پاکستان ایٹمی قوت ہے مگر اس میں
خواندگی کی شرح اور تعلیمی معیار تسلی بخش نہیں۔تعلیمی ذمہ داریوں کا زیادہ
تر بوجھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔یہ خوش آئند بات ہے جس کے
لئے پرائیویٹ سیکٹر مبارکباد کا مستحق ہے مگر کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جنکی
وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر کو تنقید کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور جہاں اصلاح کی
اشد ضرورت ہے۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھاری بھرکم فیسیں وصول کرتے ہیں۔اس کے
عوض وہ طالبعلموں کو سہولیات مہیا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اساتذہ کو
مقررہ معیار اور سکیل کے مطابق تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔نتیجہ جس کا یہ ہو
تاہے کہ اساتذہ کو ٹیویشن اور دیگر ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اساتذہ
اپنی تمام تر توجہ تعلیمی عمل پر مرکوز نہیں کر پاتے جس کے نتیجہ میں
معیارِتعلیم گرتا چلا جاتا ہے۔اکثر نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا
استحصال کیا جاتا ہے۔انہیں نوکری سے متعلق کوئی تحفظ حاصل نہیں
ہوتا۔انتظامیہ جب چاہے انہیں نوکری سے برخاست کر دیتی ہے۔بسا اوقات انہیں
نوٹس تک نہیں دیا جاتا۔اس صورتِ حال کے پیشِ نظر اساتذہ ہمیشہ عدمِ تحفظ کا
شکار رہتے ہیں اور اپنے فرائضِ منصبی بجا طور پر ادا نہیں کر پاتے۔نجی شعبے
کے اساتذہ جب اپنا تقابل سرکاری شعبے کے اساتذہ سے کر تے ہیں تو ان کا
مورال مزید گرجاتا ہے۔سرکاری اساتذہ کی تنخواہیں زیادہ،چھٹیاں زیادہ،الاﺅنسز
زیادہ مگر کارکردگی کم ہوتی ہے اس کے بر عکس نجی شعبہ کے اساتذہ کو کام
زیادہ کر نا پڑتا ہے مگر انہیںتنخواہیں اتنی قلیل دی جاتی ہیں کہ ضروریاتِ
زندگی پوری کر نے کیلئے انہیں در در کی خاک چھاننا پڑتی ھے۔
ایک اور شرمناک صورتِ حال جس کا سامنا نجی شعبے کے اساتذہ کو کرنا پڑتا ہے
وہ یہ ہے کہ نجی سکولوں کے مالکان اساتذہ کو ذاتی نوکر یا غلام سمجھتے
ہیں۔ان کے ساتھ جابرانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹ ڈپٹ
اور برخاست کرنے کی دھمکیاں روز سہنا پڑتی ہیں۔چھٹی کے بعد میٹنگوں کے لیے
دیر تک بیٹھنا پڑتا ہے اور اس فاضل وقت کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا
جاتا۔ستم یہ کہ یہ کہانی مہینے میں کئی مرتبہ دہرائی جاتی ہے۔خواتین اساتذہ
کو ان وقت بیوقت میٹنگوں کی وجہ سے گھمبیر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن
کا اثر بعض اوقات ان کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔معاشی مسائل کی وجہ سے وہ سب
کچھ چپ چاپ سہتی رہتی ہیں بصورتِ دیگر انہیں اپنے گھر کا چولہا بجھ جانے کا
خدشہ ہوتا ہے۔سکول مالکان فیکٹریوں کی طرح تعلیمی اداروں کو چلا نے کی مشق
کر تے ہیں اور پیغمبرانہ پیشہ کے حامل اساتذہ کے ساتھ مزدوروں کا سا سلوک
کیا جاتا ہے۔
اکثر نجی سکول مالکان اساتذہ کو زیرِ جبر رکھنے کے لئے گھناﺅنے ہتھکنڈے
استعمال کرتے ہیں۔اساتذہ کی اصل اسناد بطورِ ضمانت رکھ لی جا تی ہیں اور ان
سے دو یا تین تعلیمی سال مکمل کرنے کا معاہدہ تحریری طور پر کر لیا جاتا ہے
جس کے سبب وہ کہیں اور نوکری کے لئے درخواست تک نہیں دے پاتے اور استحصال
کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں انکی مہینہ بھر کی تنخواہ بھی بطور
ضمانت رکھ لی جاتی ہے تاکہ وہ ادارہ کو چھوڑ کر نہ جا سکیں۔اگر کوئی استاد
اس کے خلاف احتجاج کر تا ہے یا کسی فورم پر صدا بلند کر تا ہے تو اس پر
سیاست کر نے کا الزام لگا کر نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے اور اس کے
بقایا جات بھی ادا نہیں کئے جاتے ۔بعض اوقات تو مار پیٹ کر کے اس کی تذلیل
کی جا تی ہے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔تنخواہوں میں اضافے کا کوئی فارمولا
نہیں ہوتا۔یہ محض مالکان کی صوابدید پر ہوتا ہے۔عموماََ خوشامدیوں اور جی
حضوری کر نے والوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے
بھی ان کی تقلید کریں۔
اساتذہ خواہ وہ نجی شعبے کے ہوں یا سرکاری شعبے کے، دونوں یکسان طور پر
قابلِ احترام ہیں۔ان کے مسائل اور ضروریات بھی یکساں ہیںمگر وسائل میں اس
قدر فرق سمجھ سے بالا تراور کھلا تضاد ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتِ وقت
نجی شعبے کے اساتذہ کے مسائل پر توجہ دے۔نجی شعبے کے اساتذہ کو بھی مروجہ
سکیل کے مطابق تنخواہیں دی جائیں۔ان کی تنخواہ میں اضافے کے لیے بھی وہی
اصول لاگو کیا جائے جو سرکاری شعبے میں ہوتا ہے۔حکومت نجی سکولوں پر نظر
رکھنے کے لئے کوئی فعال ادارہ قائم کرے جو اساتذہ کے مسائل حل کرے اور جہاں
ان کی شنوائی ہو ورنہ یہ معمارانِ قوم اسی طرح جبر کی چکی میں پستے رہیں گے
اور تعلیمی میدان میں ترقی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ |