دست درازی اورہراساں کرنے اور
جنسی زیادتی کے واقعات بھارتی خواتین کیلئے ایک بھیانک خواب بن گئے
عوامی مقامات پرنامناسب فقرے بازی ، دست درازی اورہراساں کرنے کے واقعات
بھارتی خواتین کیلئے ایک بھیانک خواب کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ بھارت
میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی ریپ کے واقعے اور اس لڑکی کی ہلاکت نے نے
پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارتی شہروں میں مظاہرے ہورہے ہیں اور
حکومت اس سلسلے میں بے بس نظر آتی ہے۔سات اعشاریہ چھ ارب انسانوں کی اس
دنیا میں تین ارب سے زائد انسانی آبادی میںکل انسانی آبادی کا انچاس
فیصدعورتیں ہیں۔ آدھی دنیا کے خلاف دنیا بھر ہی میں ایسے واقعات ہوتے ہیں
جو انسانی معاشرے کے لئے کلنگ کا ٹیکہ ہیں۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے
مطابق بھارت میں 2011 کے دوران عورتوں سے جنسی زیادتی کے 24,206واقعات پیش
آئے۔۔صرف دلی شہر میں سال 2012 کے دوران جنسی زیادتی کے 600واقعات رپورٹ
ہوئے۔ دلی ،جہاں لڑکیاں ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلاتی ہیں۔ جہاں 21 سے 34
سال کی عمر کی 34 فی صد عورتیں شہر کی ورک فورس ، افرادی قوت کا حصہ ہیں۔
جودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت کی
راجدھانی ہے۔۔دلی۔۔۔جسے ریپ کیپیٹل آف دا ورلڈ کہا جاتا ہے۔
ہرسال دنیا بھر میں عورتوں سے جنسی زیادتی کے ڈھائی لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔
امریکہ میں ایک تنظیم کرائسس کنیکشن انک ڈاٹ آرگ کے اعدادو شمار کے مطابق
امریکہ میں ہر پینتالیس سیکنڈ میں ایک واقعہ جنسی زیادتی کا ہوتا ہے۔
کالجزمیں پڑھنے والی ہر 7 میں سے ایک لڑکی جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہے۔
امریکہ میں بھی ایسے 61فیصد واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے۔ پاکستان میں سبی
کی ڈاکٹر شازیہ ، ملتان کی مختارمائی کیس مشہور ہوئے۔ اور آئے دن ایسے
واقعات جنم لیتے ہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعاتر عام ہورہے
ہیں۔ لیکن اس کے لئے کوئی اقدام نہیں کیئے جارہے ہیں۔ نہ ہیءان مقدمات کے
جلد فیصلے ہوتے ہیں۔ بھارت کی ارون دھتی رائے ان واقعات پر کہتی ہیں کہ (ریاست
مہاراشٹر کا ایک گاؤں) میں دلت خاتون اور اس کی بیٹی کا ریپ کر کے انہیں
جلا دیا گیا تھا۔وہ چھتیس گڑھ میں قبائلی خاتون سونی سوری کے ساتھ ہونے
والے واقعے کا بھی ذکر کرتی ہیں۔جس میں ریپ کرنےوالے پولیس افسر کو بہادری
کا ایوارڈ ملا۔‘وہ کشمیر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کشمیر میں
جب سکیورٹی فورسز غریب کشمیریوں کا ریپ کرتے ہیں، اس وقت سیکورٹی فورسز کے
خلاف کوئی پھانسی کا مطالبہ نہیں کرتا۔‘یا ’جب کوئی اونچی ذات کا آدمی دلت
(سماجی اعتبار سے نچلے طبقے کے ہندو) کا ریپ کرتا ہے تب تو کوئی ایسی
مطالبہ نہیں کرتا۔ ہندوستان میں جس لڑکی کا ریپ ہوتا ہے اسے کوئی قبول کیوں
نہیں کرتا؟ کئی معاملات میں جس کا ریپ ہوتا ہے اسی کو خاندان کے لوگ گھر سے
نکال دیتے ہیں۔‘ابھی کچھ برس پہلے تک بھارت کی ہندی فلموں میں بھی جنسی
زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کا انجام اکثر خودکشی کی شکل میں دکھایا
جاتا تھا جیسے کہ وہ خود اپنے اوپر کیے گئے ظلم کی مجرم ہو۔ بھارتی معاشرے
کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو عورت کی شکل میں دیویوں کی پوجا کی
جاتی ہے اور دوسری جانب اسے ہر قسم کے تشدد اور تفریق کا سامنا ہے۔
ریپ یا جنسی زیادتی کا سوال بھارت میں ایک عرصے سے عوام کے شعور میں کسی
