان پہنچا۔
24فروری:
پشاورمیں3خودکش حملہ آوروں نے پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کردیا۔ حملہ آوروں نے پشاور میں کوٹ ولی تھانے پر حملہ کیا۔ انھوں نے تھانے میں اپنی ہلاکت سے پہلے مرکزی دروازے پر کھڑے پولیس افسران کو قتل کیا اور دستی بم پھینکے۔ ایک پولیس اہلکارتھانے پر پہرہ دے رہا ہے۔ خودکش حملہ آوروں نے تھانے پر حملہ کرکے چار پولیس افسران کو قتل کر دیا۔پولیس نے بتایا کہ حملے میں چار اہلکار ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔ پولیس کی فائرنگ اور دہشتگردوں کی اپنی خودکش جیکٹیں پھٹنے کی وجہ سے تین حملہ آور بھی ہلاک ہو گئے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی عبداللہ اعظم بریگیڈ نے اپنے ترجمان ابو ضرار کے ذریعے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ نامعلوم مقام سے بذریعہ ٹیلیفون اس نے کہا کہ حملے کا مقصد شمالی وزیرستان میں عسکریت پسند بدر منصورکی موت کا بدلہ لینا تھا۔
27فروری:
نوشہرہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی ریلی کے بعدایک بم دھماکا ہوا جس میں7افراد جاں بحق اور20سے زائد زخمی ہوئے۔بمدڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکا ریموٹ کنٹرول تھا جو سڑک کے ساتھ ایک پارک میں نصب کِیا گیا تھا۔
28فروری:
کوہستان میں عسکریت پسندوں نے ایک شیعہ مسلم بس میں سوار18افراد کو قتل کردیا۔

مارچ2012ع
4مارچ:
پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی (ش) کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاو ¿ کے قافلہ پر خودکش حملہ ہوا۔ آفتاب احمد خان شیرپاو ¿ کا قافلہ چارسدہ سے گزر رہا تھا کہ خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ آفتاب احمد خان شیرپاو ¿ اس حملے میں بال بال بچے گئے جب کہ ان کا ایک محافظ ہلاک اور کم از کم6 افراد زخمی ہو گئے۔آفتاب احمد خان شیرپاؤ پر کیا جانے والا یہ پہلا قاتلانہ حملہ نہیں ہے۔ شیرپاؤ2004سے2007 تک آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے وزیر داخلہ کے طور پر شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
11مارچ:
پشاورکے علاقے بڈھ بیرمیں طالبان مخالف سیاستدان کی نمازِجنازہ کے لیے آئے ہوئے زائرین پر خود کش حملہ ہوا جس میں 15سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور اَن گنت زخمی ہوئے۔بعدازاںاگلے روز جنازے پر ہونے والے خودکش حملے کے مزید دو زخمی لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 17 ہو گئی۔
15مارچ:
پشاور کے شمال مغربی شہر میں خودکش دھماکے میں ایک سینئر پولیس آفیسر جاں بحق ہوا اوراِس کے متعدد سیکورٹی گارڈز زخمی ہوئے۔
20مارچ:
پشاور کے ایک علاقے میںرکشہ میں نصب بم دھماکا ہوا،جس سے 2پولیس اہلکار جاں بحق اور 4زخمی ہوئے۔
23مارچ:
پشاور میں خودکش حملہ آور نے خود کو مسجد کے باہر اُس وقت اُڑا لِیا جب نمازیوں کی کثیر تعداد نماز ادا کرنے مسجد میں جمع تھی۔دھماکے سے13افراددَم توڑ گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔
24مارچ:
دہشت گردوں کے ٹھکانے کی اطلاع ملنے پر پاکستانی سیکورٹی فورسز کے دستے نے شمال مغربی قبائلی علاقے میںکاروائی کرکے 22عسکریت پسند ہلاک کر دیے جب کہ کم از کم7سپاہی شہید ہوئے۔
24مارچ:
صوبہ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے پاکستان پیرا ملٹری چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے4سپاہیوں کو شہید اور4سے زائد افراد کو اغواءکر لِیا۔
25مارچ:
پشاور میں افغان بارڈر کے قریب شمال مغربی قبائلی علاقے میں چیک پوسٹ پر درجنوں طالبان نے حملہ کردیا۔جس سے چیک پوسٹ پر تعینات اہلکاروں میں سے کم از کم3اہلکار موقع پر ہی دَم توڑ گئے۔

اپریل2012ع
4اپریل:
خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں مسافروں سے بھری وین میںبَم دھماکا ہوا،جس میں کم از کم6افراد ہلاک اور3افراد زخمی ہوئے۔
5 اپریل:
کراچی کے ایک سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راؤ انور کے قافلے پر اُس وقت خودکش حملہ ہوا۔جب وہ ملیر بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر صلاح الدین حیدر اور ان کے بیٹے علی کے 24 مارچ کو قتل کے بارے میں تحقیقات کی غرض سے ایک جج کے ساتھ ملاقات کرنے اپنے اسکواڈ کے ہمراہ ملیر کی عدالت جا رہے تھے کہ ملیر ہالٹ کے مقام پر خودکش بمبار نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے جن میں کراچی کے ایک پشتون اداکار اور فنکار 50 سالہ لعل بادشاہ بابر بھی شامل تھے۔ اس حملے میں راؤ انور محفوظ رہے۔
5اپریل:
کراچی میں چار پولیس اہلکار شدت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہوئے اور دس پرامن شہری زخمی ہوئے۔پولیس بکتر بند گاڑی کے سامنے خود کش دھماکہ کیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
14اپریل:
کوئٹہ میںموٹر سائیکلوںپر سوار نا معلوم افراد کی فائرنگ سے کم سے کم 8 افرادہلاک ہوئے۔مجرموں نے ایک کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں آٹھ افراد جان بحقہوگئے اور اس کے چند منٹ بعد کوئٹہ کے اسی علاقہ میں ان حملہ آوروں نے مذید 2 افراد کو گولی مار دی۔ شہر کے حکام کی رائے میں ان حملوں میں مذہبی انتہا پرستوں کاہاتھہےکیوں کہ ہلاک ہونے والوں کا شیعہ مسلک سے تعلق تھا۔
15اپریل:
شمال مغربی پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک جیل پر رائفلوں اور دستی بموں سے لیس اسلامی عسکریت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں384سے زیادہ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے جن میں بہت زیادہ دہشت گرد شامل تھے۔ اسلامی انتہاپسند کئی سالوں سے اِس علاقے میں پولیس اہلکاروں،اُن کی چھاو ¿نیوں اور جیلوں پر حملے کرتے چلے آ رہے تھے۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق ملک میں2007 عسے لے کر اب تک ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تقریبا ساڑھے تین ہزار افرادہلاک ہو چکے ہیں۔بنوں جیل پر طالبان کے حملے میں 3 سو 84 قیدیوں کے فرار کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت نے 16 اپریل کو چاراعلیٰ افسران کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا۔
24اپریل:
لاہور میں ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم2پر نصب کِیا گیا ایک بم دھماکا ہوا،جس میں کم از کم3افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ایک کالعدم جماعت لشکرِ بلوچستان نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اِس حملے کو بلوچستان میں جاری آپریشن کے نام قتلِ عام کے خلاف انتقامی کاروائی قرار دِیا ۔جب کہ ترجمانِ بلوچستان نے کہا کہ ہم عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کِیا گیا۔ترجمان نے مزید تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچ شہریوں کا قتلِ عام بند نہ ہوا توہم راولپنڈی و اِسلام آباد ہمارا اگلا نشانہ ہوں گے۔
28اپریل:
کراچی میں کم سے کم6 افراد تشدد کا شکارہوئے - بعض علاقوں میں پولیس اور شر پسندوں کے گروہوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ شر پسند ٹامی گنوں، دستی بموں اور راکٹ لانچروں کا بھی استعمال کیا گیاجب کہ متعدد زخمی ہوئے۔

مئی2012ع
یکم مئی:
