طویل ساحلی پٹی اللہ تعالیٰ کی
نعمت اور کسی ملک کی خوش قسمتی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے
اس نعمت اور خوش قسمتی سے پاکستان کونوازا ہوا ہے اس گیارہ سو کلومیٹر لمبی
ساحلی پٹی کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنا
چاہیے تھا کیونکہ دنیا کے اہم ترین تزویراتی اور تجارتی مقام پر واقع ہونے
کی وجہ سے یہ اپنی حیثیت و اہمیت کا فائدہ اٹھا سکتا تھا اور ہے لیکن اس کے
لیے پہلی شرط خلوص نیت اور پھر درست منصوبہ بندی اور لگن ہے جس کا ہمارے
ہاں درحقیقت فقدان ہے۔ اور ہماری بہت ساری خوش قسمتیوں کی طرح ہماری گوادر
جیسی خوش قسمتی بھی اس کی نذرہوتی جا رہی ہے۔ گوادر جسے ہم نہ صرف بلوچستان
بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کا زینہ بنا سکتے تھے وہ ہماری بے توجہی بلکہ
مجرمانہ غفلت کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ قدرتی طور پر کٹی
پھٹی ہے اور اسی وجہ سے جہازوںکی آمدورفت کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ یہ دنیا
کے انتہائی حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے جس کے ایک طرف تیل سے بھر پور
علاقے یعنی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ، دوسری طرف دنیا کا سب سے زیادہ آباد خطہ
یعنی جنوبی ایشیا اور تیسری طرف توانائی کے خزانوں سے مالامال وسطی ایشیائ
واقع ہیں۔ آبنائے ہر مز یہاں سے 624 ناٹیکل میل یعنی تقریبا ساڑھے گیارہ سو
کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس اہم گزر گاہ سے سترہ بی بی ڈی تیل روزانہ گزرتا
ہے۔ انہی سارے حقائق کو مد نظر رکھ کر 2002 میں گوادر کے ساحل کو گہرے
پانیوں کی بندرگاہ کے طور پر ترقی دینے کا فیصلہ کیا گیا،یہ فیصلہ تجارتی
اور دفاعی دونوں لحاظ سے کیا گیا اور یہ دونوں وجوہات بہت اہم تھیں۔ دفاعی
لحاظ سے اس لیے کہ 1971 میں جس طرح بھارت نے پاکستان کی بحری ناکہ بندی کی
تھی وہ صورت حال پھر پیدانہ ہو سکے اور کراچی کی بندرگاہ کی بندش کی صورت
میں بھی پاکستان ا پاہچ اور مجبورنہ ہو اور اپنا دفاع جاری رکھ سکے۔ اور
تین اہم خطوں کے سنگھم پر واقع ہونے کی وجہ سے بھی حفاظتی اقدام ضروری تھا۔
خاص کر آبنائے ہر مز سے قریب ہونے کی وجہ سے بھی حساسیت کی نوعیت بڑھ جاتی
ہے اور یہی گزرگاہ جو مشرق وسطیٰ سے تیل لیکر چین، جاپان، جنوبی کوریا اور
پوری دنیا کا 35 تا 40 فیصد تیل پہنچانے کا کام کرتی ہے گوادر کی تجارتی
اہمیت کو بھی بڑھادیتی ہے۔ گوادر وسطی ایشیا اور مغربی چین کو بین الا
قوامی تجارتی گزر گاہوں سے ملانے کے لیے قریب ترین بندرگاہ ہے۔ وسطی ایشیا
کے لینڈ لاکڈ خطے کی تجارت یہاں سے کم ترین وقت اور پیسے میں ممکن ہے۔ اب
اس از حد اہمیت کی وجہ سے جو ایک کام شروع ہو چکا ہے اُس کو پا یہ تکمیل تک
پہنچانے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی بلکہ عدم استعمال سے تو اب تک کیا گیا
کام بھی خرابی کی جانب ہی رواں ہوگا اور ملکی ترقی میں ایک کار آمد منصوبہ
صرف نا اہلی کی وجہ سے ناکارہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس بندر گاہ کی ترقی کے لیے
2006 میں گوادر پورٹ اتھارٹی بنائی گئی تھی اور اس نے سنگاپور کے پورٹ آف
سنگاپور اتھارٹی کے ذیلی ادارے Concession Holing Company کے ساتھ معاہدہ
کیا کہ وہ پانچ سال میں بندرگاہ کی ترقی و تعمیر میں 550 ملین ڈالر لگائے
گا لیکن ایسا کیا نہیں گیا ۔ابتدائ میں یہ ٹھیکہ چالیس سال کے لیے دیا گیا
تھا جسے سپریم کورٹ کی مداخلت پر منسوخ کیا گیا اور اب پانچ سال کی مدت
پوری ہونے کے بعد ستمبر 2012 میںچین کے ساتھ اس بندرگاہ کی ترقی کا معاہدہ
کیا گیا ہے۔
گوادر پاکستا ن کی ترقی و خوشحالی کا زینہ بن سکتا ہے لیکن حکومتوں کی بے
رخی اور بے اعتناعی نے ایساہونے نہیں دیا گوادر کے ساحل کا سروے 1954 میں
یو ایس جنرل سروے نے کیا اور اسے بندرگاہ کے لیے موزوں قرار دیا لیکن صرف
ایک چھوٹی بندرگاہ 1988 میں بن سکی اور پھر 1993 میں اس پر کچھ کام ہوا
تاہم بڑی بندر گاہ پر کام 2002 میں شروع ہوا انہی وقفوں سے حکومتی دلچسپی
ظاہر ہو جاتی ہے لیکن اب جبکہ خوش قسمتی سے یہ بندرگاہ بن چکی ہے تو ہمیں
اسے ملکی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن ہمارے وزیر برائے جہاز
رانی و بندرگاہ اپنی پارٹی کے تو بڑے سرگرم اور اہم رکن ہیں اور اس کی بہتر
اور زبر دست ترجمانی کرتے رہتے ہیں لیکن اس اہم ترین منصوبے کی طرف اُن کی
وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہیے ۔کچھ لوگ تو یہ الزام بھی لگا تے ہیں کہ ان کا
تعلق کراچی سے ہونے کی وجہ وہ کراچی کی اہمیت کم نہیں کرنا چاہ رہے اگر چہ
میں اس رائے کو زیادہ درست نہیں مانتی لیکن اگر ایسا ہے بھی تو گوادر کی
اہمیت اپنی جگہ لیکن کراچی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے دفاعی بھی اور تجارتی
بھی ۔ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا تو اس کی تمام بندرگاہیں ہر
وقت،یکساں مصروف اور اہم رہیں گی۔
ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے لیکن اگر وہ گوادر سے ستر پچھتر کلومیٹر
دور اپنی چاہ بہار کی بندرگاہ کو گوادر کے مقابلے پر تعمیر کر رہا ہے اور
اس کے لیے اُس نے بھارت کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں تو ہمیں بھی اپنی حیثیت
پر غور کر لینا چاہیے ہمارے وزیر با تد بیر کو پاکستان نیوی پر زمین پر
قبضے کا الزام لگانے پر زیادہ زور دینے کی بجائے اس اہم قومی منصوبے پر
توجہ مرکوز کرنی چاہیے ان کا یہ کہنا کہ ساحل سمندر پر 584 ایکڑاراضی نیوی
کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے بندرگاہ ترقی نہ کر سکی۔ تو کیا ریلوے لائن نہ
ہونے کی وجہ بھی یہی ہے اور بہتر سڑک نہ ہونے کی بھی یہی وجہ ہے۔ خدارا
قومی اہمیت و ترقی کے منصوبوں کو یوں تباہ نہ کیجئے نیوی ، وزارت جہاز رانی
و بندرگاہیں حتیٰ کہ وزارتِ تجارت اور تاجر برادری سب اس خدائی نعمت سے
فائدہ اٹھا ئیں ۔ یہ بندرگاہ قدرتی طور پر اپنی آس پاس کی بندرگاہوں سے
زیادہ آئیڈیل ہے اور چین، افغانستان اور وسطی ایشیائ کے غیر ساحلی یعنی
لینڈ لاکڈ ملکوں کے زیادہ نزدیک ہے،ان کے لیے اس کے ذریعے تجارت کم خرچ اور
کم وقت طلب ہے اور ظاہر ہے وہ اسے دوسروں ترجیح دیں گے لیکن ہماری طرف سے
اگر کوتاہی ہوئی تو پھر وہ دوسری طرف دیکھنا شروع کردیں گے برآمدات کے لیے
بھی اور درآمدات کے لیے بھی۔ اگر چہ ہم نے بہت سارا وقت گنوادیا ہے لیکن اس
کا ازالہ اب بھی ممکن ہے اگر ہمارا ہر ادارہ جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح اس
منصوبے سے ہے اس کی ترقی کو اپنی ذمہ داری سمجھے اور ایک دوسرے پر الزام
تراشی سے گریز کر کے اپنا کام کرے اور بے غرض ہوکر کرے تو گوادر اب بھی
پاکستان کی خوش بختی اور ترقی ضامن سکتا ہے۔ |