بنتِ حوا ہوں میں یہ مرا جرم ہے

حضرت علی ؓ کا قول ہے یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے لیکن عصبیت وتنگ نظری کا شکار انسان یہ دیکھنے کے بجائے کہ کیا کہا جارہا ہے دیکھتا یہ ہے کہ کون کہہ رہا ہے۔اس کے نزدیک کسی بات کے حق یا ناحق ہونے کی کسوٹی کہنے والے کی ذات ہوتی ہے۔ وہ اپنے آدمی کی ہر بات کو کسی نہ کسی تو جیہ کہ مدد سے تسلیم کر لیتا ہے اور اپنے مخالفین کے بیانات کو شکوک و شبہات کی بنیاد پر رد کر دیتا ہے۔ اس لئے کہ اپنے دشمن کےکسی بیان کی تائید بہر حال ایک مشکل کام ہے ۔آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے دہلی عصمت دری کے معاملے میں ایک مبنی بر انصاف موقف اختیا ر کرکے ہمارے سامنے یہی مشکل کھڑی کردی ۔ موہن بھاگوت نے اس بابت دو بیانات دئیے۔ پہلی تقریر انہوں نے آسام کے سلچر شہر میں کی اور کہاہندوستان کےشہروں میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم قابلِ شرم ہیں۔یہ ایک خطرناک رحجان ہے ۔ لیکن اس قسم کے جرائم بھارت یعنی دیہی علاقوں میں نہیں ہوتے ۔ آپ ملک کےگاؤں اور جنگلوں میں چلے جائیں وہاں آپ کو جنسی جرائم اور اجتماعی عصمت دری کے واقعات نہیں ملیں گے ۔موہن بھاگوت کے اس بیان کی اعدادو شمار کی مدد سے تردید بھی ممکن ہے نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دیہاتوں کے واقعات کی جانب ذرائع ابلاغ کی توجہ نہیں ہوتی اس لئے وہ منظرِ عام پر نہیں آتے لیکن کانگریسی ترجمان کا یہ الزام نہایت بچکانہ ہے کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کر رہے ہیں ۔

موہن بھاگوت نے انڈیا اور بھارت کے درمیان پائے جانے والے فرق کی وجہ بتا تے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات اس وقت رونما ہوتے ہیں جب بھارت مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر انڈیا بن جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تو جیہ پر گفتگو ہو اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ آیا مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے اثرات خواتین کو تحفظ عطا کرتے ہیں یا غیر محفوظ بناتے ہیں ؟حقیقت یہی ہے کہ غیر جانبدار ہوکر کھلے ذہن کے ساتھ اگر اس سوال پر غور کیا جائے تو موہن بھاگوت کی بات کو تسلیم کئے بغیر کارۂ چار نہیں ہے ۔مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب نے جس طرح خواتین کا استحصال کیا اور انہیں نمائش و ضرورت کی ایک بے وقت شہ بنا کر رکھ دیا اس کے نتیجے میں نہ صرف خواتین کا عزت و وقار گرا ہے بلکہ وہ عدم تحفظ کا شکار بھی ہو گئی ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی کی برندا کامت کا یہ کہنا کہ سنگھ سے اس کے سوا کسی اور شہ کی توقع نہیں کی جاسکتی یہ لوگ منو سمرتی میں یقین رکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر دستور میں ترمیم چاہتے ہیں ان کی اپنے ذہن وفکرکی غلامی کا غماز ہے ۔

موہن بھاگوت نے اس مسئلہ کو جو حل بتلایا ہے اس سے بہرحال اتفاق نہیں کیا جاسکتا ان کے مطابق سماج کے ہر شعبہ میں خالص ہندوستانی (ہندو) تہذیب و اقدار کا قیام ضروری ہےجس میں عورت کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے ۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کے دیومالائی مذہبی صحیفوں کی مشہور ترین خواتین مثلاً رامائن کی سیتا اورمہا بھارت کی دروپدی تک بھی ظلم وزیادتی کا شکار نظر آتی ہیں ۔ تاریخ و تہذیب پر نظر ڈالیں تورانا سانگا کی بہو اورکرشنا کی بھکت میرا بائی بھی ہندو اقدار کے سائے تلے مختلف انداز میں ستائی جاتی رہی ہے اور آج بھی دیوداسی کی روایت نام نہاد انڈیا میں نہیں بلکہ بھارت کی پاون دھرتی پر زندہ و تابندہ ہے۔ سر سنگھ چالک کو اس معاملے میں محض مغرب کو موردِ الزام ٹھہراکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے تاکہ صحیح حل تک رسائی ممکن ہو سکے ۔

