میں فرسٹ آیا ہوں

اکتوبر 2003ءکی بات ہے جب سنگا پور سے رونالڈ سو کا فون آیا۔ اُس نے ایک سکول سسٹم شروع کیا تھا اور بقول اُس کے اُس وقت تک اُس نے 47سے زیادہ ملکوں میں سکول شروع کر دیئے تھے اور وہاں کے ماہرین تعلیم اس کے فرنچائزڈ سکول سے بے پناہ منافع اور اُس کے علم سے بہت زیادہ استفادہ حاصل کر رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ میں بھی اُس گلوبل سسٹم کا حصہ بن کر لاکھوں کماﺅں اور نامور ماہر تعلیم بھی بن جاﺅں۔ وہ دو طرح کے سکول فرنچائز کے لیے پیش کر رہا تھا۔ ایک چھوٹے بچوں کے کے لیے ایلیمنٹری سکول اور دوسرا نوجوانوں کے لیے کمپیوٹر سکول۔ ان سکولوں کو مرکزی طور پر اس نے سنگا پور سے خود کنٹرول کرنا تھا۔ جس شخص کو بھی کوئی فرنچائز حاصل کرنی تھی۔ اُسے ابتدائی طورپر رونالڈ کو ایک معقول رقم بطور رائلٹی ادا کرنی تھی۔ ابتدائی معاہدہ دس سال کا تھا اور ان دس سالوں میں فرنچائز حاصل کرنے والوں کو آمدن کا 5فصد حصہ یا فیسوں کا دس فیصد دینا تھا۔ اور اس تمام رقم کے عوض اُن کو گلوبل نام ملنا تھا۔ سلیبس کے بارے میں کچھ گائیڈ لائن اور حساب کتاب کے لیے کمپوٹرئزڈ انونٹری سسٹم ملنا تھا۔ جس میں فیسوں کا تمام ریکارڈ رکھا جا سکے اور اگر میں اپنے خرچے پر کچھ لوگوں کو سنگا پور بھیج سکوں تو اُنہیں ٹریننگ بھی دی جانی تھی۔ انونٹری سسٹم کا فائدہ فرنچائز حاصل کرنے والے کو ہونے کے ساتھ رونالڈ کو بھی تھا کہ تمام ریکارڈ اُس کی پہنچ میں آجاتا۔ سکول کے لیے جگہ کا انتخاب سکول کے اساتذہ کا انتخاب، طلباءکے داخلے، سکول کی تشہیر اور دیگر تمام کام فرنچائز حاصل کرنے والے کے اپنے ذمہ تھے۔

رونالڈ نے فرنچائز حاصل کرنے کے بعد اُس کے فوائد کے بارے میں مجھے صرف سبز ہی نہیں رنگا رنگ باغ دکھائے۔ مگر اُس کی بات کسی طرح بھی میرے من کو نہیں بھائی۔ کیونکہ اُسے اتنی زیادہ رقم دینا میرے خیال میں کچھ اتنا سود مند بھی نہیں تھا۔ وہی رقم اگر میں خود خرچ کروں تو ایک بہترین سکول کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ابتدائی گفت و شنید کے بعد رونالڈ مجھ سے مایوس ہو گیا اور یوں میرا اُس کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ مگر چند دنوں میں رونالڈ پاکستان کے ایک بہت بڑے اور جانے پہچانے سکول سسٹم کو اپنا کمپیوٹر سکول فرنچائز کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ پاکستان میں فرنچائز سکولوں کی ابتداءتھی۔

