قدیم مصری تہذیب پر سوڈان کے صحرائے نیوبا کے باسیوں کے اثرات

چمکتے دمکتے سیاہ شہنشاہ۔

سوڈان میں مصر سے زیادہ اہرام کی موجودگی اور تاریخی دریا فتوں پر مصری تہذیب کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ کی سوچ کے نئے زاویئے۔

وادی نیل کی قدیم ترین مصری تہذیب کا 730 قبل مسیح کا گم گشتہ باب ،آبنوسی رنگت کا ایک بت، جس کی دریافت سے ماہرین آثار قدیمہ قدیم مصر کے بارے میں نئے حقائق سے روشناس ہوئے ہیں جنوبی مصراور شمالی سوڈان کے درمیان واقع علاقہ ’نیوبا‘ (Nubia)جہاں آ بنوسی رنگت کے تقریباپانچ لاکھ نفوس پر مشتمل قبائل آباد ہیں جو بہترین مصری اورسوڈانی عربی بولنے کے ساتھ ساتھ اپنی متروک ہوتی ہوئی مادری زبان Nobiinکی بھی بھرپور حفاظت کررہے ہیں، اس تاریخی علاقے سے وابستہ اس دریافت کے تانے بانے قدیم مصر کے تیسرے عہد وسطی کی 25ویں شہنشاہیت کے دوران تیسرے عہد کے سیاہی مائل آبنوسی رنگت کے بادشاہ ’’Piye‘‘ کے بت کی دریافت سے ملتے ہیں اس دریافت نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ قدیم مصر کی شاہی تاریخ(Ancient Egypt Pharaoh History) صرف مصر تک محدود نہیں ہے بلکہ 75برس تک آبنوسی رنگت کے نیوبین حکمرانوں نے پورے جاہ و جلا ل کے ساتھ ا پنی سلطنت ’نیوبا‘ کے شاہی ایوانوں میں بیٹھ کر قدیم مصر پر حکومت کی جسے مورخین Black Pharaohsعہد حکومت سے تعبیرکرتے ہیں یاد رہے قدیم مصر ی زبان میں ’’ فہاراؤس‘‘ بادشاہ کے محل یا آفس کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جس کے معنی ’’عظیم گھر‘‘ کے تھے تاہم مصر کی پچیسویں شہنشاہیت کے دور میں لفظ ’’ فہاراؤس ‘‘ کو بادشاہ کے لئے بھی استعمال کئے جانے کے شواہد ملتے ہیں واضح رہے سوئٹزر لینڈکی جنیوا یونیورسٹی اور فرانس کے ماہرین آثار قدیمہ نے جب وادی نیل میں شمالی سوڈان کے علاقے نیوبامیں قدیم مصری فن تعمیر کے انداز میں تراشے ہوئے اہرام بہت بڑی تعداد میں دریافت کرنے کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے نیوبین علاقے سے تعلق رکھنے والے آبنوسی رنگت کے شہنشاہ’ Piye‘کا تاریخی بت بھی یہا ں سے دریافت کیا ہے تومصری تہذیب اور نیوبین سلطنت کے درمیان تعلق کی تاریخ ایک نیا رخ اختیار کرگئی ، 730قبل مسیح تک سلطنت مصر اور شمالی سوڈان میں واقع علا قے ’نیوبا‘ کی سلطنت کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کے باعث جہاں ایک طرف یہ دونو ں خطے ایک دوسرے کے پڑوسی تھے تو دوسری جانب افسوس ناک امریہ تھا کہ اس خطے کے باسی ایک دوسرے کے جانی دشمن بھی تھے مورخین کا خیال ہے کہ شاید ایسے پر آشوب وقت میں سلطنت نیوبا کے دولت مند فرماں رواں Piyeنے اپنے ملک کے عظیم شہر Napataسے اٹھ کر جو موجودہ سوڈان کا حصہ ہے اس بات کا فیصلہ کیا کہ خطے میں موجود لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کے ماحول کو امن وآشتی کے ماحول میں تبدیل کیا جائے اس سوچ کے پیش نظرشہنشاہ Piye نے 721قبل مسیح میں مصر میں پچیسویں شہنشاہیت کی بنیاد رکھی جسے Piye شہنشاہ کی نسبت سے ’نیوبین شہنشاہیت‘ بھی کہا جاتا ہے مصر کے اس خطے میں تبدیلی کا باعث بننے والے اس فیصلے سے نہ صرف پہلی مرتبہ مصری تہذیب میں سیاہی مائل رنگت کے بادشاہ کی آمد ہوئی بلکہ اس خطے نے بیش بہا ترقی بھی کی اپنے دو دہائیوں پر مشتمل اس عہد میں Piye نے کافی بڑی تعداد میں اہرام بھی تعمیر کئے جنہیں بعد میں جنگجوؤں نے تباہ کردیا یا نقصان پہنچایا تاہم Piye خود کو مصری تہذیب کی انیسویں شہنشایت کے عظیم بادشاہ Ramsesدوئم جسے مصرکی قدیم تہذیب کا ایسا طاقتور اور بااثر بادشاہ (Pharaoh)سمجھا جاتا ہے جس نے صرف چودہ برس کی عمر میں جب وہ پرنس تھا اس امر کا اظہار کردیاتھا کہ وہ بیس برس کی عمر میں عنان حکومت سنبھال لے گا اور ٹھیک بیس برس کی عمر میں شہنشاہ بننے کے بعد اس نے چھیاسٹھ سال 1279قبل مسیح سے 1213قبل مسیح تک حکومت کی، نناوے برس تک زندہ رہنے والے اس عظیم فہاروس کا دور حکومت قدیم مصر کا تجارت اور انصاف کے حوالے سے ایک شاندار عہد سمجھا جاتا ہے اسی طرح بیس سال تک اپنی سوتیلی ماں Hatshepsut کے ساتھ ملکر حکومت کرنے والے قدیم مصر کی اٹھارویں شہنشاہیت کے عہد کے عظیم شہنشاہ Thutmoseسوئم بھی نیوبین شہنشاہ Pyieکا آئیڈیل تھا Thutmoseسوئم نے اپنی