سماج کے ماتھے پر رسوائی کا داغ

 خالد انور پورنوی المظاہری،ایڈیٹرماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ

نئے سال 2013کی آمد آمد تھی، سرکاری وغیرسرکاری اداروںمیں نئے سال کا جشن منانے کی تیاری ہورہی تھی ، امیروں غریبوں سیاسی وغیر سیاسی رہنماﺅں کے دلوں میں ایک امنگ تھا ،اورپے پناہ جوش وخروش؛ لیکن 16دسمبر کی شب دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں 23سالہ پیرا میڈیکل کی طالبہ کی اجتماعی آبروریزی نے سب کی توجہ اسی طرف مبذول کردی، مذہب ،مسلک سے اوپر اٹھ کر سب ایک ہوگئے ۔مندروں، مسجدوں، چرچوں، گوردواروں ،سڑکوں ،چوراہوں سے ملزموں کو سخت سے سخت سزا دینے کے مطالبہ ہونے لگے ،مرکزی حکومت نے بھی عصمت دری کی شکار اس بچی کیلئے اپنی پوری توانائی صرف کردی ۔اس کا علاج پہلے صفدر جنگ اسپتال میں کرایا گیا ، پھر سنگاپور لے جایاگیا؛لیکن زندگی نے وفانہ کی، اور 29دسمبر کی صبح سنگاپور ہاسپیٹل میںوہ اس دنیا سے رحلت کرگئی ، پورا ملک صدمہ میںڈوب گیا، سونیا گاندھی اورملک کے دیگر رہنماﺅںنے نئے سال کا جشن نہ منانے کا فیصلہ کیا ۔

خبر کے مطابق اپنے فرینڈکے ساتھ 23سالہ دامنی دلی بس میں سوار ہوئی، بس میں بیٹھے ہوئے حملہ آوروں نے پھبتی کسنی شروع کردی: کہ اتنی رات کو ایک آدمی کے ساتھ گھر سے باہر کیا کررہی ہو ؟لڑکے نے مداخلت کی تو انہوں نے اس کی پٹائی شروع کردی، جب لڑکی نے اس کی مخالفت کی، توان لوگوں نے اس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ، 6لوگوں نے اجتماعی آبروریزی کی ،اسے اوراس کے فرینڈ کو ملزموں نے لوہے کے سریہ سے چوٹیں پہونچوائیں، اس کربناک حالت میں صفدر اسپتال بھیج دیاگیا ،ڈاکٹروں نے جب دیکھا کہ معاملہ ان کے بس کانہیں ہے،تو سنگاپورلیجایا گیا اوریہ سب کچھ ٓانا فاناہوگیا ۔علاج کے دوران جب بھی اسے ہوش آتا، اس کے منہ سے یہی نکلتا تھا:کہ وہ جینا چاہتی ہے؛ لیکن شایداسے یہ خبر نہیں تھی کہ اسے زندہ رکھنے کی کوشش میں ڈاکٹروں نے اس کی چھوٹی آنت کاٹ دیئے ہیں ،اسے یہ بھی نہیں معلوم تھاکہ اس کے جسم کے اندرونی حصہ میں 23جان لیوا زخم آئے ہیں ۔ سفاک درندوں نے اس کے جسم کو چھیدکردیاتھا ۔اوراس کی روح کو چھلنی کردیاتھا ، اسے جینے کی تمنا تھی لیکن موت کا وقت آچکاتھا ۔

اس واقعہ نے دلی کو دہلادیا اورسارے ملک کو ہلاکر رکھدیا ،غیرت وحمیت کو جھنجھوڑ دیا، سوتی ہوئی قومیں جاگ گئیں ،اور سڑکوں پرنکل آئیں ،احتجاج ہوئے ، مظاہرے ہوئے، زانیوں کو سنگسار کرنے ، پتھر برسانے ،کوڑے مارنے سخت سے سخت سزادینے کے مطالبے ہوئے ،عورتوں کے تحفظ پر چرچے ہوئے ، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔

عصمت دری اورآبروریزی کا یہ واقعہ کوئی نیانہیںہے ،اس طرح کے واقعات ہرآئے دن پیش آتے ہیں ، سرکاری اعداد وشمارکے مطابق یہاں ہر 22منٹ میں کسی عورت کی عصمت تار تار کی جاتی ہے اور76منٹ پر کسی نابالغ کو ہو س کا شکار بنایا جاتاہے ۔ نیشل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2011کے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو سال بھر کے اندر قومی راجدھانی دلی میں 42چینی میں 47ممبئی میں 196کولکاتہ میں 32حیدر آباد میں 45 ، فریدآباد میں 51 ،پونامیں 91،اور بنگلور میں 65،ریپ کے معاملات درج ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہرسال 26ہزار سے زائد آبروریزی کے واقعات سامنے آتے ہیں، یہ وہ اعداد وشمار ہیں، پولیس نے جن کی رپورٹ درج کی ہے ، اس کے علاوہ بہت سی وارداتیں ایسی ہوئی ہیں، جو پولیس کے پاس نہیں پہونچتی ہیں ، اورسماجی عزت کے خیال سے انہیں خاموشی سے دبالیاجاتاہے ،ایسی وارداتیں بھی کم نہیں ہیں جس کے مجرم لڑکیوں کے قریبی رشتہ دارہی ہوتے ہیں، ان حالات میں یہ رپورٹ پولیس تک نہیں پہونچ پاتی ہیں اورلڑکیاں خاموشی کے ساتھ اس زخم کو سہتی، رہتی ہیں ، کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ مجرم طاقت ور ہوتاہے ۔اور پولیس کو رشوت دے کر معاملہ کو دبا لیتے ہیں ۔

کپکپاتی سردی میں جس وقت لوگ دلی کی سڑکوں پراترآئے تھے ،اسی شام بہار کی ایک گیارہ سالہ بچی نورکے ساتھ جب وہ راجستھان کے سیکر قصبے میں اپنی بہن کے ساتھ بازار سے گھر واپس لوٹ رہی تھی ،مقامی لوگوں نے اغواکیا اوراس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی ۔

انسانیت شرمسارہے اورسماج ومعاشرہ کے ماتھے پر رسوائی اوربدنامی کا ایک داغ۔ اوروہ بھی اس ملک میں جسے دیوبھومی اورصوفی سنتوں کا ملک کہاجاتاہے ،جہاں پرایک زمانہ میں اخلاق وکردار کا مظاہرہ ہوتاہے ۔آج وہاں پر اخلاق وکردار زوال پذیر ہے ،یہ سنتے ہی ہم لرز اٹھتے ہیں ، سرشرم سے جھک جاتاہے :کہ کیرالہ میں ایک 6سال کی بچی کو شراب پلاکر اس کے سگے باپ نے عصمت دری کی ۔ اوراپنے دوستوں سے بھی کروائی ،پوراملک کا دل یعنی دلی میں 80سال کی بزرگ خاتون کی عصمت دری اس کے سگے پوتے نے کی ، یہ واقعہ بھی اخبار کی سرخیوں میں چھایارہاکہ مطلقہ بیوی کی ایک معصوم سی بیٹی تھی ،باپ اوربیٹے نے اس معصوم کو ہوس کا شکار بنایا ،اپنی حقیقی باپ اوربھائی کے اس رویہ کو سہتی رہی؛ لیکن جب پانی سر سے اونچاہوگیا تووہ گھر سے نکل گئی ، اسٹیشن میں دوستوں سے ملاقات ہوئی ۔ دوستوں کو جب حقیقت کاعلم ہوا ،تو تھانہ میںیہ رپورٹ درج کرائی: پولیس نے آڑے ہاتھوں باپ اوربیٹے کو دبوچ لیا ۔

ملک بھر میں رضا مندی سے سب کچھ ہورہاہے ؛لیکن یہ واقعات اخبار کی سرخیوں میں نہیں نظر آتے ، پولیس ریکارڈ میں نہیں ہے ،سرکاری اعداد وشمار میں نہیں ہے ۔کرائم ،جرائم رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔سماج ومعاشرہ کے بوڑھے بزرگوں ،دینی ،ملی، سیاسی راہ نماﺅں کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ انہیں اس سے کیامطلب ہے ؟ تعلیم کے نام پر دلی، ممبئی بنگلور ،گجرات، ہریانہ پنجاب اوردوسرے شہروں میں پڑھ رہی ان معصوم سی کلیوں کی عصمت محفوظ بھی ہے یانہیں ،بے خبر ہیں ماں ،باپ،گارجین ۔میلے میں گھومنے والے ان کے ڈیڈی کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کی بیٹی کی دکان کوئی اورچرارہاہے ۔

ہمیں خوشی ہے کہ دلی کی اجتماعی عصمت دری کے واقعہ نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑا، ہم بیدار ہوئے اور سڑکوں پراترآئے ، ٹھنڈے تیز پانی کی بوجھار یں ہمارے جذبات کو سرد نہیں کرسکیں ،آنسو گیس کے گولے ،اورپولیس کے ڈنڈے ہمیں منتشر نہیں کرسکی ۔احتجاج میں سراپا ہم متحد نظر آئے ۔