کوئٹہ میںہونے والے بم دھماکہ کے نتیجے میں کم سے کم 5 افرادہلاک اور 10 سے زیادہ زخمی ہوئے۔سڑک کے کنارے ریموٹ کنٹرول بم زوردار دھماکے سے پھٹ گیا جب کہ اس سڑک سے ایف سی بسی اسکاؤٹس کا کانوائے گزر رہاتھا۔ہلاک ہونے والوں میں کم سے کم ایک فوجی شامل تھا۔ کانوائے میں شامل گاڑیوں کے علاوہ قریب میں موجود 4 رکشوں کو بھی نقصان پہنچا۔رکشوں میں آگ بھی لگ گئی۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں نے اس سلسلے میں یاد دلایا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ بن لادن کی برسی کے دن ہوا۔
2مئی:
صوبہ سندھ میں کئی دھماکے توجہ کا مرکز بنے رہے۔ یہ دھماکے کراچی سمیت صوبے کے تمام بڑے شہروں کی اے ٹی ایم مشینوں پہ ہوئے ہیں۔ خاص طور پر نیشنل بینک آف پاکستان کی مشینیں نشانہ بنائی گئیں۔ گھوٹکی کے نزدیک ریلوے لائن پر بھی ایک کم قوت کا دھماکہ ہوا، جس سے ریلوے لائن کو نقصان پہنچا۔ ان دھماکوں کے باعث پولیس والوں سمیت دس افراد زخمی ہوئے ہیں۔
3مئی:
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2بم دھماکوں میں5افراد ہلاک ہوئے۔
4مئی:
باجوڑ ایجنسی کی تحصیل خار میںایک خودکش بمبار نے سیکورٹی اہلکاروں کی ایک چوکی کے نزدیک خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں6 سیکورٹی اہلکاروںسمیت ایک خاتون اوراسکول کے بچوں سمیت26افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعے میں76افراد زخمی بھی ہوئے۔
7مئی:
خیبر ایجنسی میں موسیقی سے نفرت کرنے والے عسکریت پسندوں نے زر حسین خان نامی شخص کو اپنے چھوٹے بھائی کی شادی پر براہ راست موسیقی کی محفل منعقد کرنے کی پاداش میں سزا کا نشانہ بنایا۔
8مئی:
ایک ایسا بم ملا جو بظاہر بچوں کو لبھانے کے لیے ٹافیوں کے پیکٹ میں چھپایا گیا تھا۔ اس واقعے پر والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور پاکستانی حکام نے اس کی وسیع پیمانے پر مذمت کی۔
12مئی:
صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک پولیس گاڑی کو دھماکے سے اڑائے جانے سے کم از کم چار افراد ہلاک اور بارہ زخمی ہو ئے۔ ہلاک شدگان میں ایک پولیس اہلکار بھی تھا جب کہ زخمیوں میں خواتین شاملتھیں۔ یہ ایک ریموٹ کنٹرول بم کا دھماکہ تھا۔ اس حملے کی کسی نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

جون2012ع
7جون:
کوئٹہ میں ایک مدرسے کے باہر ریموٹ کنٹرول بم دھماکا ہوا جس سے5بچوں سمیت15افراد جاں بحق اور48افراد زخمی ہو گئے۔
8جون:
پشاور کے قریب ایک بس میں اُس وقت دھماکا ہوا جب بس میں سرکاری ملازمین سوار تھے۔دھماکے میں18افراد جاں بحق ہوئے۔بم بس کے اندر نصب کِیا گیا تھا۔
12جون:
پاکستان میں 6 افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے، کئی بچوں سمیت کم سے کم تیس افراد زخمی ہو گئے۔ بلوچستان میں مسافروں سے بھری ہوئی ایک چلتی ہوئی بس دھماکے کا نشانہ بنی۔ بم ایک کھڑی ہوئی موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا جسے ریموٹ کنٹرول سے اڑایا گیا۔بس میں چالیس کے قریب افراد سوار تھے۔ اکثر زخمیوں کی حالت نازک ہے۔اس واقعے کی ذمہ داری بھی کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔
14جون:
پاکستان میں شمالی وزیرستان کے علاقے میں امریکی ڈرون طیارے سے کیے گئے ایک حملے میں تین جنگجووں کے ہلاک ہوگئے۔ سرکاری اہلکار کے مطابق دو میزائل میران شاہ کی منڈی پر داغے گئے۔ افغانستان کی سرحد کے ساتھ اس دشوار گزار علاقے میں "طالبان" اور "القاعدہ" سے منسلک گروہوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ حکومت پاکستان امریکہ کی یک طرفہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرنے کے باوجودامریکہ کے ڈرون طیارے مسلسل حملے کر تے رہے ہیں، جو واشنگٹن کے مطابق طالبان اور القاعدہ والوں کو مارنے کی خاطر کیے جاتے ہیں۔
16جون:
دہشت گردی کے دو واقعات میں 34 افراد نے اپنی زندگی ہار دی اور50سے زائد زخمی ہوئے۔ پہلا سانحہ شہر لنڈی کوتل کے مین بازار میں پیش آیا ،جہاں بسوں کے اڈے کے نزدیک کھڑی کی گئی بارود سے بھری ایک گاڑی دھماکے سے اڑ گئی۔ دوسرا سانحہ شہر کوہاٹ میں پیش آیا جہاں بم ہاتھ گاڑی میں نصب کیا گیا تھا۔ان واقعات کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔
18جون:
کوئٹہ شہر میں اہلِ تشیع سے بھری بس میں بم دھماکا ہوا۔
21جون:
پشاورمیں بازار کے قریب گدھا گاڑی میں نصب کِیا گیا بم پھٹنے سے3افراد جاں بحق ہو گئے۔
21جون:
کوئٹہ کے جنوب مغربی علاقے میں واقعہ ایک مسجد میں بم دھماکے سے2نمازی شہید اور13افراد زخمی ہوئے۔
23جون:
کوئٹہ کے مصروف علاقے لانڈری میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے8افراد کو قتل کردیااور فرار ہوگئے۔
24جون:
موٹر سائیکل سوار2افراد نے ایک پولیس موبائل وین پرفائرنگ کرکے3اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔
24جون:
افغان بارڈر کو پار کرکے دہشت گردوں نے مذموم کاروائیاں کرکے6سپاہیوں کو ہلاک اور11اہلکاروں کو اغواءکرلِیا۔ایک روزبعداغواءافراد کی سر قلم کیے لاشیں ملیں۔
27جون:
پاکستان کے جنوب مشرقی شہر سبی میں واقع ایک ریلوے اسٹیشن میں بم دھماکے کے نتیجے میں دس افراد ہلاک اور تیرہ زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان میں دو بچے اور ایک پولیس اہلکار بھی شاملتھا۔بم پلیٹ فارم پر کرسی کے نیچے رکھا ہوا تھا۔پاکستان میں سرگرم عمل کسی بھی انتہا پسند گروہ نے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری ابھی تک قبول نہیں کی۔
28جون:
فاٹا میں خیبر ایجنسی کے علاقے باڑا کے ایک قصبے میںفرنٹیئر کور پیرا ملٹری کے عملے پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے4افراد جاں بحق ہوگئے۔
28جون:
کوئٹہ میں خودکش دھماکے کا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ہزارہ سے تعلق رکھنے والے زائرین کی ایک بس ایران جارہی تھی۔دھماکے میں4افراد ہلاک اور30زخمی ہوئے۔

جولائی 2012ع
6جولائی:
تربت بلوچستان کے ایک قصبے میںایران جانے والی زائرین کی ایک بس پر فائرنگ سے18جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔
8جولائی:
افغان بارڈر کے قریب چمن بلوچستان میں بارودی سرنگ کے دھماکے سے14افراد جاں بحق ہو گئے۔
9جولائی:
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے وزیر آبادمیں شدت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ کر دیا جس میں سات افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔یہ حملہ دریائے چناب کے کنارے سیکیورٹی فورسز کے اس عارضی کیمپ پر کیا گیا جو کچھ روز قبل ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے گرنے کے بعد لاپتہ ہونے والے پائلٹ کی تلاش کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
11جولائی:
کراچی میں سپارکو ملازمین سے بھری بس کو اُس وقت بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جب بس میں عملے کے40افراد سوار تھے۔دھماکے سے بس کے شیشے ٹوٹنے کے باعث عملے کے 19افراد زخمی ہوئے جب کہ ایک سائیکل سوار راہ گیرجاں بحق ہوا۔
12جولائی:
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے نزدیک پولیس نے احمدیوں کی عبادت گاہ کے چھ مینار منہدم کر دیے گئے۔احمدی برادری ایک ایسا فرقہ ہے جسے اسلام سے خارج قرار دیا جا چکا ہے۔ زیادہ احمدی پاکستان میں مقیم ہیں اور ان کی کچھ آبادی ایران اور افغانستان میں بھی ہے۔
12جولائی:
تحریکِ طالبان پاکستان کے نقاب پوش مسلح افراد نے لاہور میںواقع پولیس اکیڈمی پر حملہ کردِیا۔نتیجتاً9زیرِ تربیّت کیڈٹس جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔لاہور کی حدود میں کسی سیکورٹی ادارے پر دہشت گردوں کی یہ تیسری کاروائی تھی۔زیادہ تر کیڈٹس کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا۔تحریکِ طالبان پاکستان نے ایسی مزید کاروائیاں کرنے کی دھمکی دی۔