ماں کی موت کے بعد مصری سلطنت میں اس حد تک وسعت دی تھی کہ قدیم مصری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی Thutmoseکی وسعت دی ہوئی یہ سلطنت شمالی شام کے علاقے Niyسے لے کر وادی نیل کے علاقے نیوبا تک پھیلی ہوئی تھی Thutmoseسوئم کو تعمیرات کا بھی بے حد شوق تھا اس نے اپنی سلطنت میں لگ بھگ پچاس عظیم الشان عبادت خانے بنوائے تھے اور Karnakمیں واقع عظیم عبادت خانے کی تعمیرات میں بیش بہا اضا فہ بھی کروایا تھا یہی وجہ ہے کہ تمام ماہرین آثار قدیمہ اس بات پر متفق ہیں کہ Thutmoseسوئم کے دور میں ہونے والی تعمیرات کے جیسے ہنر مندانہ کام نہ تو مصری تہذیب کی پہلی شہنشایتوں کے دور میں نظر آ تے ہیں اور نہ ہی ایسا منفرد اور معیاری کام بعد میں آنے والے بادشاہوں کے دور میں نظر آیا مصر کی بادشاہوں کی وادی میں بنے اہرام میں مدفون اس زہین اور فن تعمیر کے دلدادہ شہنشاہ نے 1479قبل مسیح سے 1425قبل مسیح تک تقریبا54برس تک بادشاہت کی ۔

قدیم مصری تاریخ کے تمام جدید اور قدیم مورخ اس بات پریکسو ہیں کہ راعمیسس دوئم اور تھتموس سوئم جیسے زبردست صلاحیتوں کے مالک شہنشاہوں سے روحانی طور پر متاثر’ نیوبا‘کے بادشاہ Piye نے جس وقت مصر جانے کی ٹھانی اس سے قبل وہ زیریں مصر نہیں گیا تھا تاہم اس کی کامیابیوں اور طر زعمل نے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ذہین اور پر خلوص شہنشاہ تھا تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے سپاہیوں نے دریائے نیل کے جنوبی حصے میں سفر کرتے ہوئے Mediterraneanسمندر کے جنوب میں آٹھ سو کلومیٹر کی دوری پر واقع بالائی مصر کے دارالخلافےThebesمیں پڑاؤ ڈالا واضح رہے یہ شہر جو قدیم مصری تاریخ کی گیارہویں شہنشایت سے لے کر اٹھارویں شہنشایت کے دوران مصر کا پایہ تخت رہا ہے اور آج بھی اس کے آثار عظیم یونانی شاعر ہومر کی اس نظم کی تائید کرتے نظر آتے ہیں جس میں اس نے ’ شہر تھیبس‘ کی دولت اور خوبصورتی کا ذکر کیا ہے۔ محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ دریائے نیل کے مغربی حصے پر واقع مقبرے بھی Thebesشہرکا ہی حصہ ہیں اور اس کے گرد نواح میں واقع Luxorاور Al-Karnakکے خوبصورت محلوں کے آثار بھی دراصل تھیبس شہر ہی میں واقع تھے اس تاریخی شہر میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد Piyeنے بدی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے قبل اپنے تمام سپاہیوں کو ہدایت کی کہ وہ خود کو دریائے نیل کے پانی سے پاک کرلیں اور پٹ سن سے بنے صاف ستھرے کپڑے زیب تن کر کے اپنے جسموں پر ’ کارنک‘ عبادت خانے کے مقدس پانی کا چھڑکاؤ کرلیں کیونکہ اس علاقے کا تعلق جہاں سے جنگ کی ابتداء کی جارہی ہے سورج دیوتا آمون ، میوٹ اور خونسو ‘ سے ہے ان ضروری کاموں سے فارغ ہونے کے بعد Piyeاور اس کے سپاہیوں نے ’آمون دیوتا‘ کے حضور بدی سے جنگ لڑنے کا عہد کیا کہ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر دیوار کو گر ادینگے ایک مختصر عرصے کی جنگ اور اس کے بعد بالائی مصر کے شہر Thebesمیں تقریبا ایک سال تک قیام میں Piyeکی شریفانہ عادات اور عسکری قوت کے باعث مصر کے تمام جنگجووں نے ہتھیار ڈال دیئے جس میں دریائے نیل کے ڈیلٹا پر واقع زبردست جنگی صلاحیتوں کا مالک اور قدیم مصر کی چوبیسویں شہنشاہیت کا بانی شہنشاہ Tefnakht بھی شامل تھاجس نے اپنے ایک پیغام رساں کے ذریعے نیوبین شہنشاہ Piyeکو پیغام دیا کہ وہ اس کی خدمت میں رحم کی درخواست کرتا ہے اور اس کے غیض وغضب سے پناہ چاہتے ہوئے اپنی جانوں کے بدلے میں زر و جواہر پیش کرتا ہے امن و امان کے قیام اور مصراور نیوبا کے درمیان اختلافات ختم کرانے کے بعد Piyeکو دونوں سرزمینوں کے واحد بادشا ہ بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا اس منفرد اعزاز کے حصول کے بعد Piyeنے اپنا رخت سفر اپنے ملک نیوبا کے لئے باندھ لیا جس کے بعد وہ کبھی بھی مصر نہیں آیا۔