آتش فشاں کے لاوے کی طرح پک رہا تھا۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے جنسی
زیادتی کے مجرموں کو قانون کا کوئی خوف ہی نہ ہو۔ معاشرے کا رویہ بھی
فرسودہ اور اکثر قابل مذمت رہا ہے۔ جنسی زیادتی کے کسی واقعے کے بعد اگر
کوئی بحث چھڑتی تو کبھی اس طرح کے مشورے آتے کہ لڑکیوں کو جینز نہیں پہننی
چاہیے تو کبھی کوئی رہنما یہ بتاتا کہ لڑکیوں کو رات میں گھر سے نہیں نکلنا
چاہیئے۔
دلی میں جنسی زیادتی کے خلاف مظاہرہ، ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر
ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت
کے خلاف اس بھیانک جرم کی جڑ تک جانے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر
کبھی کوئی منظم اور موثر بحث نہ ہوسکی۔ ملک کے پالیسی سازوں قانون نافذ
کرنے والے اداروں نے اس مجرمانہ ذہنیت کو شکست دینے کی کوشش نہیں کی جس نے
آج پورے بھارتی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
جنسی زیادتی کے واقعات بھارتی معاشرے کا غیر پسندیدہ حصہ بن چکے ہیں۔
مجرموں کو سزا دینے کے لیے سو برس پرانے جو قوانین نافذ ہیں وہ اتنے پیچیدہ،
مبہم اور تکلیف دہ ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے قانون کی مدد نہیں
لینا چاہے گا۔ اسی لیے خواہ وہ قتل کا معاملہ ہو یا جنسی زیادتی کا، بیشتر
مجرم سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ عام لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ قانون
بااثر طاقتور اور مجرموں کے فائدے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ریپ کے بڑھتے ہوئے
واقعات صرف قانون میں خامی کے ہی نہیں بھارتی معاشرے کی بے حسی کے بھی عکاس
ہیں۔
لیکن گزشتہ اتوار کو ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا ہے اس نے لوگوں
کے شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک موثر قانون اور قانون کی حکمرانی کے
لیے پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لوگ اب ان واقعات کے لیے حکومت اور
پولیس سے جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر یہ جرائم
نہیں تھم رہے ہیں تو اس کے لیے کون ذمے دار ہے ۔’اس شرمناک واقع نے پورے
ملک کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس مسئلے پر شوشل میڈیا پر
بھی بحث جاری ہے۔ بالی ووڈ اسٹارامیتابھ بچن، نے اس بارے میں اپنے بلاگ میں
لکھا کہ ،،’امانت‘ کہیں یا ’دامنی‘۔ اب یہ صرف ایک نام ہے۔ اس کے جسم کی
موت ہو گئی ہے لیکن اس کی روح ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی رہے گی۔ وزیر اعظم
منموہن سنگھ کا کہنا ہے کہ میں پوری عوام کے ساتھ مل کر اس لڑکی کے گھر
والوں اور دوستوں سے اظہارِ افسوس کرتا ہوں۔ میں دعاگو ہوں کہ اس کے خاندان
کو صبر عطا ہو۔
سہیل سیٹھ، مصنف اور مارکیٹنگ کی شخصیت سہیل سیٹھ، نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ
اگر اپنی موت سے وہ مردوں کے لیے یہ سبق چھوڑ سکی ہے کہ انہیں خواتین سے کس
طرح برتاو کرنا ہے اور کس طرح ان کا احترام کرنا ہے تو یہ ایک اصل جیت
ہوگی۔بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے لکھا ہے کہ کیا اسے دوسرے ملک میں
مرنے کے لیے سنگاپور بھیجا گیا تھا؟ لیکن لوگوں کو اس کی شویاترا نکالنے کی
ضرورت نہیں ہے، وہ اس لڑکی کی کہانی جانتے ہیں۔
کوہلی، فلم ڈائریکٹر لکھتے ہیں کہ نئی دہلی میں اجتماعی عصمت دری کی شکار
بنی لڑکی کی موت ہو گئی ہے، اس کے ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا ہے۔نیہا
دھوپیا، اداکارہ اور ماڈل لکھتی ہیں کہ سال کا اختتام اتنی دردناک خبر کے
