نشاة ثانیہ اور کھوئے ہوئے وقارکی تلاش
مدرسة الاصلاح کی تحریک ایسے مقام پر آپہنچی ہے کہ اب اس کی نشاة ثانیہ
اوراس کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کی ضرورت ہے او رتعلیمی یہ اسی وقت
ممکن ہے جب مدرسہ کے تعلیمی و تربیتی نظام کا از سر نو جائزہ لے کر اصلاحات
کے لئے ضروری اقدام کیا جائے۔
انیسویں صدی بر صغیر میں مسلم اقتدار کے زوال کے بعد کی صدی تھی ۔ مغل
حکومت کے اختتام اور بر طانوی سامراج کے استحکام نے مسلم معاشرے کے لئے
سنگین مسائل پیدا کر دئے تھے ،اقتدار سے محرومی نے جہاں ایک طرف شکست
خوردگی کی ذہنیت کو جنم دیا وہیں بہت سی معاشرتی برائیاں بھی در آئیں ۔جہالت
،بدعات اورمشرکانہ رسوم مسلم معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی تھیں ۔اعظم گڈھ
کا دور افتادہ علاقہ ان مسائل سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھا ۔چنانچہ یہاں کے
کچھ حساس اور درد مند افراد نے اس صورتحال کی اصلاح کی ضرورت کو شدت سے
محسوس کیا اور مولانا محمد شفیع کی قیادت میں اس مقصد سے ایک انجمن” اصلاح
المسلمین“ کی بنیادرکھی گئی۔ اصلاح معاشرہ کے میدان میں اس تنظیم کی ناقابل
فراموش خدمات ہیں ۔جب انجمن کی طرف سے کام شروع ہوا تو لوگوں کو یہ شدت سے
محسوس ہوا کہ دعوت دین اور اصلاح ملت کے ساتھ ہی ایک دینی مدرسہ کا قیام
بھی بہت ضروری ہے جس سے نونہالان قوم کو مذہب اسلام کی تعلیم دی جا سکے اور
انہیں مسلکی اور گروہی عصبےت سے پاک خالص اسلامی افکار ونظرےات کا حامل
بنایا جا سکے۔
اس وقت تک اعظم گڑھ یا اس کے آس پاس کے علاقہ میں کوئی قابل ذکر تعلیمی
ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے لوگوں کوعلم کے حصول کے لئے شہر جونپور کا رخ
کرنا پڑتا تھا جو اپنی علمی حیثیت کے لحاظ سے شیرازہند کے لقب سے سرفراز
تھا۔ اس لئے1908ءمیں باضابطہ طور پرانجمن اصلاح المسلمین کے نام پر مدرسہ
اصلاح المسلمین کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر مدرسة الاصلاح ہوگیا۔ اس
مدرسے کے قیام کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی 1910ء یا 1911ء میں مولانا محمد
شفیع بانی مدرسہ کی دعوت پر مورخ اسلام علامہ شبلی نعمانی نے اس کی سر
پرستی اور علامہ فراہی نے علامہ شبلی کی تجویز اور مشورہ پر اس کی نظامت
سنبھالی اوراس کی بنیادی شکل بھی تیار کی جس کی تصدیق علامہ فراہی کے نام
علامہ شبلی کے خط سے ہوتی ہے:"کیا تم کچھ دن سرائے میر کے مدرسہ میں قیام
کر سکتے ہو میں بھی شاید آﺅں اوراسکا نظم و نسق درست کر دیا جائے اسکو
گروکل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنایا جائے یعنی سادہ زندگی اور قناعت
اور مذہبی خدمت مطمح نظر ہو"۔ (شبلی، ۲اپریل1910)
چنانچہ ان نابغہ روزگارشخصیتوں نے مدرسہ کا انتظام و انصرام صحیح کیااور
