خدارا! نیا سال سب کو راس آجائے

بندہ! فطرتاً آس و نراس کا عادی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم سب ہر نئے سال کی آمد پر سالِ گذشتہ کی تلخ یادوں، انفرادی و اجتماعی زندگی کو درہم برہم کرنے دینے والے غموں کی تاریکیوں، تباہ کن حادثوں کو فوری بھلا دیتے ہیں اور نئے امنگوں اور حوصلوں کے ساتھ نئی راہوں کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔اسی روشنی کی تلاس میں درحقیقت انسانی سماج کی ترقی اور بقا پنہا ہے۔ مگر تلاش و جستجو کا یہ عمل اس وقت تک بے معنی ہوگا جب تک کہ ہم سب گزرے ہوئے کل کے آئینہ میں اپنے عمل کا محاسبہ نہ کر لیں، اپنی ناکامیوں کا جائزہ نہ لے لیں، ہر گزرا ہوا پل معاشرے کے لئے ایک سبق کا درجہ رکھتا ہے اور اگر پھر بھی ہم سب اس گزرے ہوئے پل سے سبق حاصل نہ کریں تو تاریخ کے کوڑے دان میں تلف کر دیا جاتا ہے۔

جب بھی نئے سال کی آمد ہوتی ہے تو ہم اس امید میں باہیں پھیلا کر اس کا خیر مقدم تو کرتے ہیں کہ نئے سال کی گٹھری میں ہمارے لیے شاید ڈھیروں خوشیاں بند ہونگی، لیکن پورے بارہ مہینے رات و دن ہمارے ساتھ رہنے کے بعد جب پرانا سال ہم سے رخصت ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی گٹھری میں کتنے غم و خوشی کی مقدار تھی جسے ہم نے فراموش کر دیا۔ پھر بھی ہم ایک اور نئے سال کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں صرف یہ سوچ کر کہ نئے سال میں ہمیں نئی مسرتیں نصیب ہونگی، نئے دور کا آغاز ہوگا، نئی خوشیاں ملیں گی۔ اسی کیفیت کا نام زندگی ہے اور ویسے بھی ہمارے دین میں ”ناامیدی “ کفر ہے ، اللہ تبار ک و تعالیٰ سے اچھے کی امید رکھنا ہی ہم سب کیلئے نئی امیدوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

ویسے 2013ءکے سال نو پر گزرے ہوئے سال کے اس نامبارک و نامساعد سانحے کی پرچھائیاں ہم سب پر ابھی تک چھائی ہوئی ہیں جس نے پاکستان کا دل دہلا رکھا ہے ۔ گذرے ہوئے ان سانحات نے جہاں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر دکھ دیا تھا اور حالات و واقعات نے ہمارے ملک کے تمام شہروں میں تہلکہ مچایا ہوا تھا خدا کرے کہ نئے سال میں ایسی سیچویشن نہ ہو ، ان حالات سے جہاں عوام پریشان تھے وہیں سیاسی طبقہ کی نیند بھی حرام ہوئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم سب اس گزرے ہوئے سانحات کو یاد رکھتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح نئے سال کی جشن کی رنگینیوں میں سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ ویسے اگر گئے سال کا محاسبہ کیا جائے تو وہ سال صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے غم و اندوہ کا سال تھا۔ گذرے ہوئے سال میں کئی ایسے دلدوز واقعات ہوئے، جن کی یادوں کی تلخی ابھی تک ہمارے ذائقوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ، اس سال ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا، جو تعلیم کا حق مانگ رہی تھی، گئے سال میں دہشت گردوں نے ایک بار پھر ان مسالک کے لوگوں کو نشانہ بنایا، جنہیں وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی سال امریکہ میں ہئیبت ناک طوفان بھی آیا ، اسی سال ملک شام خونی غسل کرتا رہا۔ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں کہ خدا نئے سال میں ایسی تمام آفات و حادثات و واقعات سے ہم سب کو اور خاص کر ہمارے ملک کو محفوظ فرما دے۔

نئے سال کی شروعات کو جنوری سے ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم قمری نظام کو نظر انداز کرکے شمسی و انگریزی تاریخوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں تک نئے سال کی خوشیاں منانے کا سوال ہے ، جیسا کہ آج کل منایا جاتا ہے تو محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو بھی منانے کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ملتا۔ اسلام ہمارا سادہ مذہب ہے ، سادگی کو پسند کرتا ہے، خرافات، لغویات کی اسلامی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں رکھتا، اسلام میں بہترین عمل وہ ہے جو اللہ کی عبادت و عطاعت گزاری اور خلقِ خدا کی خدمت پر مبنی ہو۔