ساتھ ہو رہا ہے۔ اداکارہ دیا مرزا، مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے جسم کے
ایک حصے کی موت ہوئی ہے۔شبانہ اعظمی، اداکارہ نے لکھا کہ اور اس کی موت
سنگاپور میں ہوئی۔ ہماری بے حسی ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ امید ہے کہ وہ ملک کا
سویا ضمیر جگا سکے گی۔وجے مالیا، ممبر پارلیمنٹ اور صنعتکارافسوس ہے کہ ایک
نوجوان لڑکی کی موت اس پرتشدد اور غیر انسانی عمل سے ہوئی۔ بھارت میں جنسی
زیادتی کے واقعات غیر ملکی سیاح خواتین کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ عصمت دری کا
یہ واقعہ اکیس مارچ سنہ دو ہزار چھ میں پیش آیا تھا۔جرمنی کی متاثرہ طالبہ
نے اپنے بھارتی ساتھی بی ٹی موہنتی کے خلاف جنسی زیادتی کی شکایت کی تھی۔
اس معاملے کے فاسٹ ٹریک عدالت میں درج کیے جانے کے نو دن بعد ہی فیصلہ
سناتے ہوئے موہنتی کو سات سال کی سزا سنا دی گئی تھی۔ حالانکہ اس کے بعد
موہنتی پرول پر رہائی کے بعد فرار ہو گئے تھے اور آج تک پولیس کے ہاتھ نہیں
لگے ہیں۔اس سے قبل سنہ دوہزار پانچ میں جودھ پور میں فاسٹ ٹریک عدالت نے
جرمنی کی ایک خاتون سیاح کے ساتھ دو لوگوں کے ذریعے کیے گئے ریپ کے معاملے
میں ایسا ہی فیصلہ سنایا تھا اور دو ہفتے میں کارروائی مکمل کر لی گئی
تھی۔اسی طرح سنہ دو ہزار چھ میں ایک جاپانی خاتون نے پشکر میں ایک گیسٹ
ہاؤس کے مالک ببلو پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔اسی طرح دسمبر دوہزار
آٹھ میں اودے پور میں ایک برطانوی سیاح کے ساتھ ہوٹل مالک کی جانب سے ریپ
کرنے کے معاملے کی بھی سماعت چار ماہ میں مکمل کر لی گئی تھی اور عمر قید
کی سزا دی گئی تھی۔ بھارت میں انصاف میں تاخیر بہت ہوتی ہے۔
پانچ ستمبر انیس سو ستانوے کو راجستھان یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں ایک
واقعہ پیش آیا تھا جس میں تقریبا بارہ افراد نے مبینہ طور پر ایک خاتون کے
ساتھ ریپ کیا تھا، لیکن اس میں ملزموں کو سزا دینے میں پندرہ سال لگ گئے۔
خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے گھر سے نکلتے ہی مردوں کی جانب سے ہراساں
کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، امریکی خبررساں ادارے نے ایک رپورٹ میں
بتایا ہے کہ بھارتی معاشرے میں عوامی مقامات پر خواتین کی حالت زار کا
تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔52 سالہ بینکار خاتون گیتا گنیشان نے بتایا کہ نئی
دہلی میں انکی بیٹی زیر تعلیم تھی،ایک دن مقامی پارک میں واک کے دوران 4
افراد نے اسکا محاصرہ کر کے اسکے ساتھ دست درازی کی، انہوں نے کہا کہ بیٹی
بھاگ کر گھر پہنچ گئی لیکن کئی مہینوں تک واک کیلئے باہر نہیں نکلی۔آگرہ سے
تعلق رکھنے والی26 سالہ وکیل سندیا جادون نے بتایا کہ جب وہ گھر سے کورٹ
کیلئے نکلتی ہیں تو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، انہوں نے بتایا
کہ گذشتہ ہفتے بس میں 4 افراد نے میرے ساتھ دست درازی کی، میرے چلانے پر
ایک مرد نے مسکرا کر کہا کہ تم مجھے کس طرح روک سکتی ہو جبکہ کوئی مسافر
میری مدد کو نہیں آیا اور میں بس سے نیچے اتر گئی اور اگلے کئی دنوں تک
پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کیا۔21 سالہ طالبہ پریانکا کھتری نے بتایا کہ
سماج میں خواتین کے خلاف تشدد اور رویوں کو دیکھتے ہوئے ہماری دنیا بہت ہی
محدود ہوگئی ہے ، شام کے بعد والدین کے بغیرگھر سے نکلنے کا سوچا بھی نہیں
جاسکتا۔ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کی جانب سے کی گئے سروے میں خواتین کی
تعلیم، صحت، روزگار اور انکے خلاف تشدد کا جائزہ لیا گیا۔ اس سروے کے مطابق