15جولائی:
کراچی خونریزی کے مختلف واقعات میں دس افراد گولیاں مار کر ہلاک کر دیے گئے۔ان افراد کوسڑکوں پر قتل کِیا گیا۔سڑکوں پر مارے جانے والے لوگ اکثر وبیشتر سیاسی پارٹیوں کے رکن ہوتے ہیں۔
18جولائی:
پاکستان میں کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے قریب پولیو مہم میں شامل اقوام متحدہ کی موٹر کار پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں عالمی ادارہ صحت کے دو نمائندے زخمی ہوئے۔ مذکورہ ادارے کے ترجمان کے مطابق اس حملے میں موٹر بائک پر سوار 2 نا معلوم افراد کا ہاتھ تھا۔ زخمیوں کوفوراًہی قریب واقع ہسپتال پہنچا دیا گیا ۔یاد رہے کہ رواں سال جون میں تحریکِ طالبان نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں پولیو کے قطرے پلائے جانے کی مہم کے قطعی خلاف رائے دی تھی۔
23جولائی:
کراچی میں چین کے قونصل خانے کے قریب بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہوئے ۔ پولیسکے مطابق بم ایک موٹر سائیکل میں چھپایا گیا تھا جو قونصل خانے کے قریب کھڑی تھی۔ قونصل خانے کے اندر ہونے والی تباہی کی اطلاع نہیں ملی- پولیس کے ترجمان نے کہا کہ بم دھماکہ زیادہ طاقت ور نہیں تھا۔
25جولائی:
پاکستان کے شمال مغرب میں نیٹو کے لیے سامان لے جانے والے ٹرکوں کے ایک قافلے پر حملہہوا۔ ڈرائیوروں اور کلینروں کو مار دیاگیا۔طالبان جنھوں نے کہ نیٹو کے لیے بھیجے جانے والے سامان پرحملے کرنے کا عہد کیا تھا، اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے یہ کاروائی کی۔ماہ جولائی میں حکومت پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی کے لیے اپنی سرزمین سے افغانستان کے لیے راستہ کھولے جانے کے فیصلے کے بعد یہ پہلا مسلح حملہ تھا۔
26جولائی:
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں ایک بازار میں خودساختہ بم کے دھماکے کے نتیجے میںچھ افراد ہلاک اور بیس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ دھماکے سے چند دکانیںمکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ عامہ کے مطابق اس حملے میں قبائلی علاقوں میں سرگرم طالبان کا ہاتھ ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ شدَّت پسندوں کا مقابلہ کرنے والے رضاکار دستوں کے اراکین کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

اگست2012ع
3اگست:
شمالی وزیرستان کے علاقے قطب خیل میں گاڑی پر امریکی ڈرون حملے میں4 افراد جاں بحق ہو گئے۔شمالی وزیرستان کا علاقہ قطب خیل میران شاہ سے 5کلو میٹر دور واقعہے جہاں امریکی جاسوس طیارے نے مشتبہ عسکریت پسندوں کی گاڑی پر 2 میزائل داغے جس سے 4 افراد کی ہلاک ہوئے۔ایک روزقبل جنوبی وزیرستان کے علاقے میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے میں بھی 4 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
11اگست:
پاکستان میں فضائی حملے کے نتیجے میں کم از کم پندرہ جنگجوو ¿ں کو ہلاک کر دیا گیا ۔ پاکستان کے سرکاری عہدے داروں کے مطابق اس حملے کے دوران دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے چار ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔ فضائی حملہ دو گھنٹے سے جاری رہا۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں میںہتھیار اور دھماکہ خیز مواد برآمد ہوئے۔
14اگست:
صوبہ بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں ایک ریستواران کے نزدیک دھماکے کےنتیجے میں کم از کم بارہ افراد زخمی ہو ئے۔پولیس ذرائع کے مطابق یہ ایک ٹائم بم دھماکہ تھا۔ یہ دھماکہ پاکستان کی قومی تقریب یومِ آزادی کے دن کِیا گیا۔ اندازہ ہے کہ شدَّت پسندوں کا مقصد یوم آزادی کے موقع پر تقریبات کے دوران کوئٹہ میں تہلکہ پیدا کرنا تھا۔
15اگست:
پاکستانی فوجیوں نے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں کم از کم35شدَّت پسندوں کو ہلاک کر دیاگیا۔ فوج کی پریس سروس کے مطابق لڑائی میں دو فوجی بھی مارے گئے۔ اس علاقے میں لڑائی تب شروع ہوئی جب شدَّت پسندوں کے ایک گروپ نے پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر حملہ کِیا تھا۔ فوج کی کمک کے پہنچنے کے بعد شدَّت پسندوں کو پہاڑوں کی طرف پسپا کر دیا گیا۔ انٹیلی جینس کے مطابق طالبان اورکزئی ایجنسی میں اپنی سرگرمیاں تیز تر کر رہے ہیں۔
16اگست:
15اور 16اگست کی درمیانی رات شدَّت پسندوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے شہر کامرہ میں واقع ائیر بیس پر حملہ کر دیا۔ فوجیوں نے حملہ آور پر جوابی فائرنگ کی۔ فائرنگ کا تبادلہ چند گھنٹے جاری رہا جس کے نتیجے میں 2 فوجیوںسمیت6 حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھے جب کہکچھ شدَّت پسندوں نے خودکش جیکٹ پہنے ہوئے تھے۔ اس حملے کے پیشِ نظر پاکستان کی فضائیہ کے تمام اڈوں پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ۔

ستمبر2012ع
3ستمبر:
آج دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی پشاور میں واقع اقوام متحدہ کے ادارہ برائے امور پناہ گزینان کے نزدیک دھماکے سے اڑا دی گئی ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے ہیں۔پشاور کے اس علاقے میں غیر ملکی قونصل خانے اور غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر واقع ہیں۔کسی گروہ نے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری ابھی تک قبول نہیں کی۔
18ستمبر:
کراچی میں کم از کم نو افراد دو دھماکوں میں ہلاک ہو ئے۔ مزید بیس افراد زخمی ہو گئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک کار بم کا دھماکہ شہر کے مرکز میں واقع ایک شاپنگ مال کی کار پارکنگ میں ہوا جب کہ اس کے چند ہی منٹ بعد شاپنگ مال سے کچھ دوری پر ایک اور بم پھٹ گیالیکن کسی بھی دہشت گرد گروہ نے ان دو دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
22ستمبر:
غم و غصے کا موجب ”مسلمانوں کی معصومیت“ کے نام سے بنائی گئی وہ فلم بنی جو ہر مسلمان کے لیے اشتعال انگیز ہے۔ اس فلم کے خلاف پاکستانی متحد ہو کر سراپا احتجاج بن گئے۔ کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ ملک میں مختلف عقائد کے درمیان بھی کشیدگی پیدا ہو گئی۔مشتعل ہجوم نے پاکستان کے شمال مشرقی شہر مردان میں سینٹ پال چرچ کو نذر آتش کر دیا۔ کراچی میں امریکی قنصل خانے کی عمارت کے باہر ، جس کے اندر مطاہرین نے جانے کی کوشش کی تھی، تصادم کے دوران ایک نامعلوم شخص کی گولی سے ایک پولیس والا ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ پشاور میں مظاہرین کے ہجوم نے توڑ پھوڑ کی اور دو سینیما گھروں کو آگ لگا دی۔ سینیما گھروں کے سیکیورٹی اہلکاروں نے مزاحمت کی جس کے دوران ایک شخص مارا گیا۔ اسلام آباد میں مظاہرین نے ڈپلومیٹک ایریا مین جانے کی کوشش کی جہاں امریکہ کا سفارت خانہ واقع ہے، پولیس نے مطاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی تیز دھاروں کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے امریکہ کا جھنڈا جلا دیا اور "امریکہ مردہ باد" "توہین آمیز فلم بنانے والوں کو پھانسی دو" کے نعرے لگائے۔

اکتوبر2012ع
10اکتوبر:
طالبان نے سوات کے شہر مینگورہ میں لڑکیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر فائرنگ کر کے حملہ کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گئیں۔گولی ملالہ یوسف زئی کے ماتھے میں لگی اور دماغ سے گزر کر گردن کی طرف گئی۔ یہ حملہ تب ہوا جب ملالہ ایک لڑکی کی ہمراہ سکول سے گھر جا رہی تھیں۔ لڑکیاں بس میں بیٹھنے والی تھیں کہ اچانک ایک حملہ آور نے ان پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔ ملالہ کے علاوہ دوسری لڑکی کو بھی زخمی کر دیا گیا۔تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بتایا کہ طالبان اس حملے کی ذمہ داری قبل کرتے ہیں۔ملالہ یوسف زئی 2009ع میں گیارہ سال کی عمر میں مشہور ہو گئی تھیں جب انھوں نے طالبان کے زیر ِتسلّط علاقوں میں اپنی زندگی کے بارے میں ڈائری لکھنا شروع کر دی تھی۔