شمشی کیلینڈر کے اعتبار سے نئے سال میں دنیا کا سورج طلوع ہو چکا ہے ، ماہ و سال کا یہ حساب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یومِ پیدائش سے منسوب ہے اسی لئے اسے عیسویں سن کہا جاتا ہے ۔ شمسی کیلینڈر ایک ایسا کیلنڈر ہے جس پر پوری دنیا کے ایک بڑے حصہ کے سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں کام ہوتا ہے، ہر انسان اس کیلنڈر کو دیکھنے پر مجبور ہے، نئے سال کا یہ جشن جس قدر فحاشی اور عریانیت کے ساتھ منایا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر نیا سال اور گزرتا ہوئے سال کا اختتام دھند اور تاریکی میں ہوتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مجھ میں بے انتہا تاریکی ہے، تمہیں اپنے حالات سنوارنے اور کامیابی کی طرف سفر کرنے میں کافی محنت کرنی ہوگی تبھی تم سورج کی طرح چمک سکتے ہو، ورنہ یہ دنیا تمہارے لئے مزید تاریکی بکھیر دے گی۔ ہمارا خاصہ یہ ہونا چاہیئے کہ ہمیں سورج کے اس پیغما کو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ کس طرح روشنی بکھیر رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ جس طرح ہم نے انگریزوں کو باہم متحد ہوکر ملک بدر کیا اور ملک کو ان کے پنجہ سے آزاد کرایا اسی طرح ان کی تہذیب و ثقافت اور ان کے رسولم کو بھی معاشرہ سے پاک کرتے تاکہ ہمارا ملک ذہنی و فکری اعتبار سے مکمل طور پر آزاد ہو جاتا۔ ہمارا اپنا اسلامی کیلینڈر ہونے کے باوجود ہم اس کے کیلینڈر کے محتاج ہیں، اس سے بڑی غلامی اور کیا ہو سکتی ہے۔

نیا سال ویسے بھی ہمارے ملک میں الیکشن کا سال ہے اور ظاہر ہے کہ نئے الیکشن میں ووٹ کی بڑی اہمیت ہوگی،دیکھا جائے تو ہمارے عوام آج باشعور اور بیدار ہیں، سب سے پہلا کام انہیں یہی کرنا ہوگا کہ صحیح لوگوں کو ووٹ دیں جو ملک کی جڑیں مضبوط کر سکیں، آج جس طرح پورے ملک میں افرا تفری کا دور دورہ ہے ، ہر ذی شعور پریشانی اور افتاد میں الجھا ہوا ہے اس کا بھی تدارک ضروری ہے، آج ملک میں روزگار نہیں ہے، نوجوان پود ہاتھوں میں اعلیٰ ڈگریاں لئے در بدر بھٹکنے پر مجبور ہیں، تو ان سب کا حل آنے والے نئے حکمرانوں پر ہی منحصر ہے اور نئے حکمران کو لانے والے پاکستانی عوام ہیں، لہٰذا اپنے سوچ کو ، اپنے ویژن کو دیکھئے اور ووٹ ڈالیئے کیونکہ ہمیں نئے سال میں ان سب چیزوں کو اپنے لئے حاصل کرنا ہوگا جس کو ہم سب پچھلے سالوں میں حاصل نہیں کر سکے۔ نئی امیدیں اور اس کی تاثیر ہم سب کو ڈوھونڈ رہی ہیں شرط یہ ہے کہ ہم سب ایسے عمل کریں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور ہم سب کی حالتوں پر اپنا رحم و فضل کر دے۔

کہنا یہ ہے کہ 2013ءکو ایک امید پرست قوم بن کر خوش آمدید کہنا پڑے گا ، گزرے سالوں کا ماتم بیکار عمل ہے کیونکہ یہ سب تو اب گذر چکا ہے اور امید کرتے ہیں کہ ہم اس سال اپنی گزشتہ سالوں کی کسی غلطی کو نہیں دہرائیں گے، ویسے بھی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ” جو اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے، قدرت انہیں غلطیوں کو دہرانے کی سزا دیتی ہے۔“ لہٰذا میرے قوم کے لوگو! ابھی الیکشن میں آپ کو ملک سدھارنے کا ایک موقع ملنے والا ہے اور وہ بھی آپ کے ووٹوں کے ذریعے تو خدارا! اپنے فیصلے کو سنجیدگی سے کیجئے گا، دعا ہے کہ قدرت اس سال ہمیں کوئی غلطی دہرانے کی ہمت نہ دے اور اس نئے سال کو ہمارے لئے مثلِ راہ اور کامیابی، کامرانی، اور شادمانی کا سال بنا دے۔ آمین
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.