بھارت میں خواتین سے زیادتی اور قتل کے وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے بعد
خواتین عدم تحفظ کا شکار، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق زیادتی کے
یومیہ ساٹھ واقعات ہورہے ہیں-
بھارتی میڈیا کے مطابق نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق
انیس سو نوے میں خواتین سے زیاتی اور قتل کے دس ہزار اڑسٹھ واقعات ہوئے
جبکہ دس برس میں یہ تعداد بڑھ کرسولہ ہزار چار سو چھیانوے ہوگئی۔ اب خواتین
اور لڑکیاں بھارتی معاشرے میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ اور گھر سے
باہر نکلنے سے بھی اجتناب کرتی ہیں۔
این سی آر بی رپورٹ کے مطابق صرف دارالحکومت دہلی میں خواتین سے زیادتی کے
واقعات میں پچیس فیصد اضافہ ہواہے۔ رپورٹ کے مطابق چند سماجی تنظمیوں کے
علاوہ کسی سیاسی و سماجی پارٹی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ اور نہ ہی
حکومت نے کوئی اقدامات کئے۔بھارت میں انتخابات اور امیدواروں پر نظر رکھنے
والی غیر سرکاری تنظیم نیشنل الیکشن واچ کا کہنا ہے کہ کئی ممبران پارلیمان
اور ممبران اسمبلی کے حلف ناموں میں دی گئی رپورٹ کے مطابق ان پر خواتین کے
خلاف جرائم کے کیسز ہیں۔
تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے
اس سے بھی زیادہ تعداد میں ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیے گئے۔ اراکین پارلیمان اور
ممبران اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں داخل کرائے گئے گزشتہ حلف ناموں
کی پڑتال سے معلوم ہوا کہ چھ اراکین اسمبلی نے الیکشن کے وقت بھارتی الیکشن
کمیشن میں دیے گئے اپنے حلف نامہ میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے خلاف جنسی
زیادتی کا الزام ہے۔اس کے علاوہ 36 دیگر اراکین اسمبلی کے حلف ناموں کے
مطابق ان پر خواتین کے خلاف دیگر جرائم کے الزامات ہیں۔ ان میں سے چھ انڈین
نیشنل کانگریس، پانچ بی ایس پی اور تین ایس پی سے ہیں۔نیشنل الیکشن واچ کے
جائزے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں سیاسی جماعتوں نے
اسمبلی انتخابات کے لیے 27 ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیا جن کے حلف ناموں کے مطابق
ان کے خلاف جنسی زیادتی کے الزام ہیں۔ بھارت میں خواتین کی حالت کتنی اچھی
ہے اس کا سیدھا تعلق ان کے اقتصادی حالات سے ہے۔انیس ممالک کی فہرست میں
بھارت سب سے آخر نمبر پر ہے۔ اس کی وجہ بھارت میں لڑکیوں کی کم عمر میں
شادی، جہیز کا رواج، گھریلو تشدد اور رحم مادر میں لڑکیوں کو مار دینا
بتایا گیا ہے۔ بھارت میں خواتین کو ایسے واقعات سے بچانے کے لئے ایک کمپنی
نے ایک پروگرام بھی بنایا ہے۔ اس پروگرام میں جب کسی لڑکی کو کمپنی کی گاڑی
جیسے ہی اتارتی ہے، سِکّا اپنے موبائل فون میں ایک پروگرام آن کر لیتی ہیں
جسے ”فائٹ بیک“ کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام جی پی ایس کے ذریعے یہ بتانا شروع
کر دیتا ہے کہ وہ اس وقت ٹھیک کس مقام پر ہیں۔ جگدیش مترا اس ٹیک کمپنی کے
سی ای او ہیں جس نے فائٹ بیک پروگرام تیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں”آپ کو جیسے
ہی کوئی پریشانی محسوس ہو، آپ کو اور کچھ نہیں کرنا ہے ، بس ایک بٹن دبانا
ہے۔“
جیسے ہی کوئی خاتون خطرے کا بٹن دباتی ہیں، اس کے بعد ان کے پاس چند سیکنڈ
ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے فیصلے کو منسوخ کر سکتی ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں
کرتیں، تو ٹیکسٹ میسیج، ای میل اور فیس بک کےذریعے ، فوراً ان کے محل وقوع
کے بارے میں ایک پیغام ان کے دوستوں یا گھرانے کے نام چلا جاتا ہے جن کے