وقفہ وقفہ سے یہاں آکر اس کا جائزہ بھی لیتے رہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے تو
ندو ة سے مایوسی کے بعد مدرسة الاصلاح اور دارالمصنفین کو اپنی تمام
ترعلمی،عملی اور تعمیری کوششوںاور کاوشوں کا مرکز بنا لیا جیسا کہ شبلی
نعمانی امام فراہی کے نام اپنے ایک خط میں شبلی نیشنل کالج کا مختصر ذکر
کرنے کے بعد لکھتے ہیں:"بحث یہ ہے کہ ہماری قومی قوت سرائے میر پرصرف ہو یا
اعظم گڑھ پر دونوں کے قابل قوم نہیں ہے ۔کم سے کم یہ کہ دونوں کی جداگانہ
پوزیشن قائم ہونی چاہئے اور ان کا باہمی تعلق بھی، کبھی کبھی یہ خیال ہوتا
ہے کہ ،ان میں سے ایک کو مر کزبنا کر اسی کو دینی و دنیاوی تعلیم کا مرکز
بنایا جائے ۔یہیں خدام دین بھی تیار ہوں اور مذہبی اعلی تعلیم بھی دلائی
جائے ،گویا گر و کل ہو ۔تم اپنی رائے لکھو ۔ندوة میں لوگ کام کرنے نہیں
دیتے تو اور کوئی دائرہ عمل بنانا چاہئے ہم سب کو وہیں بود وباش اختیار
کرنی چاہئے ،ایک معقول کتب خانہ بھی وہاں جمع ہونا چاہئے اگر تم عزم و جزم
موجود ہو تو میں موجود ہوں ۔"(شبلی ، 23اکتوبر1913ئ)
حالات کے اس پس منظر میں علامہ شبلی نعمانی علی گڑھ کے بعد ندوہ کو خیر باد
کہہ کر 1914ءمیں اپنے وطن اعظم گڑھ واپس لوٹ آئے اور مدرسة الاصلاح اور دار
المصنفےن پر توجہ مرکوز کر دی، ان کے وہ خواب جو ندوة میں شرمندہ تعبیر نہ
ہوسکے تھے، مدرسة الاصلاح کا مجوزہ منفردنظام تعلیم ان کی تعبےربن کر سامنے
آنے والا تھا ، لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ان کی زندگی نے وفا نہیںکی اور
اپنے بعد اس خاکہ میں رنگ بھر نے کام اپنے خاص عزیزوںاورشاگردوں کے لئے
چھوڑ کر دسمبر1914ءمیں ہمیشہ کے لئے اس دار دار فانی سے عالم جاودانی کی
طرف کوچ کر گئے۔
علامہ شبلی نعمانی کے انتقال کے بعد ایک طرف دارالمصنفین کی ذمہ داری علامہ
سید سلیمان ندوی نے سنبھالی، وہیں دوسری طرف مدرسة الاصلاح کی نظامت کی ذمہ
داری امام فراہی نے اپنے سر لی ۔ اور 1919ء میں حیدرآباد کی ملازمت سے
سبکدوش ہو کرمدرسة الاصلاح کو اپنی تمام تر توجہات کا مرکز بنا لیا۔ یہاں
کے اساتذہ اور درجات علیا کے طلبہ کو ہفتہ میں چند دن درس دیاکرتے ،مدرسہ
کے لئے قدیم درس نظامی سے ہٹ کر ایک جامع نظام تعلیم اور مناسب حال نصاب
تجویز کیاجس میں قرآن مجید تمام علوم و فنون کے محور کے طور پرتسلیم کیا
گیا تاکہ اس کے ذریعہ طلبہ میں وسیع علم اور تحقیقی صلاحیت کے ساتھ کمال
درجہ کا اطمینان و صبر، تقوی اور للہےت اور عمدہ کرداروصفات بھی پیداہو
سکےں اور اس طرح اپنی ساری سوچ اور علمی توانائی صرف کرکے انہوں نے اس بنجر
زمین میں مولانا محمد شفیع کے لگائے ہوئے پودے کو ایک تناور درخت کی صورت
دی ،اس پاکیزہ درخت کی مانند جس کی جڑیں(زمین میں) مضبوط ہےں اور اس کی
شاخیں آسمان میں ہیں لیکن جب اس پودے نے برگ اور بارلانا شروع کیا تو اس کا
مالی اس چمنستان سے جداہو کر دور بہت دور اپنے آقا کے جوار میں پہنچ گیا۔
امام فراہی کی وفات کے بعد ان کے قابل اور لائق شاگردوں مولانا اختر احسن
اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے تشنہ تکمیل کاموں کو مکمل
کرنے کی ذمہ داری سنبھالی اور شاگردی کا حق ادا کردےا،علمی دنےا تا ابد ان
کے علمی کارناموں سے حظ اٹھاتی رہے گی ۔ ایک نے علمی فکری وراثت سنبھالی
اور ان کے نامکمل کاموں کو آگے بڑھایا تو دوسرے نے علم کے ساتھ شخصیت سازی
پر توجہ دی ۔امام فراہی کی غیر مطبوعہ تصانیف کی ترتیب اور ترجمہ و اشاعت
کےلئے 1935ء میں مدرسہ الاصلاح میںدائرہ حمیدیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم
کیا گیااس کے علاوہ اس ادارہ سے اردومیں” الاصلاح“ کے نام سے ایک معیاری
رسالہ شائع کیا گیا تا کہ اردو دا ںطبقہ کو بھی امام فراہی ؒکے نظریات اور
خیالات سے واقف کرایا جا سکے۔ رسالہ نامساعد حالات کی وجہ سے کچھ سالوں میں
ہی بند ہو گیا لیکن ادارہ بہر صورت کام کرتا رہا اور آج بھی اپنی خدمات
انجام دے رہا ہے۔
مدرسة الاصلاح کا نشان امتیاز قرآن مجید کی محققانہ تعلیم،حدیث کے ساتھ فقہ
مقارن اور دینی کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم بھی ہے ۔ یہ ہندوستان کا
وہ ممتاز ادارہ ہے جس میں طلبہ کیلئے عصری تعلیم لازم قرار دی گئی اورآج
بھی یہاں کے نصاب تعلیم میں انگریزی، ہندی، جغرافیہ، تاریخ، سیاسیات، اور
اردوو فارسی کے علاوہ معاشیات، سماجی سائنس ریاضی، علم طبعیات،علم کیمیا
اوراورحیاتیات جیسے عصری علوم کی بھی تعلیم دی جا رہی ہے ۔جس کی وجہ سے
یہاں کے طلبہ جدید دانش گاہوں میں بھی حصول تعلیم کی اہلیت سے مکمل
طورپرمتصف ہوکر فراغت حاصل کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے فارغین آج کئی
جدید اداروں میں بڑے عہدوں پر بھی متمکن ہیں ۔مدرسة الاصلاح ایسا علمی افق
ہے جس پر طلوع ہونے والا ہر ستارہ اپنے علم کی روشنی سےایک عالم کو تابندہ
کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تاحال قائم ہے،تاہم اب پہلی باتیں نہیں، جہاں
مرور ایام سے بڑ ی بڑی تبدیلیوں واقع ہوئی ہیں،تعلیم وتعلم کا ذوق بھی
پھیکا پڑ چکاہے جس کا ہر کسی کو احساس ہے، بس اس کے تسلیم کرلےنے اور تلافی
مافات کی ضرور ت ہے:
کیسی وفا و الفت کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
قلق تو ان اقدار کی پامالی کا ہے جن کی پاسبانی میں مدرسة الاصلاح ممیز تھا،
ہم اپنے زخم اس لیے کریدتے ہیں تاکہ زخمی ہونے کا احساس زندہ اور علاج کی
ضرورت محسوس ہوتی رہے،مدرسة الاصلاح کی تحریک ایسے مقام پر آپہنچی ہے کہ اب
اس کی نشاة ثانیہ اوراس کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کی ضرورت ہے اور
یہ اسی وقت ممکن ہے جب مدرسہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کا از سر نو جائزہ لے
کر اصلاحات کے لئے ضروری اقدام کیا جائے۔ |