تقریباًبیس سال پہلے 1992ءکی بات
ہے۔ان دنوں میں اسکول سے آنے کے بعد ایک میڈیکل اسٹور پر کچھ وقت دینے
لگاتھا۔ چھ مہینے کے اس مختصر عرصے میں کافی مشاہدات ہوئے۔ نہ صرف ڈاکٹروں
کی جناتی لکھائی سمجھ میں آنے لگی ، بلکہ اس کام سے متعلق اور بھی” بہت کچھ“
سمجھ آ گیا۔ باقی تو پھر کبھی .... فی الحال تو موضوع سے متعلق کچھ عرض
کرنا ہے۔
مذکورہ میڈیکل اسٹوراندرونِ سندھ میں واقع اس شہر کا دوسرے نمبر کا بڑا
اسٹور تھا۔چند ہی دنوں میں ہم نے یہ نوٹ کر لیاکہ شام ڈھلتے ہی وہاں عجیب
اول جلول حلیے کے لوگ آتے اور آٹھ دس روپے مالک اسٹور کو تھماتے۔ وہ ورکرز
کو ”ڈائزی پام“ نامی چھوٹی چھوٹی پیلی گولیاں انہیں دینے کو کہتااور ساتھ
ساتھ ان پر ہنستے ہوئے جملے بھی کستا۔ورکر ڈائزی پام کے بڑے سے ڈبے سے آٹھ
دس گولیاں (صحیح طرح یاد نہیں ، مگر اتنا یاد ہے کہ فی گولی ایک روپے سے کم
قیمت کی تھی) اس شخص کو پکڑا دیتا۔ایک ساتھی کے ذریعے پتہ چلاکہ یہ گولیاں
گہری نیند کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور یہ مخصوص ٹولی کے لوگ اسے سستے نشے
کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس دن معلوم ہوا کہ دنیا کے غم بھلانے اور
بغیر پروں کے آسمانوں کی سیر کے لیے ضروری نہیں کہ آدمی بدنام اڈوں کے چکر
لگائے ،بلکہ چمکتے دمکتے لائسنس یافتہ میڈیکل اسٹورز بھی یہ مقصد بخوبی
پورا کر سکتے ہیں اور وہ بھی نسبتاً بہت سستے میں۔چند ہفتوں میں اور بھی
انکشافات ہوئے کہ ’ڈائزی پام‘ کے علاوہ اور بھی بیسیوں دوائیں اس مقصد کے
لیے استعمال ہوتی ہیں۔ تمام قسم کی سیڈیٹیو [سکون دینے والی]، اینٹی
ڈیپریسنٹ [بے چینی دور کرنے والی] ، نیند لانے والی،اینٹی الرجک، بھوک
لگانے والی اورانستھیزیا سے متعلقہ ادویات کو بطور نشہ آور اشیاءکے استعمال
کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ دوائیں ہیں ،جو مخصوص علامات والے مریضوں کو ان کے
ڈاکٹر ایک مخصوص مقدار میںہی تجویز کرتے ہیں ،اور وہ بھی ڈھیروں ہدایات کے
ساتھ۔لیکن نشئی اُن دنوں بغیر کسی نسخہ کے بہت آسانی سے یہ دوائیں کسی بھی
میڈیکل سے لے لیتے ، اورپھر ساری رات اور دن کا بڑا حصہ بغیر دَم مارے نت
نئی دنیاؤں کی سیرمحض چند روپوں میں کرلیتے ۔
کچھ دنوں میں ایک اور عجیب بات یہ معلوم ہوئی کہ صرف نشئی کہلانے والے نچلے
طبقے کے لوگ ہی اپنا نشہ دواؤں کے ذریعے پورا نہیں کرتے بلکہ ہر کلاس کے
لوگ ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بس ہر کلاس کا انتخاب جدا جدا ہوتا ہے۔
’ڈائزی پام‘ جیسی سستی گولیاںبالکل نچلے طبقے کی پسندیدہ تھیں۔ کبھی سختی
ہوتی یا یہ دوا ختم ہوتی تو ’ایول‘ جیسی اینٹی ہسٹامین [الرجی،خارش کی عام
دوا]کی بھاری مقدار سے بھی یہ لوگ کام چلا لیتے اور اس سے اپنا نشہ پورا
کرتے۔ درمیانے طبقے کے لوگ زیادہ تر ’ایٹی ون‘ اور ’ویلیئم‘ پسند کرتے
تھے۔جب کہ اونچے طبقے کے لوگ اس سے بھی زیادہ مہنگی دوا لیتے۔ اہم بات یہ
ہے کہ یہ ساری دوائیں عموماً بغیر نسخے کے بیچی جاتی تھیں۔یا زیادہ سے
زیادہ اپنے ہاتھ سے کسی کاغذ پر نام گھسیٹااور دکاندار کو پکڑا دیا۔
