اے رب! ہمارے دلوں کو بھی سمندر کی وسعت عطا فرما

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں، ملک بھر کے لوگوں کی امیدوں کا مرکز بھی ہے۔ ساحل کے کنارے آباد یہ شہر اہل وطن کے من کی مرادوں کا ساحل بھی ہے۔ کسی بھی ملک میں سب سے بڑا شہر تمام باشندوں کے لیے سب سے بڑی آس کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ہر صوبے سے لوگ محنت کے عزم کے ساتھ صلاحیتوں کے اظہار کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ یہ شہر اپنے دامن میں ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگوں کو سموئے ہوئے ہے۔

وقت گزرتا گیا اور کراچی پھیلتا گیا۔ لوگ آتے گئے، شہر کے دامن میں پناہ لیتے گئے، علاقے آباد ہوتے گئے، پنپتے گئے اور سب کے معیار زندگی کا گراف بلند ہوتا گیا۔ تین عشروں سے بھی زائد مدت تک یہ شہر پورے ملک کے دور افتادہ لوگوں کے لیے روزگار کا بہترین پوائنٹ تھا۔ یہاں خون پسینہ ایک کرکے لوگ اس قدر کماتے تھے کہ آبائی علاقوں میں ان کے اہل خانہ خاصی خوش حال زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتے تھے۔ محنت کرنے والے اِس بات کے حق دار ہوتے ہیں کہ اُنہیں پورا صِلہ ملے اور اچھی زندگی بسر کریں۔ کراچی نے ملک بھر سے آنے والوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ یہاں کے رہنے والوں نے بھی کسی سے تعصب یا نفرت بھرا برتاؤ نہیں کیا۔ معاشی معاملات میں بھی کبھی کسی سے تنگ نظر نہیں برتی گئی۔ کراچی کا متحرک رہنا پورے ملک کے لیے ناگزیر تھا کیونکہ یہ شہر معیشت کے دل کی دھڑکن تھا اور ہے۔
 

image

مگر پھر یہ ہوا کہ سمندر کے کنارے آباد شہر بد امنی اور عدم استحکام کے بھنور میں گِھر گیا۔ ہر طرف سے مشکلات نے اِسے آلیا۔ پیچیدگیاں بڑھتی گئیں۔ کل تک جو مل کر رہتے تھے وہ اپنے اپنے ڈربوں میں بند یعنی اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئے۔ جس طرح پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے باغات اور تعلیم و ثقافت کے اداروں کو گود لیتے ہیں بالکل اسی طرح قتل و غارت نے کراچی کو گود لے لیا اور پھر شکنجے میں ایسا جکڑا کہ سبھی کچھ تباہ ہوکر رہ گیا۔

کراچی کا ساحل آج بھی وسعت کی کہانی سنا رہا ہے۔ ساحل کے کنارے آباد شہر کو وسیع فضا میسر ہے۔ ساحل پر کھڑے ہوکر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سمندر میں کتنی وسعت ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سمندر کی سی وسعت کراچی کے تمام باشندوں کے دِلوں میں پیدا ہو اور اُن میں محبت کی کشتیاں رواں دواں رہیں مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ آج کراچی کی فضائیں مسموم ہیں۔ مفادات کی جنگ نے بہتوں کو زندگی کی بازی ہارنے پر مجبور کردیا ہے۔ معاشی مفادات نے معاشرت کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ کل تک جو باہم شیر و شکر تھے وہ اب لڑنے بھڑنے کے سوا کسی بھی بات پر ایمان رکھتے دکھائی نہیں دیتے! کیا ستم ہے کہ جو ایک رب، ایک رسول اور ایک کتاب پر یقین رکھتے ہیں وہ ایک ہونے کا نام نہیں لے رہے! اتحاد، یگانگت اور اخوت جیسی صفات ہمارے قلب و نظر کا رستہ بھول گئی ہیں۔ کبھی جن میں زمانے بھر کی وسعت تھی اب اُن دلوں میں ایسی تنگی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کس کے کھیلے ہوئے کھیل کا نتیجہ ہے، کس کی لگائی ہوئی آگ نے ہمارے قومی وجود کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے، کس نے ہمیں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے کا سبق پڑھا دیا ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

بھری دو پہر میں بھی شہر پر ظلمت کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ دلوں میں تاریکی بس جائے تو سورج کی روشنی میں بھی کسی کو کیا دکھائی دے گا؟ کراچی کے ساحل پر شفق کے حسین رنگ ڈوبتے سورج کی کرنوں کو ایسی خوب صورتی سے پیش کر رہے ہیں کہ اِن پر فِدا ہونے کو جی چاہتا ہے۔ کاش ہمارے دلوں کے افق اور شفق پر پھیلی ہوئی خون کی سُرخی بھی کِسی طور دُھل جائے اور محبت کی دھنک کے خوب صورت رنگ کچھ اِس انداز سے نمودار ہوں کہ ہماری آنکھوں پر چھائی ہوئی نفرت، تعصب اور تنگ نظری کی دُھند چَھٹ جائے۔ ساحل کی ٹھنڈی ہوا دِلوں کو فرحت بخشتی ہے۔ کاش یہ ہوا پوری طاقت سے آگے بڑھ کر شہر بھر میں محبت، اپنائیت اور انسان دوستی کے جھونکوں میں تبدیل ہو اور ہمارے دِلوں میں کا غبار ختم کرکے ایسی فرحت اور تازگی سے ہمکنار کرے کہ ہم پھر ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر مائل ہوں! آمین ....
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486215 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More