کمپوٹر سکول کی فرنچائز حاصل کرنے والے ادارے نے رونالڈ سے فرنچائز کے بارے میں پہلے مکمل معلومات لیں۔ اس کے نظام اور طریقہ کار کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اُس کی نقل میں اپنے نام سے پاکستان میں سکولوں کے ایک نئے فرنچائز نظام کا اجرا کیا چونکہ اس فرنچائز نظام کی پشت پر ایک کامیاب سکول سسٹم تھا جس کی لوگوں میں بہت اچھی پذیرائی تھی۔ اس لیے وہ فرنچائز سسٹم انتہائی کامیاب رہا اور آج بھی کامیاب ترین فرنچائز سکول سسٹم ہے۔ لیکن اُس کے بعد یہ سسٹم وہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر وہ سکول جو چند برانچز کامیابی سے چلا رہا تھا اُس نے فرنچائز کا جال بچھانا اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ادرے بھی وجود میں آچکے یں جو اپنا کوئی سکول نہیں چلاتے مگر فرنچائز سکول چلا رہے ہیں۔ فقط دو کمروں کا دفتر جس میں بطور کنسلنٹ بیٹھے اپنے فن کی بنیاد پر اپنے فرنچائز سکولوں سے اپنے حصے کی بہت بڑی رقم وصول کر رہے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ فرنچائز دینے والوں کو سکولوں کے تعلیمی معیار سے کوئی خاص غرض نہیں ہوتی۔ لیکن یہ سکول والدین کے لیے یہ انتہائی پر کشش ہیں۔ لوگ فرنچائزڈ سکولوں میں بغیر سوچے سمجھے بچے داخل کراتے ہیں ۔ عام سا سلیبس، ناتجربہ کار اساتذہ ، کمزور انتظامیہ سب جائز ہے کیونکہ یہ سکول کی اپنی سر درد ہے۔ خصوصاً چھوٹے قصبوں میں جہاں اچھے اساتذہ کا فقدان ہوتا ہے وہاں بھی فرنچائز دینے والے کوئی مدد یا تعاون نہیں کرتے۔ بعض فرنچائز دینے والے کتابیں اور کاپیاں مہیا کر کے اپنے نفع کو بڑھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ لیکن سکول کی چمک دمک ، بچوں کا صاف ستھرا یونیفارم اور ظاہری رکھ رکھاﺅ فرنچائزڈ سکول کا حقیقی مطمع نظر ہے۔ ان سکولوں میں تعلیم کم اور والدین کو متوجہ کرنے والے حربوں پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ ان سکولوں میں ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں بہت جاندار ہوتی ہیں۔ کیونکہ ایسی سرگرمیوں میں والدین زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ کئی سال پہلے میرا بیٹا جب ایسے ہی سکول میں پڑھتا تھا تو ایک دن ایک کپ جیت کر نعرے لگاتا گھر آیا کہ میں فسٹ آگیا ہوں۔ میں بھی خوش ہوا کہ بیٹا فسٹ آیا ہے۔ کپ کے ساتھ دیا گیا سر ٹیفکیٹ دیکھا تو پتہ چلا کہ میرا وہ موٹا تازہ بیٹا پوری کلاس میں وزن کے لحاظ سے فرسٹ آیا ہے۔ لیکن انعامی کپ تو بہرحال انعامی کپ ہوتا ے جس سے بچے کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور فرسٹ آنا بھی ایک اعزاز۔ کسی کو تفصیل بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ وزن کے لحاظ سے فرسٹ آنے پر ملنے والا کپ دوسرے بہت سے انعامات کے ساتھ آج بھی جگمگا رہا ہے۔

کوئی وقت تھا کہ لوگ بچے کو کسی سکول میں داخل کراتے وقت اُس سکول کا تعلیمی معیار دیکھتے تھے۔ اور بہتر تعلیمی معیار کا پیمانہ اُس سکول کے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت ، سابق طلباءکی تعلیمی صلاحیت اور رزلٹ اور اس کی انتظامیہ کا نظم و نسق پر مکمل کنڑول ہوتا ہے۔ سکول کے منتظم کا ایک بہترین استاد اور بہترین انداز میں سکول کے معاملات کو چلانے کا تجربہ ہوتا ہے۔ ایک استاد کی حیثیت سے آج بھی جب لوگ مجھے اپنے بچے کے لیے سکول کا انتخاب کے لیے پوچھتے ہیں تو میں انہیں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ ظاہری نام پر نہ جائیں۔ بچہ داخل کرانے سے پہلے سکول کے دو تین چکر لگائیں۔ سکول اساتذہ کی تعلیمی قابلیت خصوصا سکول انچارج کے بارے میں جانیں۔ پہلے سے پڑھنے والے بچوں کے والدین سے سکول اور اساتذہ کے رویے اور والدین کے ان کے تعلقات کے بارے میں پوری طرح جاننے کے بعد فیصلہ کریں۔ بچہ آپ کا مستقبل ہے ،خاندان کا مستقبل ہے اور اچھی تعلیم بچے کا مستقبل اور اچھی تعلیم صرف اچھے اساتذہ ہی دے سکتے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444454 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More