دکاندار کوبھی صرف اپنے” دھندے “سے مطلب تھا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ
بغیرڈاکٹر ی نسخہ کے کوئی دوا بیچنا غیر قانونی ہے، اور خصوصاً وہ مخصوص
دوائیں جو نشے کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہیں، ان کو تو بغیر کسی مستند
ڈاکٹرکے نسخہ کے بیچنا نشہ بیچنے کے برابر جرم ہے، وہ اِن دواؤں کو بغیر
نسخہ کے دگنی تگنی قیمت پر بیچتا۔
اس وقت تک ہمیںمعلوم نہیں تھا کہ ان ”کیف آور“ دواؤں میں کھانسی کے شربت
بھی شامل ہیں۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب میٹرک کے بعد ہم ایک ڈرگ
مینوفیکچرز کمپنی میں پارٹ ٹائم ملازم ہوئے۔ وہاں ہم لیبارٹری میں تھے۔اکثر
وہاں یہ شکایت سننے میں آتی تھی کہ گودام سے کھانسی کا ایک شربت بہت چوری
ہوتا ہے.... اور اکثر وہاں آدھی یا پوری پی ہوئی خالی باتلیں ملتی تھیں۔
سپروائزر نے ہمارے استفسار پر بتایا کہ یہ کارکن پیتے ہیں،کیوں کہ اس شربت
کی زیادہ مقدار سے خمار اور بے خودی طاری جاتی ہے!
لیب کے دنوں میں ہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کھانسی کے ان مخصوص سیرپ میں
ڈیکسا میتھاسون[جو کہ سٹیرائید کلاس کی ڈرگ ہے] اور کلوروفینر امین [جو کہ
اینٹی ہسٹامین ہے] وغیرہ شامل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ دوسرے کھانسی کے سیرپ
میں ایفی ڈرین بھی ہوتی ہے جو کہ برانکو ڈائیلیٹر ہوتی ہے۔ یہ تمام کھانسی
کے شربت اپنے ذیلی اثرات[یعنی اعصابی سکون، دماغ بھاری ہو کر خمار طاری
ہونا اور گہری نیند] کی وجہ سے غلط استعمال ہو تے ہیں۔اس کے بعد ہمیں
بتدریج یہ بھی معلوم ہوا کہ ”تجربہ کار“ لوگ ایک کیمسٹ کی طرح بخوبی جانتے
ہیں کہ کن دواؤں کی کتنی مقدار کو،آپس میں کس طرح ملایا جائے کہ نشہ دو
آتشہ ہو جائے.... آہستہ آہستہ معلوم یہ ہوا کہ نئے زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے
اب نشئیوں نے بھی نشے کے نئے طریقے دریافت کرلیے ہیں....مثلاًصمد بونڈ نشہ،
اسپرٹ نشہ اورٹنکچر نشہ !
شاید روایتی چیزیں بہت مہنگی ہو گئی تھیں یا ان کے ساتھ جڑی بدنامی تھی، جن
کی وجہ سے خاص طور پر متوسط طبقے کے نشئیوں نے دوسرے راستے دریافت کیے۔
بھنگ کے ساتھ بھنگی، چرس کے ساتھ چرسی، افیون کے ساتھ افیونچی اور ہیروئین
کے ساتھ ہیروئنچی کی اصطلاح گویا گالی بن گئی تھی۔ ان نشوں کے حصول کے لیے
دنیا والوں کی نظر سے چھپنا پڑتا تھا۔ پولیس اور اینٹی نارکوٹکس والوں
کاالگ ڈر تھا۔ غرض بدنامی، مہنگائی اور بہت سارے عوامل تھے جن کی وجہ سے
دوا اور دوسری عام چیزوں کو بطور نشہ کے استعمال کا رواج عام ہوتا چلا
گیا۔ایک نوجوان بغیر کسی ضرورت کے صرف نشہ کے لیے اینٹی ڈپریسنٹ دواکو اپنے
دوست احباب بلکہ قریبی عزیزوں کے سامنے بھی آسانی سے لے سکتا ہے اور لطف یہ
ہے کہ اسے طعن و تشنیع کی بجائے ہمدردی کے کلمات سننے کو ملتے ہیں۔بلکہ اب
تو ایک قدم آگے بڑھ کر اس طرح کی دوائیں لینا بطور فیشن اور اسٹیٹس کی
نشانی بن گیا ہے۔ لوگ سمجھنے لگے کہ اس طرح کی دوائیں لینا امیراور ماڈرن
ہونے کی نشانی ہے۔ فلاں یہ مہنگی دوا لیتا ہے ، اس لیے کہ اسے ٹینشن زیادہ
ہے اور ٹینشن اس لیے زیادہ ہے کہ اس کا بزنس بڑا ہے!!