سنگھ پریوار کے لوگ کل تک سینہ ٹھونک کرکہا کرتے تھے گوکہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں اب خواتین کے خلاف جرائم کے ملزمین کی فہرست دیکھ کر کہنا پڑتا ہے سارے ہندو مجرم تو نہیں ہیں لیکن ان جرائم کے سارے ملزم ہندو ضرور ہیں سرسنگھ چالک کو ٹھنڈے دل اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ ہندو سماج کی اصلاح کا جو کام سنگھ گذشتہ سات دہائیوں سےکررہا ہے آخر وہ جدوجہد کیونکر بار آور نہیں ہو پارہی ہیں۔ سنجے جوشی جیسے برہما چاری کارکن اپنی ہی دستِ راست خاتون پر دست درازی کیوں کرتا ہے؟ اور اس مذموم حرکت کی سی ڈی کے منظرِ عام پر آجانے پر بھی اسےتنظیم کی اہم ذمہ داریوں پر کیوں فائز رکھاجاتا ہے ؟ کرناٹک بی جے پی کے ارکانِ اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان کے اندر اپنے موبائیل پر فحش فلمیں دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے جاتے ہیں ؟ اور اس غلیظ حرکت کے باوجود ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی ؟ گجرات کے اندر بھی یہی معاملہ دوہرایا جاتا ہے پھر بھی کسی کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ کیا سنگھ کے اندر بھی مغربی رحجانات جڑ پکڑ چکے ہیں اور وہ انہیں اکھاڑ پھینکنے سے قاصر ہے ؟ اگر ایسا ہے تو قوم کے اندرسے ان برائیوں کے خاتمے کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے ۔

موہن بھاگوت نے مشرقی ہندوستان میں جو کہا سو کہا لیکن وہاں سے واپس آنے کے بعد اندور میں سنگھ کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وہ نہایت ہی معروضی انداز میں بولے ۔ خاوند اور بیوی ایک معاہدے کے پابند ہوتے ہیں جس کے تحت شوہر اپنی بیوی کو یہ یقین دلاتا ہے کہ تم میرے گھر کاخیال رکھو اور میں تمہاری ضروریات مہیا کروں گا نیز تمہیں محفوظ و مامون رکھوں گا۔ شوہر اس معاہدے کی پاسداری کرتا ہے ۔ جب تک کہ بیوی اسے نبھاتی ہے شوہر اس کے ساتھ رہتا ہے اور اگر بیوی اس کی خلاف ورزی کرتی ہے تو وہ اس سے دستبردار ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر شوہر اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہوتو بیوی اس معاہدے کو توڑ سکتی ہے ۔ موہن بھاگوت کی تقریر پر جب ہنگامہ کھڑا ہوا تو خود سنگھ پریوار بھی مدافعت کی حالت میں آگیا حالانکہ اس کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔ آرایس ایس کے ترجمان رام مادھو نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ موہن بھاگوت نےمغرب کی معاشرتی نظام میں نکاح کو معاہدہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں نکاح ایک نہایت مقدس ادارہ ہے ۔ اب بیچارے رام مادھو کو کون سمجھائے کہ دو افراد کے درمیان اخلاص کے ساتھ کیا جانے والامعاہدہ بھی مقدس ہو سکتا ہے نیز کسی مقدس معاہدے کی بنیاد پر قائم ہونے والا رشتہ بھی تقدس کا حامل ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے دین اسلام عقدِنکاح کو اللہ کے حکم کی بنیاد پر استوارکرکے مقدس بنا دیتا ہے ۔ رام مادھو کی گھبراہٹ بتلاتی ہے کہ اپنے تمام تربلند بانگ دعووں کے باوجود سنگھ کی فکری بنیادی کس قدر کھوکھلی ہیں۔

