خطرے کی گھنٹی

بزرگوں سے یہی کہتے سن رکھا ہے کہ بیتے ہوئے پَل (لمحے) واپس نہیں آتے، کسی ادب کے متوہا ہے کہ نے اسی بات کو کیا خوبصورت انداز میں کہا ہے کہ بیتے ہوئے لمحے اوتھ پیسٹ کو ٹآرزو کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ کو ٹیوب میں ڈالنا۔ حالات و واقعات پر نظر ڈالا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کس بھی قوم یا فرد کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے کیوں کہ زندگی عروج و زوال ہی کا نام ہے دوستو! بہرحال یہ تو قدرت کا نظام ہے جسے وہ چلا رہا ہے کبھی وہ اپنے بندوں کو نعمت دے کر امتحان لیتا ہے اور کبھی نعمت کی ناشکری پر اسے آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس امتحان سے انبیاءکرام بھی نہ بچ سکے۔ چاہے وہ حضرت ابراہیم و موسیٰ علیہ السلام ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن قدرت اپنے بندوں کے ضمیر کو تہہ و بالا کرنے کے لئے آواز لگاتی ہے کہ اٹھو اور اپنے حالات کو بدلو ۔لیکن جب کوئی قوم اپنے حالات خود نہیں بدلتی تو اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا بلکہ اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اور اس پر ظالم اور جابر حکمراں مسلط کر دیتا ہے جو ان کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

آج دنیا میں تشدد کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جو ہر مہذب معاشرے خاص طور پر کسی جمہوری ملک کے لئے ایک زبردست خطرہ بنتا جا رہا ہے کیونکہ جب انسانی تمدن اپنے ابتدائی دور میں تھا تو اس میں جنگل کا قانون رائج تھا یعنی ظاہر ہے کہ ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ جو جب اور جہاں چاہتا کمزور کی جان و مال اور عزت و آبرو پر ہاتھ ڈال دیتا، اس کے حقوق غصب کر لیتا، اس کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھاتا اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم سے اس کو روک سکتا۔ سوائے اس کے اس سے زیادہ کوئی زور آور شخص اس کے مد مقابل آجائے۔ظاہر ہے کہ یہ قانون تو صرف جنگل میں چل سکتا ہے اور وہ بھی اُس دور میں جس کا ذکر اوپر کیا گیاکیونکہ وہاں صرف وحشی درندوں کا راج ہوتا تھا جو زیادہ طاقتور ہوتے تھے ۔ لیکن جب سے انسانی تمدن نے ترقی کے منازل طے کیئے اور انسان نے مہذب انسانوں کی طرح رہنا شروع کیا تو اس کے بعد انسان کے بنیادی اقدار کو فروغ حاصل ہوا اور کمزوروں کے لئے جینے کا حق دیا گیا ۔ معاشرے میں ظلم و استحصال اور ناانصافیوں کو ختم کرنے اور ظالم کا ہاتھ روکنے اور خطا کاروں کو سزا دینے کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور کی بدقسمتی ہے کہ مادی ترقی نے انسانیت کو اس بلند مرتبہ سے نیچے کی طرف ڈھکیل دیا ہے اس کا اخلاقی اور روحانی وجود ترقی کی چمک دمک سے ماند پڑتا جا رہا ہے ، اور ان سب باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ انسان خود غرضی، مفاد پرستی، نسلی امتیاز، طبقاتی کشمکش، گروہی عصبیت، ظلم و نا انصافی اور سب سے بڑھ کر تشدد کے رجحان کے چکر میں پڑ گیا ہے۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پھر سے اُسی دور میں واپس جا رہے ہیں جہاں کمزوروں کی کوئی نہیں سنتا تھا، اپنے سے کم ہمت لوگوں کو دبایا جاتا تھا۔

ہمارے نزدیک آج دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کا ہی ہے جس سے پاکستان بھی بری طرح جھلس رہا ہے، اس کے علاوہ ہمارے ملک میں ایک کمزور غریب بھی ہے جس کی آج یہاں کوئی نہیں سنتا، پتہ نہیں کتنے ہی غریب لوگ صرف ایک وقت کی روٹی کھا کر سو جاتے ہیں اور اس کی وجہ ہے روزگار کا دستیاب نہ ہونا، عوام کو یہاں روزگار کب اور کیسے میسر ہوگا اس کا تعین تو وقت ہی کر سکتا ہے کیونکہ ابھی تک تو اس پر کوئی خاطر خواہ عمل در آمد نہیں کیا جا سکا ہے۔ہمارے یہاں روزگار اسی کو ملتا ہے جو لاکھوں میں رقم خرچ کرے یا پھر تگڑی سفارش ہو اس کے پاس ورنہ تو ڈگری ہاتھ میں لیکر بس اس دفتر سے اُس دفتر کا چکر ہی لگاتے رہو اور اپنی زندگی کے روز و شب کم کرتے جاﺅ بندہ یہاں اس کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا کو بسایا کہ اس میں انسان اور انسانیت کے لئے ایک سے ایک سامان ہیں، لذیذ سے لذیذ کھانے، عمدہ سے عمدہ پانی ہے، آنکھوں کو لبھانے والے رنگ برنگ کے پھول ہیں، دل کو رجھانے والے آبشار اور جھیلیں موجود ہیں، حسین سے حسین تر انسان ہے کہ اہلِ ہوس جس کے اسیر ہو جاتے ہیں اور کتنی ہی نعمتیں ہیں جن سے انسان کی طرح طرح کی خواہشات پوری ہوتی ہیں، اس دنیا میں ایسا بھی ہے کہ چیز ایک ہے اور اس کے طلب گار ایک سے زیادہ ہوتے ہیں ، ایسے میں خواہش کسی ایک کی پوری ہو سکتی ہے ۔ لیکن ایسا صرف دنیا میں ہی ہے لیکن آخرت کی زندگی میں ہرگز ایسا نہیں ہوگا وہاں خواہشات بھی ہوں گی اور ہر خواہش کی تکمیل بھی ہوگی، وہاں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اس قدر ہونگی کہ وہاں کوئی تصادم اور ٹکراﺅ نہ ہوگا۔ مگر اس ظالم دنیا میں خاص کر ہمارے یہاں تصادم اور ٹکراﺅ کا پالیسی بہت زوروں پر ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں زیادہ تر لوگ تصادم اور مسابقت کے ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے، یہی ٹکراﺅ نفرت اور عداوت اور مخالفت کا جنم دیتا ہے اور لوگ انہی سب الجھنوں میں غرق ہو جاتے ہیں مطلب یہ کہ اپنی پٹری سے اتر جاتے ہیں اور پھر راج وہی لوگ کرتے ہیں جو ان کو اس لائین پر لگا کر انہیں ٹکڑوں میں بانٹ کراپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ انسانوں میں اُس وقت پروان چڑھتا ہے جب اس کے اپنے اندر اٹھنے والے سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں ملتا تو وہ ان بندھنوں کو توڑ ڈالنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ تشدد کے اس موجودہ رجحان میں اگر غور کیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ یہ ہمارے سماج کا بڑھتا ہوا ریشو ہے لیکن پھر بھی ہمیں تشدد کی حوصلہ شکنی کرنی ہے اور خدا ترسی کی اور ایک دوسرے سے کے ساتھ مل کر رہنے بلکہ متحد ہوکر رہنے کی تلقین کرنا ضروری امر ہے۔ کیونکہ تشدد انفرادی ہو یا اجتماعی ہر حال میں برا اور تباہی و بربادی پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ اور ہمیں اس کام کو کرنے سے عام افراد کو روکنا ہوگا چاہے اس کام کو کرنے میں کتنے ہی جتن کرنے پڑیں۔

غلط نہ ہوگا اگر یہ رائے قائم کی جائے کہ اخلاقی بگاڑ اور سماجی برائیوں کے اسباب اور ان کی جڑوں کو وہ لوگ بھی تلاش کرنے کی کوشش و جستجو کر رہے ہیں جن کی زندگیاں جدید تہذیب کی چمک دمک اور رنگین دنیا میں گزر رہی ہے۔ اگر اسی دنیا سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ ، بااخلاق و با کردار لوگ اخلاقی و سماجی برائیوں کے خلاف آگے آئیں تو نئی نسل ان کی بات نسبتاً زیادہ توجہ کے ساتھ سنے گی اور شاید ان کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرے۔ ملک میں انسانی، شہری ، رشوت و بدعنوانی جیس برائیوں کے خلاف کئی لوگ ہیں جو اس کو ختم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں ان میں بہت سے لوگ فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کے خلاف بھی ملیں گے ، یہ لوگ وسیع النظر اور روشن خیال تصور کئے جاتے ہیں۔ اگر عوام اپنے اوپر ہونے والے زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کریں تو یہ آواز ضرور بلند و بالا عمارتوں میں قید حکمرانوں کے کانوں سے ٹکرائیں گے اور نتیجہ یہ نکلے کا کہ آپ کی آواز توجہ کے ساتھ سنی جائے گی بے شک آپ کی آواز میں تنقیدی عنصر کا رجحان غالب بھی ہو تب بھی عوام کی آواز مستقل دبائی نہیں جا سکتی۔

آج جو خطرے کی گھنٹی حکمرانوں کے کانوں تک سنائی دے رہی ہے وہ یہیں کے عوام کی ہے جو جھوٹ، کاروبار میں دھوکا، فریب، باہمی عمل میں مکاری، مذہب کے نام پر فرقہ بندی، ذات پات کی نفرت، ناخواندگی، محبت کے بجائے ایک دوسرے سے نفرت، سازش، غرض جتنی بھی برائیاں ممکن ہیں وہ تمام ہمارے عوام کے پاس موجود ہیں جس کی تلافی کیلئے ہر روز میڈیا کے ذریعے ہم اور آپ ہر طرح کے احتجاج کو دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے اسلامی تعلیمات دوسروں کیلئے آئینہ بن جاتے دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کو دیکھ کر ہی اسلام کی تعلیمات اور اس کی روح تک اتر جاتے۔ لیکن آج جو ہمارا قول و فعل ہے وہ اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہے جس کی وجہ سے ہم سب کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی طرح کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ میری دعا ہے کہ یہ تمام برائیاں ہمارے ملک سے جلد خ تم ہو جائیں اور ہم پھر سے ایک ملت کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں۔ آمین
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 367990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.