نام انھوں نے فہرست میں شامل کیے ہوتے ہیں۔
اس پروگرام کو استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا ایک انٹریکٹو نقشے پر اکٹھا کر
لیا جاتا ہے۔ مترا کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی نقشے پر نظر رکھتی ہے لیکن کسی
پبلک مانیٹرنگ سینٹر کی طرح کام نہیں کرتی۔”قانونی سہولتیں فراہم کرنا
ہمارا کام نہیں ہے۔ صرف وہی لوگ قانونی فرائض انجام دے سکتے ہیں جنہیں اس
کا اختیار حاصل ہے، یعنی پولیس اور ایسے ہی دوسرے سرکاری ادارے۔“
2010 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، نئی دہلی میں جنسی حملوں کے 400 سے
زیادہ واقعات ہوئے۔ میڈیا کی بہت سی تنظیموں نے اس شہر کو بھارت میں آبرو
ریزی کے صدر مقام کا لیبل لگا دیا ہے۔ کلپنا وسوا ناتھ، عورتوں کے حقوق کے
لیے جد وجہد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں” اگرچہ یہ پروگرام بہت اہم ہے، اور اسے
ایک اہم رول ادا کرنا ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں محتاط رہنا چاہیئے
کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ایک بار پھر
عورتوں کے سر ڈال دی جائے۔“
بھارت میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ بھارت کے تازہ
ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق40 فیصد سے زائد عورتوں نے یہ بات
تسلیم کی کہ انہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں مار کھانی
پڑی ہے۔یہ سروے ملک کے 28 ریاستوں میں کیا گیا جس میں 1.25لاکھ سے
زائدخواتین سے سوالات پوچھے گئے تھے۔سروے کے مطابق جن 75000 ہزار مردوں سے
سوالات پوچھے گئے ان میں سے 51 فیصد سے زائد نے کہا کہ انہیں اپنی بیویوں
کو مارنے پیٹنے میں کوئی خرابی یا قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے۔عورتوں پر
گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت نے 2005 میں ایک قانون بھی بنایا تھا
لیکن اس سے عورتوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی ہے۔ سدھا سندر
رمن کہتی ہیں کہ خواتین تنظیموں کی جدوجہد او ر دباؤ کے بعد حکومت نے قانون
تو بنادیا لیکن اس کا نفاذ ابھی تک کاغذات تک ہی محدود ہے۔سدھاسندررمن کا
کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی عورتوں کو گھریلو تشدد سے بچانا چاہتی ہے تو
اسے تمام قوانین کو خلوص اور سختی سے نافذ کرنے ہوں گے۔ اس میں سماجی،
اقتصادی اور قانونی اصلاحات کرنی ہوں گی اور مساوات اور جمہوری سماج کے
قیام کی طرف قدم بڑھانے ہوں گے ۔ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے
باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف اس بھیانک جرم کی جڑ تک جانے اور
ان پر قابو پانے کے طریقوں پر کبھی کوئی منظم اور موثر بحث نہ ہوسکی۔ ملک
کے پالیسی سازوں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس مجرمانہ ذہنیت کو شکست
دینے کی کوشش نہیں کی جس نے آج پورے بھارتی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا
ہے۔ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات صرف قانون میں خامی کے ہی نہیں بھارتی معاشرے
کی بے حسی کے بھی عکاس ہیں۔
لیکن گزشتہ اتوار کو ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا ہے اس نے لوگوں
کے شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک موثر قانون اور قانون کی حکمرانی کے
لیے پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لوگ اب ان واقعات کے لیے حکومت اور
پولیس سے جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر یہ جرائم
نہیں تھم رہے ہیں تو اس کے لیے کون ذمے دار ہے- |