اپنے پینتیس سالہ دور بادشاہت کے اختتام پر جب اسکی موت 715قبل مسیح میں واقع ہوئی تو شہنشاہPiyeکو اس کی وصیت کے مطابق مصری انداز کے اہرام میں اس کے چار ہر دلعزیز گھوڑوں کے ساتھ دفن کر دیا گیا واضح رہے Piye پانچ سو سالوں میں وہ پہلا Pharaohتھا جسے اس اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیاافسوس ناک امر یہ کہ قدیم مصر کو دوبارہ متحد کرنے والے اس قابل ستائش کام پر زمانہ کی گرد کچھ اس طرح پڑی رہی کہ عظیم نیوبین باشاہوں کے اس کارنامے کو کوئی شناخت نہ مل سکی تا ہم اب سوڈان میں دریافت ہونے والے شہنشاہ Piyeکے نقش جو گرینائٹ کے بننے سلیبوں اور گول ستونوں پر کنندہ ہیں نے آبنوسی رنگت کے سیاہی مائل عظیم نیوبین بادشا ہ کے کارناموں کو موجودہ عہد میں زندہ کردیا ہے اگرچہ نیوبین شہنشاہیت کا دور قدیم مصر میں 75سال تک رہا ہے جس میںآبنوسی رنگت کے سیاہی مائل Piyeکو نیوبین سلسلے کا پہلا بادشاہ( Pharaoh)کہا جاتا ہے تاہم اس دور کی دریافتوں کے حوالے سے محققین کا کہنا ہے کہ قدیم عمارتوں کے ستونوں اور دیواروں پر بنے نقش ونگار اور تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ نیوبین تہذیب کے ان فاتحین کے اثرات پورے براعظم افریقہ میں پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں ہیں جنہوں نے نہ صرف بکھری ہوئی مصری تہذیب کو ایک مرتبہ پھر متحد کیااو ر سرزمین مصر کو کئی یادگار عمارتوں اور شاندار نشانیاں عطا کیں بلکہ ایک ایسی سلطنت کی داغ بیل ڈالی جس کی سرحدیں سوڈان کے دارلخلافہ ’ خرطو م‘ کے جنوب سے لیکر ’میڈیٹیرین سمندر ‘کے شمال تک پھیلی ہوئی تھیں اور ایک اندازے کے مطابق ان نیوبین بادشاہوں کی کوششوں سے وسعت پذیر ہونے والی ان سرحدوں نے خون آشام ’آسارین (Assyrians)‘کے خلاف بھی بند باندھا ’آسارین تہذیب ‘پر تحقیق کرنے والے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ آسارین کے یروشلم شہر پر قبضے نہ کرنے کی اہم وجوہات میں سے ایک اہم وجہ قدیم مصرکی اس عظیم الشان مملکت کی مزاحمت اور نیوبین تہذیب کا بھی بھر پور عمل دخل رہا ہوگا ۔

اگرچہ قدیم مصری تہذیب اور تاریخ میں ’ سیاہ فہارؤس (Black Pharaohs)" کی موجودگی کا یہ باب جو عرصہ دراز سے پراسرایت کی دبیز تہوں میں چھپا ہوا تھاماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دانوں کی پچھلے چالیس سالوں کی جہد مسلسل کے بعد اب کافی حد عیاں ہوچکاہے جس میں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’ سیاہ فہارؤس‘ دنیا کے کسی اور خطے سے مصر میں داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ چمکتی ہوئی آبنوسی رنگت اور پر کشش نقوش کے حامل یہ کسرتی جسم کے بہادر لوگ سرزمین افریقہ ہی کے باشندے تھے جن کی نسل دریائے نیل کے جنوبی کنارے پر مصر کی پہلی شہنشاہیت کے دور میں تقریبا 2500قبل مسیح میں موجودہ سوڈان کے پچاس ہزار اسکوائر کلو میٹر پر پھیلے ہوئے’ صحرائے نیوبین‘ میں پروان چڑھی تھی اس بات کی تصدیق صحرائے نیوبیا کے علاقوں ’ال کرو،جبل برکل ، نیوری اور میرو میں پھیلے ہوئے لاتعداد اہراموں کی موجودگی سے بھی ہوتی ہے واضح رہے اس خطے میں دریافت ہونے والے اہراموں کی تعداد مصر میں دریافت ہونے والے اہراموں سے کہیں زیادہ ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ سوڈان کے مغرب میں واقع ’جنوبی دارفر‘ میں ہونے والی نسل کشی کے دوران ہونے والے فسادات سے متاثرہ مہاجرین کی آمدو رفت کے باعث اس تاریخی ورثے کو شدید خطرات لاحق ہیں چناچہ ضروری ہے کہ ان تاریخی مقامات کا تحفظ یقینی بنایا جائے تاکہ جس طرح صحرائے نیوبا سے ہزاروں میل کی دوری پر واقع اہرام مصر سیاحوں کو حیرت کے سمندر میں ڈبو دیتے ہیں بالکل اسی طرح سوڈان میں قدیم نیوبین تہذیب کے امین یہ اہرام اور تاریخی آثار سیاحوں اور تاریخ کے طالبعلموں کو ا پنے وجود کا احسا س دلائیں ایک طرف ان آثار قدیمہ کی بقاء کو انسانی جنگ و جدل کا سامنا ہے تو دوسری جانب ماہرین آثار قدیمہ، سو ڈانی حکومت کی جانب سے مصر میں 1960میں بنائے جانے والے اسوان ڈیم کے600میل کے بالائی بہاؤ پر بنائے جانے والے متنازع ’میرو ڈیم (Merowe Dam) ‘کی تعمیر سے سخت پریشان ہیں ان کا خیال ہے براعظم افریقہ کا بجلی کے پیداوار کے لئے بنایا جانے والا سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم جب 2009میں مکمل ہوگا اور اس میں دریائے نیل سے نکالی جانے والی 106میل لمبی نہر پانی سے لبریز ہوگی تو نامعلوم یہ نہر نیوبین تہذیب کے کتنے بیش بہا تاریخی واقعات اور نوادرات کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گی یہی وجہ ہے کہ پچھلے نو سالوں سے ماہرین آثار قدیمہ غول درغول اس علاقے میں آکر تیزی کے ساتھ اپنا تحقیقی کام کررہے تاکہ نیوبین تہذیب کو ایک اور عظیم تہذیب’ اٹلانٹس‘ کی طرح گمشدہ تہذیب نہ قرار د ے دیا جائے-

