فحاشی کی اصل تعریف اور وزیر اطلاعات کا اعتراف

دنیا کے ہر ملک میں وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی قومی اہمیت کا ایشو سر اٹھاتا رہتا ہے جسے عموماً پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ کر کے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نیت میں اخلاص ہونے کی وجہ سے بحث کا کوئی نہ کوئی مثبت نتیجہ بھی سامنے آ جاتا ہے لیکن پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے ،جہاں پالیسی بحث کسی حل کی تلاش کے لیے نہیں ،بلکہ محض ”چسکے“لینے کے لیے ہوتی ہے۔اورچونکہ ہماری پارلیمنٹ کا دوسرا نام یار لوگوں نے ”مچھلی بازار“ رکھ چھوڑا ہے، اس لیے ہمارے ہاں اکثر قومی مسائل پر مباحثہ پارلیمان میں نہیں بلکہ ٹی وی اسکرین پر لائیو ہوتا ہے ، گویاعوام کو زیادہ ”باخبر“ رکھنے کے جنون میں مبتلا میڈیا کسی بھی حساس موضوع پر بحث کوبیچ چوراہے پر لے آتا ہے۔

ذرا یاد کیجیے،اب سے آٹھ دس سال پہلے کے دور کو، جب ملکی فضا میں ایک لفظ”دہشت گردی“ نے ہلچل مچا رکھی تھی۔ ایک طرف دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اپنی دہشت گردی کے عملی ثبوت بے گناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیل کر دے رہا تھا تو دوسری طرف ملک عزیز پاکستان کے نامی گرامی دانشور لفظ ”دہشت گردی“ کے معنی متعین کرنے کے لیے بحث ومباحثہ کر رہے تھے.... نتیجہ کیا نکلا؟ کچھ نہیں!

اب پھرپچھلے سات ماہ سے ہمارے ہاں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے،اور وہ یہ کہ ”فحاشی“ دراصل ہے کیا بلا؟

ہوا یوں کہ اب سے چند مہینے پہلے میڈیا کے ضابطہ اخلاق اورغیراخلاقی پروگرامزسے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پیمرا کوجو کہ ملک میں الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کا ادارہ ہے،حکم دیا کہ تمام فحش نشریات بند کر دے۔ پیمرا کے چیئر مین نے کمال ِہوشیاری سے فحش کی تعریف سے لا علمی کا اظہار کیااور کہا کہ وہ فحاشی کی تعریف متعین کرنے کیلئے ایک مباحثہ کرانا چاہتے ہیں۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اس طرح کے مباحث کا نتیجہ کیا نکلنا ہے؟ سووہی ہوا سپریم کورٹ کے حکم پر پیمرا اور کچھ مذہبی اور سماجی دانشوروں کے درمیان ”فحاشی “ کی تعریف کے ضمن میں خوب بحث ہوئی، لیکن نتیجہ کیا نکلا....حسب روایت کچھ نہیں
مباحثہ میں ایک طرف مذہبی اور سماجی دانشوروں میں اوریا مقبول جان، طلعت حسین اور انصار عباسی صاحب تھے جو دراصل خود میڈیا کے ہی نمائندے اورسکہ بند صحافی ہیں۔ان کے ساتھ قاضی حسین احمد اور محمد حسین محنتی بھی تھے،جب کہ دوسری طرف پیمرا کے عہدیداران، ان کے چیئر مین ڈاکٹر عبدالجبار، جاوید جبار اور ڈاکٹر مہدی حسن وغیرہ تھے۔دونوں طرف سے دلائل دیے گئے، نادرنکات پیش کیے گئے لیکن حسب روایت اس مجلس میں یہ لوگ”فحاشی“ کی کسی متفقہ تعریف پر نہیں پہنچ سکے۔ لبرل طبقے کے نمائندہ جاوید جبار اور مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں، اور میڈیا اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کر رہا ہے۔

قاضی صاحب نے فحاشی کی تعریف یہ بیان کی جو مواد گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھا جا سکے وہ فحش ہے۔ لیکن اس تعریف سے پھر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کون سا گھر انہ اس سلسلے میں معیار کے طور پر رکھا جائے، قاضی صاحب کا گھر یا لبرل طبقے کے نمائندے مہدی حسن کا گھر....کیوںکہ اس تعریف کے رُو سے ہرشخص یا گھرانے کے نزدیک فحاشی کا اطلاق الگ الگ مواد پر ہوگا۔ قاضی صاحب کے سامنے اپنا گھر یا یا اپنے جیسے دوسرے شرفاءکے گھرانے ہوں گے ، جہاں شرعی پردہ کیا جاتا ہو گا اور وہاں تو شاید گھروالوں کے ساتھ بیٹھ کر خبریں بھی نہیں دیکھی جاتی ہوں گی لیکن اس کا کیا کریں کہ اس ملک میں ایسے گھرانے بھی ہیں جہاں شراب اتنی ہی عام ہے جتنا عام گھروں میںپانی.... اسی ملک میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو مغرب کی تقلید میں ہم جنسیت پر فخر کرتے ہیںبلکہ کچھ شرم ناک خبروں سے تو یہ تک معلوم ہوا ہے کہ مغربی ثقافتی یلغار کی رو میں کچھ لوگ اپنے محارم کے ساتھ بھی تعلقات رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور وہ مغربی ممالک کے طرز میں یہاں بھی ”اسپرم بینک“ کے طرز پر کھلی بے حیائی کے مراکزقائم کرنے کے آرزو مند ہیں! اب بھلا بتائیے ان لوگوں کا اپنے اہل کے ساتھ بیٹھ کر ”کچھ“ بھی دیکھنا کچھ معنی رکھتا ہے؟

اب اتفاق دیکھیے کہ قاضی صاحب نے فحاشی کی جو تعریف بیان کی، آج کئی ماہ بعد ۴۱ دسمبر کے اخبارات میں بالکل یہی الفاظ وزیر اطلاعات جناب قمر زمان قائرہ نے بھی ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلز واقعی فحاشی پھیلا رہے ہیں۔ ایسے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جو میں اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔یہ بات ایک دینی تشخص رکھنے والے شخص نے نہیںبلکہ اس شخص نے کہی ہے جو اکثر لبرل طبقے کی نمائندگی کرتا ہے،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اتنی بڑی بات کہنے کے باوجود وہ اگلے ہی جملے میں پھر بات کو الجھا دیتے ہیں اور فحاشی کو ملکی و علاقائی کلچر سے ڈیفائن کرنے لگتے ہیں۔

دراصل یہ وہی راگنی ہے جو اس بحث کے ضمن میں نہ صرف پیمراعہدیداران ا اور مذہبی دانشور وں کے درمیان ہوئی بلکہ قوم کے مختلف طبقات کے درمیان ہر میڈیا پر خوب چلی۔ہر جگہ فحاشی کی تعریف کو دین سے سمجھنے کے بجائے بحث کو ثقافت، سماجی روایات اور معاشرے میں عام چلن کے اعتبار سے سمیٹا گیا۔لبرل طبقے کے مطابق فحاشی کی تعریف متعین کرنے میں مختلف علاقوں اور طبقوں کے مختلف کلچر یعنی ثقافت و اقدار کو مدنظررکھنا ہو گا۔ان کی دلیل یہ ہے کہ شہروں میں اگرچہ متوسط گھرانوں میں کچھ پردہ ہوتا ہے لیکن انہی متوسط گھرانوں کی اکثریت عشق و محبت پر مبنی ٹی وی ڈرامے بھی شوق سے دیکھتے ہیں اور شادی بیاہ کی رسم و رواج میں گھر کی بہو بیٹیاں ڈانس بھی کرتی ہیں جسے خوشی کے نام پر کچھ برا نہیں سمجھا جاتا۔تو پھر وہی ڈانس گانا جب ہم اسکرین پر دکھائیں تو وہ فحش کیسے ہو گیا۔وہ کہتے ہیں کہ دیہاتوں میں عام عورت بغیر پردے کے کھیتوں میںمزدوری کرتی ہے اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا تو ہم اسکرین پر عورت کو دکھائیں تو وہ کیوں مسئلہ ہے؟

”دہشت گردی“ ہو یا ”فحاشی“ان کی تعریف کے لیے ہم اپنے آپ کو معیار بنائیں گے تو آپ کا مخالف کبھی اس بات کو نہیں مانے گا کیوں کہ اس کا گھر اور اس کی تربیت اس کو کچھ اور باور کراتا ہے.... اسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ عوام کی اکثریت اسلام پسند ہے اور وہ یہ سب نہیں چاہتے تو یقین مانیے ، دل کو بہلانے کو تو خیال اچھا ہے لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ کیوں کہ اب ”عوام“ وہ تیس سال پہلے والے عوام نہیں رہے۔ اُس وقت جولوگ صرف پی ٹی وی کی نشریات دیکھتے تھے اور وہ بھی بچوں کے ساتھ نہیں، آج کیبل پر شوق سے سب کے ساتھ بیٹھے انڈین فلمیں دیکھتے ہیں ۔ وہ لوگ جو تیس پینتیس سال پہلے خبریں پڑھنے والی نیوز کاسٹر کا دوپٹہ سرکنے پر اعتراض کرتے تھے، آج اپنی معصوم بچیوں کو ٹھمکا لگاتے دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے ہوتے۔

غرض مذہبی و سماجی دانشوروں سے یہی درخواست ہے کہ وہ لبرل طبقے کی ہوشیاری کو سمجھیں اور اپنے آپ کو، صلحاءو علماءکو یا عوام کی اکثریت کو دلیل نہ بنائیں، کیوں کہ وہ آپ کو دنیا بھر کی اور مسلمان ممالک کی مثالیں دینا شروع کر دیں گے، اس لیے سیدھا سیدھا قرآن وسنت سے دلیل دیں اور بس.... آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک فحاشی کیا ہے ؟کیوں کہ یہی فحاشی کی اصل تعریف ہے۔

٭ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: مفہوم”اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کااوربھلائی کرنے کا اورقرابت والوں کے دینے کا اورمنع کرتا ہے بے حیائی سے اورنامعقول کام سے اور سرکشی سے۔(النحل:۹۰)
٭حضور کا ارشاد ہے کہ مجاہرہ (کھلم کھلا فحش حرکات کرنا یا پوشیدہ حرکات کا اعلان کرنا ) کرنے والوں کی معافی نہیں۔ (گھر گھر میں چلتے یہ ڈانس شوز ، ڈراموں میں بے ہودہ ڈائیلاگ، یہ میاں بیوی کا کردار کرنے والے اصلاً نامحرم مرد و عورت کا بے ہودہ مساس کیا فحاشی کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا یہ سب مجاہرہ نہیں؟ )
٭فحاشی کے برعکس اسلام نے حیا کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اسے جز وایمان قرار دیا۔ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایاکہ اگرتجھ میں حیا نہیں تو جو جی میں آئے کر۔
٭ اسلام نے فحاشی و بے حیائی کے ہر مظہر کو ممنوع قرار دیاہے ۔اس نے نہ صرف زنابلکہ اس کے محرکات تک کو ممنوع قرار دیا ۔اسی لیے زنا کے محرکات یعنی بدنظری، گندا لٹریچر، بیہودہ گوئی، حتی ٰکہ گندے خیالات تک سے بھی روکا گیا ہے۔
 
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174145 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More