ہندومسلم میں اتحاد نظرآ ئے، اچھالگتاہے ،کسی کی بیٹی کے ساتھ بھی اس طرح کی واردات ہو، پورا ملک ایک ساتھ نظر آئے، اچھالگتاہے۔ ایک دامنی ہو،یانوری ،یہ واقعہ دلی کا ہو،یا ممبئی اورگجرات کا ،بھید بھاﺅ سے اوپر اٹھ کر ہندومسلم ایک صف میںنظر آئے ،اچھالگتاہے ۔نہ ہوکوئی فرق امیری کا ، غریبی کا،مذہب کا، مسلک کا ،ذات، پات کا اور برادری کا،کسی بھی جگہ ہو ،کسی مقام سے تعلق رکھتاہو، ہر ہندوستانی بیدار ہوجائے ۔پولیس جاگ جائے ، سیاست داں جاگ جائیں ،حکومت کے رکھوالے جاگ جائیں ،پورا ملک جاگ جائے۔ تویقینا بڑھتا ہوا، ہرسیلاب رک سکتاہے ۔

لیکن مسئلہ حیران کن یہ ہے کہ یہاں پربھید بھاﺅہوتا ہے، امیری اورغریبی کا، عصمت دری کرنے والے مجرم کو دیکھا جاتاہے، وہ جھونپڑی میں رہتاہے ،یامحل میں، سرکار کے کسی بڑے محکمہ سے اس کا تعلق تونہیں ۔مجرم ایم ایل اے اورایم پی تونہیں ہے ۔ مظلوم لڑکی ہندو ہے یامسلمان ۔ ہندو ہے تودلت یا برہمن ۔اگروہ بے چاری مسلمان ہے اورغریبی ان کے لئے مقدر ہے پھر توہزاروں بار تھانہ کا چکر لگاتی رہے گی :لیکن اس کی کوئی سنوائی نہیں ہوگی ،بلکہ کبھی تھانہ میں اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے ۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہریانہ میں لگاتار آبروریزی کی واردات پیش آتی رہی ،لیکن ملک کے چہرے پر بل نہیں پڑا ،کشمیر میں آرمی کو عورتوں کی آبروریزی کرنے کا لائسنس مل گیا ،لیکن ملک کو کوئی فرق نہیں پڑا ، اتر پردیش میں 14جولائی 2007کو ڈیرھ درجن سے زائد مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی، جس میں نابالغ بچی سے لیکر عمر دراز خواتین بھی شامل تھیں ؛لیکن پھربھی ملک کی غیرت پرحرف نہیں آیا ،ابھی حالیہ فسادات کے دوران فیض آباد اور دیگر مقامات پرمسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی؛ لیکن ملک خاموش رہا، سب سے بڑھ کر 2002میں گجرات قتل عام کے دوران حاملہ عورت کے پیٹ کو چاک کرکے بچہ کونکالا اورذبح کردیا؛ لیکن ملک شرمندہ نہیں ہوا ،سینکڑوں خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ،نہ ہی ملک میںکوئی طوفان مچا اورنہ ہی مجرم کے خلاف سخت سزا کا مطالبہ کیاگیا ،بے چارے غریب مسلمان کی دوشیزاﺅں اورہندوستان کی معصوم ومظلوم بیٹیوں کی عصمت دری ہوتی رہی ،عصمت دری کے بعد انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیاگیا ،لیکن ملک خاموش تماشائی بنارہا ۔ہم غریبوں نے آواز بھی لگائی؛ لیکن صدابصحرا ثابت ہوئی اورہمارے دل یعنی دلی کی ایوانوں تک ہماری آواز نہیںپہونچی سکی ، اوراگر ہماری چیخ وپکار کسی طرح پہونچی بھی توسنی ان سنی کردی ۔

جس ملک میں اس طرح کا فرق وامتیاز باقی رہے گا ،اگر دلی کی عصمت دری کے ملزموں کو پھانسی کی سزا بھی مل جائے۔ تواس سے ملک میں عورتوں کا تحفظ قائم نہیں ہوسکتاہے ۔

یہ مضمون لکھے جانے تک وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا بیان پڑھنے کوملا: جس میں انہوں نے عورتوں کے خلاف بڑھتے جرائم کی روک تھام کیلئے اسکولوں میں شروع سے ہی جنسی مساوات اورخواتین کے احترام کا سبق پڑھانے کی صلاح دی ہے، جب کہ لوک سبھا اسپیکر میراکمار نے عوام کو نئے سال کی مبارکبادی دیتے ہوئے عوام سے خواتین کے تئیں پروقاراور باعزت سلوک اپنانے کا عہد کرنے کی اپیل کی ہے ۔ لیکن سماج اورقانون کی اس دورنگی سے ہمیں ہنسی آتی ہے ۔ایک طرف توبارود فراہم کرتاہے اوراپیل ہے کہ آگ بھی نہ لگے ،اس لئے اگر چاہتے ہیں کہ ملک کے گھروں کوآگ نہ لگے تو پہلے بارود کی عدم فراہمی کو یقینی بناناہوگا ،سماج میں پھیلی ہوئی فحاشیت اور عریانیت کو ختم کرنا ہوگا ، مخلوط تعلیم کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نظام بناناہوگا، ہوٹلوں میں چھاپے مارنے ہوں گے، شہر کے مختلف پارکوں میں قابل اعتراض حالت میں چپکے ہوئے جوڑوں پر لگام کسنا ہوگا، ہرشخص کو اپنے گھرکی حفاظت کرنی ہوگی اوراپنی معصوم سی کلیوں کو کانٹوں سے بچانے کیلئے کوئی پیش رفت کرنی ہوگی ۔