واضح رہے قدیم دنیا کے باسی رنگت کی بنیاد پر تقسیم نہیں تھے البتہ یہ لوگ گروہوں کی شکل میں دور دراز علاقوں میں بستے تھے اور یہ بات طے ہے کہ با دشاہ Piye کی سیاہ رنگت اس کی قدیم مصر کی عنان حکومت سنبھالنے کے حوالے سے کبھی مسئلہ نہیں بنی اگرچہ قدیم مصر، یونان اور رومن فن پاروں میں چہرے کے خدو خال اور اجسام کی رنگت کے حوالے سے کافی تغیر پایا جاتا ہے مگر ان نوادرات یا نقوش میں سیاہ رنگت کے اجسام کو کسی بھی طور پر کمتر نہیں دکھایا گیا ہے تاہم نیوبین بادشاہوں کی گہری رنگت کے بتوں کو دیکھنے کے بعد جب انیسویں صدی میں مغربی اقوام کی سیاسی بالا دستی قائم ہورہی تھی تو انہوں نے قدیم افریقہ میں رنگت کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل کا ذکر کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے بلکہ صحرائے نیوبین جہاں سے یہ شہنشاہیت پروان چڑھی تھی ایک نہایت دولت مند خطہ تھا جہاں سونے اور زرجواہر کی بھی فراوانی تھی اسی لئے موجودہ شمالی سو ڈان میں دریائے نیل کے قریب واقع صحرائے نیوبین میں پروان چڑھنے والی ابتدائی تہذیب جسے Kushکہا جاتاتھا ، میں اطالوی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر Giuseppe Ferliniنے Kushبادشاہوں کے اہرام دریافت کئے تو ان کا خیال تھا کہ وہاں سے مصری بادشاہوں(Phaoras) کے اہراموں کی طرح قیمتی نوادرات اور اشیاء دریافت ہونگی بلکہ جرمنی کے ماہر ’رچرڈ لپسس ‘ نے تو یہاں تک لکھا کہ صحرائے نیوبا کے Kushitesلوگوں کا تعلق سفید فام نسلی گروہوں (Caucasian)سے تھااسی طرح جب ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر George Reisnerنے 1916اور 1919کے درمیانی عرصے میں تحقیقی کاموں کے دوران کئی بیش قیمت دریافتیں کیں تھیں اور باوجود اس کے کہ ان دریافتوں میں کئی سیاہ فام مجسمے بھی دریافت ہوئے تھے ان کا خیال تھا کہ ایسے زبردست اہرام سیاہ فام افریقن نہیں بنا سکتے بلکہ یہ کارنامہ یقیناًہلکی سیاہی مائل رنگت کےEgypto-Libyansباشاہوں کا ہے جو ان کے خیال میں اصلا سفید فام تھے مگر افریقہ کے نیگرو قبائل میں شادیاں کرنے کے باعث ان کی رنگت تبدیل ہوگئی تھی ایسے ہی خیالات کا اظہار سفید فام امریکی ماہر مصریات ’ کیتھ سیل اور جارج اسٹینفورڈ ‘ نے اپنی 1942 میں لکھی ہوئی کتاب When Egypt Ruled the East میں کیا ہے جس کا اختتام اہنوں نے اس جملے میں کیا ہے کہ’ نیوبین باشاہوں کادور حکمرانی زیادہ عرصہ نہیں چل سکا ‘۔ایسے ہٹ دھرم روئیوں کی وجہ ہی سے عرصہ دراز سے افریقہ کی تاریخ ابہام کا شکار رہی ہے بلکہ سوئٹزر لینڈ کے ماہر آثار قدیمہ ’ چارلس بونینٹ ‘ کا کہنا ہے کہ وہ جب خرطو م میں نیوبین اہرام کی کھدائی کا کام کررہے تھے تو عام خیال یہ تھا کہ وہ پاگل پن کی حرکت کررہے ہیں کیونکہ افریقہ کی تاریخ مصر میں دفن ہے سوڈان میں ایسا کچھ نہیں ہے تا ہم تقریبا44سال قبل جب سوڈان کے جنوب میں واقع مصر کے شہر اسوان کے مقام پر پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوئی اور نوادرات کی دریافت شروع ہوئی تو ماہرین کی توجہ اس سے متصل شہر’نیوبا ’کی جانب بھی بطور تاریخی شہر کے مبذول ہوئی اور وہاں پر کھدائی کا کام شروع کیا گیا 2003میں جب تقریبا 10سال کی تلاش و بسیا ر کے بعد ’چارلس بوننٹ‘نے اسوان سے 435کلو میٹر کی دوری پر واقع سلطنت نیوبا کے تاریخی شہر Kermaمیں نیوبین شہنشاہوں کے سات عظیم مجسمے ،سونے سے بنے زیورات ،آبنوسی لکڑی اور ہاتھی کے دانتوں سے بنے ظروف اور زیورات وغیرہ دریافت کئے تو دنیا بھر میں نیوبا کو مصری تہذیب کے حوالے سے قابل قدر شناخت حاصل ہوئی اس حوالے سے چارلس بوننٹ کا کہنا ہے کہ نیوبین سلطنت جس نے مصر میں بھی لگ بھگ 71برس تک حکومت کی دراصل ایک مکمل اور مصر کی عملداری سے آذاد سلطنت تھی جس کا واضح ثبوت نیوبین خطے سے دریافت شد ہ اشیاء ، تعمیرات اور ان کے تدفین کے مختلف طریقوں سے ملتا ہے چارلس کا اس حوالے سے کہنا ہے نیوبین سلطنت 1785قبل مسیح سے 1500قبل مسیح کے دوران صحراے نیوبا میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر تھی جس کے اثرات پورے قدیم افریقہ میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں بلکہ کئی محققین اس تناظر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ1333قبل مسیح سے 1322قبل مسیح میں قدیم مصر کی اٹھارویں شہنشاہیت کا بادشاہ Tutankhamunجسے عام طور پرKing Tutبھی کہا جاتا ہے کہ علاوہ قدیم مصر کی69قبل مسیح سے 30قبل مسیح کے زمانے سے تعلق رکھنے والی آخری ملکہ (Pharaoh)قلوپطرہ کی سیاہ رنگت بھی نیوبین اور’ افرومصرین ‘افراد کے درمیان ہونے والی شادیوں کا نتیجہ تھی دراصل ان شادیوں اور تعلقات کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مصری سلطنت کے کرتا دھرتا اپنے جنوب میں واقع نیوبین سلطنت کی شکل میں ایک طاقتور پڑوسی نہیں چاہتے تھے با لخصوص اس وقت کہ جب ان کی مغربی ایشیاء میں بالا دستی کی اہم وجہ نیوبین علاقوں میں موجود سونے کی کانوں سے حاصل ہونے والی دولت تھی چناچہ انہوں نے نہ صرف اس خطہ میں فوجی چھاؤنی قائم کی بلکہ نیوبین چیف کو انتظامی اختیارات دینے کے بعد نیوبین بچوں کی تعلیم میں مصری زبان اور مذہبی معاملات میں مصری رسوم رواج کی اس حد تک آمیزش کی کہ نیوبین خطے کے لوگوں نے اپنی تدفین کے لئے مصری انداز کے اہرام بھی بنانا شروع کردئے چناچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا میں Egyptomaniaکے اولین اثرات نیوبین تہذیب پر پڑے جسے انیسویں اوربیسویں صدی کے ماہرین مصریات نیوبین تہذیب کا ایک کمزور پہلو گردانتے ہیں، جو درست نہیں ہے ، کیونکہ نیوبین خطے کے سربراہوں نے خطے کے بدلتے ہوئے جغرافیائی اور سیاسی حالا ت کو بھانپ لیا تھا چناچہ انہو ں نے مصری روایات کو سیکھا اور بعد میں جب مصر ی تہذیب میں افتراق پیدا ہوا اور شمال میں لیبیا کے حکمرانوں نے مصریوں کے دیوتا ’آمون‘ کی عبادات کو متروک قراردینا شروع کیا تو ایسے کڑے وقتوں میں نیوبین شہنشاہ ہی تھے جنہوں نے مصر میں ایک مرتبہ پھر مصری مذہب ،تہذیب اور شہنشاہیت کا چراغ روشن رکھا دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے قدیم مصر میں امن و امان قائم کرنے سے پہلے مصر کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا تھا مگر مصر ی تہذیب، مذاہب اور رسوم رواج کے نیوبین معاشرے میں گذشتہ عمل دخل کی وجہ سے نیوبین شہنشاہوں نے مصر کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے کیا اس حوالے سے امریکہ کی شمالی مشرقی یونیورسٹی کی ماہر آثار قدیمہ ٹموتھی کینڈل‘ کا کہنا ہے کہ ’نیوبین اپنے روئیوں اور معاملات میں کیتھولک پوپ سے زیادہ کشادہ دل تھے ‘۔
نیوبین حکمرانوں کی رنگت کے مسئلے سے قطع نظر اس حقیقت کو تقریبا تمام ماہرین آثار قدیمہ اور تایخ دان مانتے ہیں کہ نیوبین شہنشاہیت کے دور میں قدیم مصری تہذیب کی نشاہ الثانیہ ہوئی اور جب عظیم نیوبین شہنشاہ Piyeکی 715قبل مسیح میں موت واقع ہوئی تو اسے کے بھائی ’ شاباکا(Shabaka)‘نے چھٹی مصری شہنشاہیت کے عظیم شہنشاہ Pepi دوئم کی تعلمیات کے مطابق مملکت کے معاملات مصر کے درالخلافہ Memphisمیں بیٹھ کر خوش اسلوبی سے چلائے جس میں اسکا اہم کارنامہ مصر کے ایک دیہات کو دریائے نیل کے سیلابی پانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بنایا جانے والاحفاظتی بند (Dam) تھا جس کی تعمیر میں اس نے اپنی قید میں بند دشمنوں کی افرادی قوت کو بطور سزا کے استعمال کیا تھا اس دوران اس نے تھیبس اور Luxorشہر میں عبادت خانوں کی تعمیر پر بھی بے تحاشا رقم خرچ کی اور Karnakعبادت خانے میں اس نے اپنا خود کا گلابی گیرینائٹ سے بنا مجسمہ ایستادہ کیا جس میں اس نے اپنے سر پر Kushiteشہنشاہیت کا ایک ایسا تاج بنوایاجس میں بنے ہوئے دو کوبرا سانپ اس کی دو سرزمینوں کے سربراہ ہونے کی علامت تھے ماہرین کا خیال ہے ’شاباکا‘ کی جانب سے انتہائی نادر، خوبصور ت اور بیش قیمت فن تعمیر کے نمونے اور حربی صلاحیتوں کے جا بہ جا اظہار سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ وہ مستقبل میں اس خطے میں آنے والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ مصری تہذیب میں مصر سے دوری کے باوجود صحرائے نیوبین کے حکمرانوں کا اہم ترین کردار رہا ہے واضح رہے اس کی ہدایت پرمصر کے تاریخی شہر Luxor سے ڈھائی کلو میٹر کی دوری پر واقع Karnak