بی جے پی رہنما شیشادری چاری نے موہن بھاگوت کی وکالت کرتے ہوئے ایک اور اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا جس سے ذرائع ابلاغ صرفِ نظر کررہا تھا۔انہوں نے کہا مغربی تہذیب اور اشتہاروں کے اندر دکھلائی جانے والی عریا نیت کا بھی خواتین پر جرائم کے اضافہ میں حصہ ہے ۔ اسی کے ساتھ شیشادری نے مردوخواتین دونوں کو اپنے حدود(لکشمن ریکھا)کے اندر رہنے کی تاکید کی ۔ حقیقت یہی ہے کہ جب فطرت کےحدود کوپامال کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے آنے والی طغیانی کو روکنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ اتفاق سے جماعت اسلامی ہند نے بھی جسٹس جے ایس ورما کوجو تجاویز لکھیں ان میں اس پہلو کو تفصیل سے اجاگر کیا گیا ہے ۔ اشتہار بازی میں عریانیت کو قابل سزا جرم قرار دئیے جانے کے علاوہ نکاح کے باہر مردو زن کےجنسی تعلق کو غیر قانونی اورقابل تعزیر جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔جہیز کا خاتمہ کرکے نکاح کو آسان بنانے پر زور دیا گیاہے۔مخلوط تعلیم کے بجائےمنفرد تعلیمی ادارے اور طالبات کے لئے پروقار لباس تجویز کیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ خواتین کیلئے مخصوص سواریوں کی مانگ بھی کی گئی ہے تاکہ وہ چھیڑ چھاڑ سے محفوظ و مامون رہ سکیں ۔ شراب چونکہ ام الخبائث ہے اور حالیہ واردات سے قبل بھی قاتل درندوں نے اس کا استعمال کیا تھا اس لئے اس پر بھی پابندی لگانے کیلئے کہا گیا ہے ۔

جماعت نے مذکورہ بالا مطالبات کے علاوہ پولس محکمہ میں فوری اصلاحات کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے ۔آج کل ہرخاص وعام موجودہ قانون میں ترمیم کرکے مجرمین کیلئے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کررہا ہے اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے اس گھناؤنے جرم کا سب سے بڑا مجرم ہندوستانی دستور کے مطابق نابالغ ہے۔ ایک زناکار کو نابالغ قرار دینا بجائے خودمضحکہ خیز ہے اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ مسئلہ قانون سازی سے زیادہ اس کے کا نااذکا ہے اور یہ مقننہ یا عدلیہ کی نہیں بلکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ اول تو وہ وقت پر جائے حادثہ پر موجود نہیں ہوتا ۔ راستوں میں لگے کیمروں کی جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ سواریوں کو روک کر ان کی تفتیش نہیں کرتا اور جائے واردات پر پہنچ اس مسئلہ میں الجھ جاتا ہے کہ یہ حادثہ کس پولس تھانے کے حدود میں وقوع پذیر ہوا ہے ۔ پھر اس کے بعد قانونی موشگافیوں اور کاغذی کارروائیوں میں الجھ کے مظلوم کو زحمت اور ملزم کو راحت پہنچاتا ہے۔ ان تمام مشکلات سے حالیہ واقعہ میں مظلوم لڑکی اور اس کے ساتھی کو گذرنا پڑاہے۔ دہلی کے عوام جو جوق در جوق احتجاج کیلئے نکل آیا تھاوہ بھی کافی دیر تک مدد کی گہار لگانے والےبرہنہ و زخمی نوجوانوں کو سڑک پرروتا اور سسکتا دیکھتا رہالیکن مدد کیلئے آگے نہیں آیا۔ اس بے حسی کے پسِ پشت انتظامیہ کا خوف بھی کارفرما تھا جو گواہوں کے ناک میں دم کر کے رکھ دیتا ہے ۔