11اکتوبر:
قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں ایک مسافر بس سڑک کے کنارے پر نصب بم کی زَد میں آنے کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے۔اندازہ ہے کہ اس حملے میں قبائلی علاقوں میں سرگر تحریک طالبان پاکستان کے اراکین کا ہاتھ ہے۔

نومبر2012ع
3نومبر:
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بونیر میں کم از کم6 افراد خود کش حملے میں ہلاک ہو ئے۔ذرائع کے مطابق یہ حملہ ایک پیٹرول پمپ میں ہوا۔ ہلاک شدگان میں مقامی امن کمیٹی کے سربراہ فاتح خان اور اُن کے تین محافظین بھی شاملتھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق خودکش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل فاتح خان کی گاڑی سے ٹکرا دی۔ اس حملے میں پانچ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

22نومبر:
21اور22نومبرکی درمیانی رات پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں دہشت گردانہ واقعات ہوئے۔ ان دہشت گردانہ واقعات میں 35 افراد کی جان گئی ہے۔تاہم حالیہ دہشت گردانہ واقعات کے واقعات اُس وقت ہوئے جب آٹھ ملکوں یعنی ڈی-ایٹ کی سمٹ ہونے والی تھی۔ اس سمٹ کا ایک روز قبل اسلام آباد میں افتتاح ہوا تھا۔دہشت گردی کا شدید ترین واقعہ راولپنڈی میں ہوا جس میں دہشت گرد شخص نے خود کو امام باڑے کے قریب آ کر قوی بم سے اڑا لیا۔ وہاں پہ بہت زیادہ سوگواران امام حسین موجود تھے۔اِس دھماکے سے مرنے والوں کی تعداد28 اور ساٹھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔
22نومبر:
دہشت گردوں نے مزیددو دہشت گردانہ کارروائیاں کیں، جن میں سے ایک کوئٹہ میں کی گئی جس میں 5افراد کی جان گئی۔ دوسرا کراچی کے ایک امام باڑے میں ہوا، جس میں2اشخاص کی موت واقع ہوئی۔ تحریک طالبان پاکستان نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کی۔
25نومبر:
ڈیرہ اسماعیل خان میں یومِ عاشور کے جلوس کے قریب ہونے والے ایک دھماکے میں 5 افرادہلاک اور 82 زخمی ہوئے۔اسی شہر میں کم سے کم 7 افراد بم دھماکے کا شکارہوئے۔حکام نے محرم الحرام کے جلوسوں کی حفاظت کے لیے سخت حفاظتی تدابیراختیار کی تھیں۔ بالخصوص جلوس ختم ہونے تک کئی شہروں میں موبائل فون سروس بند کر دی گئی۔
28نومبر:
پاکستان نے بیلسٹک مزائل حتف 5 غوری کا کامیاب تجربہ کیا۔ مزائل روایتی اور جوھری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسکا دائرہ عمل 1300 کلومیٹرہے۔ امسال یہ آٹھویں بارہے کہ پاکستان نے بیلسٹک مزائل کا تجربہ کیا۔

دسمبر2012ع
2دسمبر:
دو خودکش بمبارہلا ک ہوگئے ۔یہ واقعہ پشاور میں دیر کالونی کے قریب رنگ روڈ پرجب کہ دوسرا مہمند ایجنسی کی پنڈیالی تحصیل کے گرنگ گاؤں میں پیش آیا۔ دھماکے سے بمبار اور ان کے سہولت کار ہلاک ہوئے۔ایک مشتبہ سہولت کار ایک پولیس چوکی کے قریب دیر کالونی میں ایک ممکنہ خودکش بمبار کے لیے جیکٹ تیار کررہا تھا جس میں دھماکہ ہو گیا، جس سے دونوں افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے۔
3دسمبر:
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں پولیس موبائل پربم حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے جب کہدو اہلکار زخمیہوئے۔اطلاعات کے مطابق یہ ایک ریموٹ بم کا حملہ تھا۔ پاکستان میں سرگرم کسی شدت پسند گروہ نے اب تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔2001ع سے اَب تک پاکستان میں 35 ہزار افراد دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
5دسمبر:
پاکستان کے شمال مغرب میں شہر وانا کے قریب دو خود کش دہشت گردوں نے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں تین فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے ۔اطلاعات کے مطابق بارود سے بھری گاڑی میں سوار حملہ آوروں نے کیمپ کے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس کے سامنے واقع ایک چوکی کے مینار سے گاڑی کو ٹکرایا ۔جس کے بعد دھماکہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں کیمپ میں واقع ہسپتال کی چھت گر گئی۔ 20 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
15دسمبر:
پشاور ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کی کاروائی کے نتیجے میں 4 افراد جان بحق اور تقریباً50 زخمیہو گئے جب کہسارے حملہ آور بھی ہلاک ہوگئے۔ حملے میں گرینیڈ ٹھروئیرز سے مسلح انتہا پرستوں کے ایک گروپ اور ایک خود کش حملہ آور نے حصہ لیا تھا۔ حملے کی اِس دہشت گردانہ کارروائی کے باعث پشاور ائیرپورٹ کو غیر معین عرصے کے لیے بند کر دِیا گیا۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے پشاور ائیر پورٹ پرحملے کی ذمہ داری قبول کی۔ انتہا پرستوں کے نمائندے کا کہنا تھا کہ یہ پشاور ائیرپورٹ پر آخری دھاوا نہیں ہے۔
17دسمبر:
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے ٹیڈی بازار میں 17 دسمبر کو ایک کار بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے 19 افراد میں چار بچے اور چار خواتین بھی شامل تھیں۔ دھماکے میں 69 افراد زخمی ہوئے جن میں سے آٹھ کی حالت تشویش ناک رہی۔
19دسمبر:
عسکریت پسندوں نے کراچی کے پشتون اکثریتی علاقوں اور خیبر پختونخواہ (کے پی) میں 17تا19 دسمبر کو پولیو خاتمے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے انسداد پولیو مہم کے دوران پولیو کے قطرے پلانے والے 8 اہلکاروں کو قتل اور کئی دیگر کو زخمی کردیا۔حکومتِ پاکستان نے 5 سال عمر کے 34 ملین بچون کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کے لیے17 دسمبر کو تین روزہ انسداد پولیو مہم شروع کی تھی۔ تاہم کراچی اور پشاور میں انسداد پولیو رضاکاروں کے قتل کی وجہ سے حکام نے مہم روک دی ہے۔ بعد ازاں پنجاب کے حساس علاقوںمیں سیکورٹی اہلکار کے ہمراہ پولیو ورکرز نے بچوں کو قطرے پلائے۔بعد ازاں20دسمبر کو پولیو سے بچاو ¿ کے قطرے پلانے کی مہم کا ایک اور زخمی کارکن دم توڑ گیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر نو ہو گئی ۔
22دسمبر:
قصہ خوانی بازار میں اے این پی کے اجلاس میں خود کش دھماکے سے اے این پی کے رہنما سینئرصوبائی وزیر بشیر بلوراور ان کے سیکرٹری اور تھانہ قابلی کے ایس ایچ او ستار خان سمیت11افرادجاں بحقجب کہ25 افراد زخمی ہو گئے۔
23دسمبر:
طالبان کی طرف سے خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر ”عوامی نیشنل پارٹی“کے رہنما بشیر احمدبلور کے قتل کے سلسلے میں پاکستان میں سوگ منایاگیا۔ اس جرم کی ذمہ داری”تحریک طالبان پاکستان “نے قبول کی۔ بشیر احمدبلور پر قاتلانہ حملہ ان کے انتہا پسندی کے خلاف مستحکم موقف اختیارکیے جانے کا بدلہ تھا۔ پشاور میں منعقدہ ”عوامی نیشنل پارٹی“ کے اجلاس میں جس میںبلور بھی حصہ لے رہے تھے ایک حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کرنے والے مشہور بااثر سیاست دان زخموں کی تاب نہ لاکر ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ اس دھماکے کے نتیجے میںمذکورہ وزیر کے علاوہ 11 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔
Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.