شہر میں بنایا جانے والا عبادت خانہ مصری تہذیب میں فن تعمیر کا ایسا چمکتا ستارہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ اس عبادت خانے کو جو ایک Complexکی شکل میں ہے مصری تہذیب کے سب سے اہم ترین مقام کے طور پر منتخب کیا گیا ہے جہا ں پر تھیبس شہر کے باشندے ’آمون دیوتا‘ کا تاج پہن کر عبادت کیا کرتے تھے لیکن اس دوران مصری تہذیب کے مشرقی حصے کی جانب آسارین(Assyrians)اپنی سلطنت میں تیزی سے وسعت دے رہے تھے اور جب طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر 701قبل مسیح میں انہوں نے Judah کے مقام کی جانب پیش قدمی کی جہاں آج کا اسرائیل ہے تو نیوبین حکمرانوں نے ان کی پیش قدمی روکنے کا فیصلہ کیادونوں افواج کا Eltekehکے شہر میں ٹکراؤ ہوا جس میں آسارین شہنشاہ Sennacheribنے نیوبین کو حقارت سے پکارتے ہوئے شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا لیکن جنگ کے دوران بھر پور قتل عام کے باوجود آسارین عظیم شہنشاہ Piyeکے بیس سالہ بیٹے کو قتل نہ کرسکے تاہم اس نے Judahپہونچ کر یروشلم شہر کامحاصر ہ کرلیا اس دوران یروشلم کے مذہبی رہنماHezekiahکو امید تھی کہ ان کے مصری اتحادی انہیں آسارین کے قہر سے نجات دلا دینگے یروشلم کے رہنما کی اس امید کا آسارین نے خوب مذاق اڑایا جس کا ذکر عہد نامہ قدیم کے دوسر ے حصے King IIمیں بھی آیا ہے جس وقت آسارین مصریوں کی آمد کامذاق اڑارہے تھے قدیم مذہبی کتابوں میں رقم ہے کہ عین اسوقت معجزہ رونما ہوا اور آسارین محاصر ہ چھوڑ کر واپس چلے گئے کہا جاتا ہے کہ ان کی فوج میں طاعون کی وبا پھیل گئی لیکن امریکی تاریخ دان ہنری ایوبن کی تحقیق کے مطابق جو ان کی کتاب The Rescue of Jerusalem میں درج ہے کہ جب یہ خبر پھیلی کہ نیوبین شہنشاہ Piyeکا بیٹا فوجیں لے کر آسارین کے خلاف جنگ کرنے یروشلم کی جانب بڑھ رہا ہے تو آسارین شہنشاہ Sennacheribنے یروشلم کا محاصر ہ ختم کر کے بے عزتی کے ساتھ واپس اپنے ملک کی راہ لی جہاں وہ اٹھارہ سال بعد اپنے بیٹوں کے ہاتھو ں قتل ہوگیا ہنری ایوبن کے مطابق تاریخ میں یروشلم پر قبضے اور بحالی کے حوالے سے کئی واقعات ہوئے ہیں مگریہ ایک اہم واقعہ تھا اسی طرح Babylonianعہد کے بادشاہ Nebuchadrezzarکی جانب سے اپنی سلطنت میں عبرانی اور یہودی عبادات پر پابندی لگانے کے باوجود وہ یروشلم شہر میں عبادات پر پابندی لگانے سے قاصر رہا تھا شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی یروشلم شہر کو یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں کے لئے مقدس شہر کا درجہ حاصل ہونا تھا یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ آسارین کے ہاتھو ں Eltekehکے مقام پر بچ جانے والے سیاہی مائل رنگت کے حامل نیوبین تہذیب کے شہنشاہPiye کے بیٹے کے ہاتھوں یروشلم شہر کا بچاؤ ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہے جس پرخون آشام ’ آسارین‘ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ’ ان کے سارے دیوتاؤں پر Piyeشہنشاہ کا بیٹا Taharqa برتر تھا‘ 690قبل مسیح سے 664قبل مسیح تک مصری سرزمین پر نیوبین تہذیب کے عظیم الشان نقوش ثبت کرنے والا یہ عظیم نیوبین شہنشاہ Taharqaانسانی تاریخ میں اپنے ایسے انمٹ کارنامے چھوڑ گیا ہے جس کی بنیاد پر نہ صرف آج ہم مصری تہذیب اور تاریخ سے آشنا ہو ئے ہیں بلکہ انسانی ترقی کو بھی زینہ بہ زینہ جانے کے قابل ہوسکے ہیں Taharqa کی عظمت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کے زہن رسا کی تخلیقات اور ان کے اثرات کے سحر سے اس کے دشمن بھی نہیں نکل سکے اور اسکے اپنے دور حکومت میں وادی نیل کے شہر Napata سے تھیبس شہرمیں حد نظر تک پھیلے ہوئے فن تعمیر کے لاتعداد فن پارے آج بھی انسانی آنکھو ں کو خیرہ کرتے ہیں جن میں بلند وبالا اہرام، انسانی اجسام کے کشادہ اور بڑے مجسموں کے علاوہ مختلف زیورات ، نادر اشیاء وغیرہ شامل ہیں جس میں ہر بت میں اس کا نام اور چہرے کا عکس بھی کنندہ ہے واضح رہے اس نے اپنے مجسموں میں خو د کو کہیں دیوتاؤ ں کے حضور گزگزاتے ہوئے دکھایا ہے تو کہیں آمون دیوتا کی خدائی کا محافظ ثابت کیا اور کہیں اپنے نچلے دھڑ کے ساتھ شیر کا چہرہ بنا کر مجسمہ بنوایا ہے اور بعض مجسموں میں اس نے خو د کو جنگجو دکھایا ہے نیوبین