ملک کی راجدھانی دلی ہو ،یا پھر صوبہ بہار کی راجدھانی شہر پٹنہ ،گجرات ہویاممبئی ۔ہماری لڑکیاں شتر بے مہار کی طرح آزاد ہوگئی ہیں ،لباس پہن کر بھی وہ ننگی نظرآتی ہیں، ان کے جسم کے ایک ایک حصے کی ساخت بوڑھے بزرگوں کو شرمندہ کردیتی ہے، نیم برہنہ جسم اوریہ پر کشش اورلچکیلے انداز نے اچھے اچھے نوجوانوں کو بگاڑدیا ہے ۔ اپنے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سڑکوں، چوڑاہوں میں آوارہ پھر کر دوسرے نوجوانوں کے جذبات کو ابھارنے میں اہم رول اداکرتی ہیں ۔

سخت ٹھنڈی میں دوپٹہ کا کوئی نام ونشان نہیں ہے ۔ جینس پینٹ اورچست بنیائن ، کھلاہواسر، گنگناتی ہوئی تتلیاں۔ کیوں نہیں بے چارے نوجوانوں کے جذبات بھڑکیں گے ؟ اورکیوں نہیں عصمت دری کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوگا ؟

برادران وطن !اگرہم سب اپنی بہن بیٹیوں کا تحفظ چاہتے ہیں، توہمیں پردہ کواپنانا ہوگا، مغربی لباس پر پابندی لگانی ہوگی ،اپنی بہن بیٹیوں پہ کڑی نگاہ رکھنی ہوگی۔انہیں سکھاناہوگا ،بتاناہوگا، اوراخلاق وکردار سے آراستہ کرنا ہوگا ،چاہے ہندہو، مسلم ہو، سکھ ہویا عیسائی سب کو غور کرنا ہوگا۔ اوراسلام کی تعلیم کواپنا تے ہوئے بھڑکیلے لباس سے اپنی بہن بیٹیوں کو دور رکھنا ہوگا۔اگر ایساہوجاتاہے تو عورتوں پرہورہے آدھے جرائم کا ان شاءاللہ سدباب ہو جائے گا ۔

دوسری مجبوری یہ ہے کہ ہرگلی، چوراہے میں آج شراب کی دکانیں کھل چکی ہیں، مال ودولت کی حرص نے حکومت کے رکھوالوں کو یہ بھی سمجھنے کا موقع نہ دیا کہ دیش میں ودیشی شراب نے کتنے شباب کو عورتوں کے ساتھ ناجائز کھیل کھیلنے پر مجبور کیاہے ۔اس لئے دیشی، ودیشی شراب کی دکانوں پر قدغن لگانے ہوں گے ۔

اس کے باوجود اگر گناہ سرزد ہوجائے ،اور زنا کا صدور ہوجائے، اسلام یہاں پر بھی ہماری رہ نمائی کرتی ہے ۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے: کہ اگر زنا کرنے والے مرد وعورت غیر شادہ شدہ ہو ں، توسرعام اس پر سو کوڑے برسائے جائیں ، اوراگر شادی شدہ ہے تو پتھر مارکر ہلاک کیاجائے ،زناچاہے رضامندی سے ہو یاجبرواکراہ سے ہو۔

کوئی فرق نہ ہو۔ امیری ،غریبی کا، سب کے ساتھ ایک جیساسلوک ۔ قانون سب کے لئے برابر ،دیانت داری کے ساتھ سب پروہی حکم نافذ ہو،جوقانون کہتاہے ۔ توپھر ہندوستان میںایک صالح پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے گی۔ جو پوری دنیا کیلئے قابل تقلید اورقابل نمونہ ہوگا ۔
الہی! دے مجھے طرز تکلم میری آواز کو توروشنی دے
مجھے اعمال صالح کر عطا ءتو میری زندگی توتابندگی دے
Khalid Anwar Purnawi
About the Author: Khalid Anwar Purnawi Read More Articles by Khalid Anwar Purnawi: 22 Articles with 29585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.