بہرحال دھیرے دھیرے ہم ان باتوں کو بھول گئے تھے، لیکن آج اٹھارہ سال گزرنے
کے بعد پچھلے ماہ لاہور کے واقعہ نے اور صرف ایک مہینہ کے بعد گوجرانوالہ
کے سانحہ نے ہمیںسب کچھ یاد دلا دیا۔گوجرانوالہ میں کھا نسی کا شربت پینے
سے چونتیس افرادجاں بحق ہوئے۔جب کہ گذشتہ ماہ ہونے والے واقعہ میں لاہور کے
علاقے شاہدرہ میں کھانسی کاٹائنو نامی شربت پینے سے اکیس افراد جاں بحق
ہوئے تھے۔لاہور والے واقعہ کے فوراً بعد سیرپ بنانے والی فیکٹری کے مالکان
کو گرفتار کر لیا گیاتھا مگر بعد ازاں لیبارٹری رپورٹ سے کسی گڑبڑ کا پتہ
نہیں چلا۔ اس کے بعد وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مشیرِصحت خواجہ سلمان
رفیق کے حکم پرمرنے والے افراد کے خون، پیشاب اور ا ن کے معدوں سے لیے گئے
اجزاءٹیسٹ کے لیے فرانزک لیبارٹری بھجوا ئے گئے تو معلوم ہواکہ انہوں نے
ٹائنو سیرپ کے ساتھ بھنگ، چرس، الکوحل ، افیون اور نیند آور گولیوں کا
استعمال بھی کیا تھا۔ یعنی کھانسی کے شربت کو شاید صرف نشہ میں میڈیم کے
طور پر اور نشہ کو مزید بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ کیوں کہ اگر
سیرپ میں دوا کے ضروری اجزاءمناسب مقدار میں تھے تو پھر موت کی کیا وجہ
تھی؟ ڈاکٹر حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ صرف کھانسی کے شربت کی زیادہ مقدار سے
عموماً موت واقع نہیں ہوتی، صرف ہلکا سا نشہ اور پھر بالآخر گہری نیند طاری
ہو جاتی ہے، اس لیے ان اموات کی لیبارٹری رپورٹ کی روشنی میں یہی توجیہ کی
جا سکتی ہے کہ ان لوگوں نے دوسری منشیات کے ساتھ کھانسی کے شربت کو نشہ کا
عمل تیز کرنے کے لیے پیا ہو گا۔ مگر حالت بگڑنے پر اصل بات بتانا ممکن نہیں
ہوا، اس لیے کھانسی کے شربت کا نام لے دیا گیا۔ اس کے بعد آگے کا کام میڈیا
نے کیا۔ میڈیا ٹرائل نے تحقیقات سے پہلے فیصلہ سنا دیا اور بہرطور شربت
بنانے والوں کو مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔ بے شک پاکستان میں ادویات سازی
کا عمل ہرگز قابل رشک نہیں ہے،لیکن ا لیبارٹری رپورٹس کے بعدیہی سمجھ میں
آرہا ہے(اگر لیبارٹری رپورٹ غلط ہے اور سیرپ میں کوئی گڑبڑ ہے تو پھر بات
دوسری ہے) کہ خصوصاً لاہور سانحہ کے اصل ذمہ دار مرنے والے خود اور میڈیکل
اسٹور مالکان ہیں۔ اگر میڈیکل اسٹور والے قانون کی پابندی کریں کہ کسی کو
بغیر نسخہ کے خصوصاً مخصوص دوائیں نہ دیں تو حرام نشہ کے طلب گار چاہیں بھی
تو مخصوص دوائیں حاصل نہیں کر سکتے۔ مگر قانون کی پابندی تو تب ہو جب قانون
کے رکھوالے چاہیں۔ اگر قانون کی ناک کے نیچے خود ان کی سرپرستی میں ہر طرح
کا کام ہو رہا ہو تو پھر شکوہ کس سے کیا جائے! |