شہنشاہTaharqaکے تخلیق کردہ ان بتوں میں سے اکثرآج عجائب گھروں کے پرسکون ماحول میں انسانی تاریخ اور مصری تہذیب کی خوبصورتی کا مظہر ہیں البتہ ان مجسموں میں سے اکثر کی ناک بعد میں آنے والے Taharqaکے دشمن بادشاہوں نے توڑ دی تھیں یا پھر ان کی پیشانی پر خراشیں ڈال دی ہیں تاہم ان تمام بتو ں میں Taharqaکی آنکھیں صحیح سلامت ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے Taharqa ایک ایسا شہنشاہ تھا جس کے والد شہنشاہ Piyeنے مصر میں مصری تہذیب کا دوبارہ احیا ء کیا جب کے اس کے چچا Shabakaنے مصر میں Memphisاور تھیبس شہر میں نیوبین تہذیب کو امر کیا لیکن اس نے خود کو 31سال کی عمر تک ایک فوجی کمانڈر کے روپ تک محددد رکھا جس کے بعد اس نے 690قبل مسیح میں Memphisشہر میں شہنشاہیت کا تاج اپنے سرپر سجانے کے بعد وہ تقریبا 26برس تک بلا شرکت غیرے مصر اور نیوبا پر حکمرانی کرتا رہا Taharqaکے عروج میں اس کی محنت کے علاوہ قسمت کا بھی عمل دخل تھاکیونکہAssyriansیروشلم پر قبضے میں ناکامی کے بعد نیوبا سے واپس چلے گئے تھے جس سے خطے میں کافی سکون پیدا ہوگیا تھا اس کے علاوہ شدید بارشوں کے باعث دریائے نیل پانی سے لبریز ہو گیا اور اس میں آنے والی طغیانی فصلوں کو نقصان پہچانے والے چوہوں اور سانپوں کو بہا لے گئی بلکہ پانی کی فراونی کی بدولت انتہائی شاندار فصلیں بھی ہو تی رہیں جسکا زکر Memphisشہر میں ایستادہ چار بلند ستونوں میں رقم ہے Taharqaکے عہد میں ہونے والی ترقی اور امن و امان سے لگتا تھا کہ تمام دیوتا اس سے خوش تھے اس نے اپنی دولت کوبے دریغ خرچ کر کے پورے مصر میں Napataشہر سے تھیبس شہر تک مصری تہذیب کو وسعت دی اس کا ایک اہم فن ’کارنک معبد خانے‘ کے قریب تعمیر کیا جانے والا 62فٹ بلند ستون ہے جو اس جیسے دس ستونوں میں سے ایک ہے جو اس نے ’ آمون دیوتا‘ کی خوشنودی کے لئے بنایا تھا اس کے علاوہ تھیبس شہر میں اس نے اپنی ماں ’ ابار ‘ کی یاد میں بھی کئی مجسمے بنوائے اور اس کے ساتھ اس نے اپنے بھی کئی مجسمے بنوائے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیوبا کا باشندہ ہونے کے باوجود اسے تھیبس شہر سے شدید محبت تھی اس نے نیوبن تہذیب کے دارلخلافےNapata سے متصل جبل بارکل) (Jebel Barkalنامی پہاڑی جو موجودہ سوڈان کے شہر خرطو م سے 400 کلو میٹر شمال میں واقع ہے اور جہاں پر اب تک 13 عبادت خانے اور 3محل دریافت ہوچکے ہیں وہاں پر اس نے افزائش نسل کے حوالے سے اپنا ایک منفرد بت بنوایاتھا کیو نکہ اس زمانے کے لوگوں کا خیال تھا یہ پہاڑی ان کے دیوتا ’آمون‘کی جائے پیدائش ہے چناچہ اس نے آمون دیوتا کے وارث کے طور پر پہاڑی کے دامن میں اپنا مجسمہ بنوایا تھا اس کے علاوہ اس نے آمون دیوتا کی دیوی کے خوشنودی کے لئے بھی دو عبادت خانے بنوائے تھے جن میں موجودبتوں پر اس نے سونے کی پتریوں اور سونے کے پانی سے نہ صرف اپنا نام کنندہ کروایا تھا بلکہ جا بجا اپنی امارات اور فوجی قوت کے اظہار کے دوران اس نے خود کو پوری دنیا کا بادشاہ کہلوایا تھا ، اس دعوے کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کے ماہرآثار قدیمہ چارلس بوننٹ کا کہنا ہے کہ سیاہی مائل رنگت کے نیوبین شہنشاہTaharqaکا یہ دعوی درست نہیں تھا بلکہ ممکن ہے وہ اپنے عہد حکومت کے آخری دور میں جب دماغی عارضے میں مبتلا ہو گیا تھا اس بیماری کی کیفیت میں اس نے اس دعوے کا اظہار کیاہو ۔

ماہرین ا آثار قدیمہ کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ Taharqa اپنے فن تعمیر میں استعمال ہونے والی لکڑی اور دیگر سازو سامان لبنان کے ساحلی علاقے کے تاجروں سے حاصل کرتا تھا جس میں خصوصا لبنانی دیودار اور صنوبر کی خوشبودار لکڑی شامل تھی نیوبین سلطنت کے عروج سے نفرت کرنے والے آسارین بادشاہ Esarhaddonنے تجارت کے اس راستے پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کی توTaharqaنے لبنان کی ساحلی پٹی پر اپنے فوجی دستے بھیج کر اس کا سدباب کیا تاہم آسارین674قبل مسیح میں مصر میں داخل ہوکر نیوبین مملکت کے سر پر پہنچ گئے تھے اگرچہ اس موقع پر آسارین کے خلاف جنگ میں Taharqaکا ساتھ ان تمام قبائل نے بھی دیا جو آسارین کے ظلم و تشدد سے بیزار تھے مگر 671قبل مسیح میں آسارین بادشاہ Esarhaddon اور اسکے فوجیوں نے اپنے اونٹوں پر سفر کرتے ہوئے صحرائے سینا کو عبور کیا اور باغیوں کو کچلنے کے بعد اپنے فوجیوں کو دریائے نیل کے ڈیلٹا کی جانب جو شمالی مصر سے میڈیٹیرین سمندر کے جنوب تک 160کلومیٹر کا وسیع رقبہ بنتا ہے کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیاجہاں پندرہ دن تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی جس میں نیوبین شہنشاہ Taharqaبھی زخمی ہونے کے بعد جان بچا کر بھاگ گیا ماہرین آثار قدیمہ در دیوار پر لکھی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آسارین نے جب ’تاہارکا‘کو شکست دینے کے بعدMemphisپر قبضہ کیا تو اس دوران انہوں نے اپنی وحشیانہ روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے عظیم قتل عام کیااس لوٹ مار کے بارے میں آسارین خود لکھتے ہیں کہ’ عظیم خون ریزی کے دوران ہم نے نیوبین کا سب کچھ تباہ کرنے کے بعد ان کی ملکائیں ،حرم، ان کا وارث Ushankhuruاور اسکے بیٹے بیٹی ، سامان، گھوڑے ،مال مویشی اور دیگر ان گنت قیمتی اشیاء اپنی مملکت ’آساریا‘ میں لے گئے اور صحرائے نیوبا کے مرکز Kushشہر سے عروج پانے والی نیوبین تہذیب کو ہم نے مصر سے با ہر اٹھا پھینکا‘ آسارین بادشاہ Esarhaddonنے فتح کی یادگار کے طور پر ایک بلند ستون بنانے کا حکم دیا جس میں اس نے ’تاہارکا‘ کے بیٹےUshankhuruکی ایسی شبیہ بنوائی جس میں اس کی گردن میں رسی ہے اور وہ گھٹنوں کے بل جھکا ہوا آسارین کی حکمرانی کی تائید کررہا ہے ماہرین کاخیال ہے Taharqaنے اس شکست کے بعد دوبارہ سخت جدوجہد کر کے Memphisکی حکومت ایک مرتبہ پھر سنبھال لی تھی جو آسارین کو ایک آنکھ نہ بھائی اگرچہ اس حکمرانی کو ختم کرنے کے دوران آسارین بادشاہ Esarhaddonمصر کی جانب سفر کرتے ہوئے 669قبل مسیح میں دوران سفر مر گیا تاہم آسارین نے نئے بادشاہ کی سرکردگی میں دوبارہ قدیم مصر کی پرانی سلنطت اور نئی سلطنت کے انتظامی دارلخلافے Memphisکو دوبارہ اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند دیا Taharqaکے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا وہ حالات سے دلبرداشتہ ہوکرکبھی مصر واپس نہ آنے کا ارادہ کرکے سونے کی دولت سے مالا مال صحرائے نیوبا کے عظیم شہر Napataجو موجودہ سوڈان کے دارلخلافے خرطو م سے 400کلو میٹر شمال میں واقع ہے کی جانب عازم سفر ہو گیا ۔

Taharqaکو اگرچہ دو مرتبہ آسارین کے ہاتھوں قدیم مصر کے شہرMemphisمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر ا س کے باوجود اس کا رتبہ اپنی مملکت نیوبا (Nubia)میں ہمیشہ بلند رہا یو ں تو اس کی زندگی کے آخری ایام پراسریت کی گرد میں چھپے ہوئے ہیں لیکن اس عظیم سیاہی مائل رنگت کے نیوبن شہنشاہ نے جس نے قدیم مصر کی تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں کئی خوبصور ت فن پارے چھوڑے ہیں ،اپنی تدفین اپنے عظیم با پPiyeجس نے مصر کی پچیسویں شہنشاہیت کے دوران Napata شہر میں بیٹھ کر مصر پر حکمرانی کی تھی کے مقبرے کی طرح اپنا مقبرہ بھی مصری اہرام کی شکل کا بنوایا تھاالبتہ نیوبین حکمرانو ں کے برعکس اس نے اپنا یہ اہرام El Kurr کے شاہی قبرستان جہاں نیوبا کی پہلی تہذیب سے تعلق رکھنے والے Kushiteشہنشاہ (PHARAOHS)مدفون تھے کے بجائے شمالی سوڈان کے موجودہ شہر ’ کریمہ‘ اور قدیم شہر Napataسے شمال مشرق کے جانب دریائے نیل کی اترائی کی مخالف سمت میں واقع Nuriکے مقام پر بنوایا تھا Taharqaکے اس غیر روائتی طرز عمل کے بارے میں مشہور ماہر آثار قدیمہ ’ ٹموتھی کینڈل ‘کا کہنا ہے کہTaharqaنے Nuriمیں اپنے مقبرے کا یہ مقام شاید دوبارہ جنم لینے کے اس عقیدے کی وجہ سے منتخب کیا ہوگا جس کے مطابق نئے سال کے آغاز پر جبل بارکل کے درمیان اس کا اہرام ابھرتے ہوئے سورج کی سیدھ میں ہوگا جو اسے دوبارہ جنم دے دیگا کیونکہ نئے سال کی سورج کی پہلی کرنوں سے منور ہونے کا تعلق قدیم مصر کے دوبارہ جنم لینے کے ابدی عقیدے سے ہے ۔ لیکن ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین کا کہناکہ ان تمام تر واقعات کے باوجود شاید’ نیوبنزکی مصر کی جانب وجہ سفر آبنوسی رنگت کے نیوبا کے باسیوں کی تاریخ کی طرح اندھیرے ہی میں ڈوبی رہے گی ۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 116517 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More