ہندوستانی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے عوام کے دل اللہ اور اس کے بندوں کی محبت سے خالی ہو تے جارہے ہیں اور ان کے اندر سےقانون کا خوف یکسرختم ہو گیا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ آبروریزی جیسے سنگین جرائم کے ملزمین کا باں تعزیر آزاد گھومنا ہے ۔ شہر دہلی کا حال یہ ہے اس سال جنوری سے نومبر تک عصمت دری کی ۶۳۵ شکایات درج کرائی گئیں ۷۵۴ ملزم گرفتار بھی ہوئے مگر صرف ایک کو سزا ہوئی اوردو رہا ہوگئے۔۴۰۳ کے خلاف مقدمہ زیرِ سماعت ہےاور ۳۴۸ ملزم ہنوزتفتیش کے منتظر ہیں ۔ دہلی کا حال یہ کہ مسلسل کئی سالوں سے عصمت دری کے واقعات بتدریج اضافہ ہورہا ہے ۔ ؁۲۰۱۱ میں شکایات ۵۷۲ تھیں جبکہ ؁۲۰۱۰ میں ۵۰۷اور ؁۲۰۰۹ میں صرف ۴۶۶ وارداتیں ہوئی تھیں۔اس طرح گزشتہ چار سالوں میں۲۶ فیصدی کا غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اگر دسمبر کے اعداد شامل کرلئے جائیں تو یہ شرح اور بھی زیادہ ہو جائیگی اس لئے کہ تمام تر احتجاج کے باوجود خواتین کے خلاف ہونےو الاتشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے قومی اخراجات کی ترجیحات کو تبدیل کیا جائے۔ فی الحال ہندوستان میں ہر دس لاکھ کی آبادی پر صرف ۱۲ جج ہیں جبکہ ان کی تعداد۶۰ہونی چاہئے۔اب اگر کسی شعبہ میں انسانی وسائل کی مقدار پانچ گنا کم ہو تو اس سے حاصل ہونے والے فوائد بھی اسی شرح سے دھیمے ہوں گے اور نتیجہ یہ ہوگا زیر سماعت مقدمات کا پہاڑ اس قدر اونچا ہو جائیگا کہ اس کے تلے دب کر انصاف کی دیوی دم توڑ دے گی ۔مجرمین کے بری ہوجانے اور آزاد گھومنے کا ہی یہ اثر ہے کہ امانت کو اپنی ہوس کا شکار بنانے والےدرندوں کے دل میں اسے نیم برہنہ حالت میں سڑک پر پھینکنے کے بعدبس سے کچل دینے کا خیال بھی آتا ہے۔اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد دوسرے دن وہ سب حسب ِ معمول اپنے کام پر چلے جاتے ہیں گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہ سفاک درندے اس بات کو بھول گئے کہ ؎
تھرّاتے ہیں افلاک ، لرز اٹھتی ہے دھرتی
جب بھی کوئی مظلوم کہیں آہ کرے ہے

دہلی شہر نے اس بار خواتین پر ہونے والے مظالم کے باب میں نہ صرف ہندوستان کےدیگر شہروں بلکہ دنیا بھر کو مثلاً نیویارک ، لندن، پیرس اور بیجنگ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔خوش قسمتی سےیہ بدنام فہرست اسلامی دنیا کے ذکر سے خالی ہے۔نام نہاد ترقی یافتہ اور حقوقِ نسواں کے علمبردار ممالک اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ عصمت دری کی ابتدا چھیڑ خانی سے ہوتی اس بابت دہلی کی خواتین کا کہنا ہے کہ جب وہ پولس کے پاس شکایت لے کر جاتی ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے چھیڑا ہی ہے کوئی آبروریزی تو نہیں کی ۔ اس حوصلہ شکن رویہ کے باوجودگزشتہ ۱۱ ماہ میں دست درازی کی۶۲۴ شکایات درج ہوئیں اور ۷۶۸ ملزم گرفتار بھی ہوئے لیکن سزا کا حقدار صرف ایک بنا ۔ ۴۰۲ کے خلاف تفتیش کا کام جاری ہے اور ۳۵۶ کا معاملہ ہنوز معطل ہے ۔ اس سے علی الرغم خواتین کو طاقتور(بااختیار) بنانے کا سیاسی تماشہ گزشتہ ۱۶ برسوں سے کھیلاجارہا ہے۔ دو سال قبل ایوانِ بالا میں خواتین کیلئے ۳۳ فیصدنشستیں مختص کرنے کا بل پاس بھی ہو گیا لیکن ایوانِ زیریں نے اس کی ابھی تک توثیق نہیں کی ہے۔ اس بابت حزب اقتدار کے مختلف دھڑوں کے اندر بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پرسیاسی میدان میں خواتین فی الحال اہم ترین عہدوں پر فائض ہو چکی ہیں ۔ اس سربلندی نے مٹھی بھر خواتین کو آسودہ حال ضرور کردیا مگریہ عام خواتین کے کسی کام نہیں آسکی ۔

دہلی میں منموہن سنگھ وزیر اعظم ہیں لیکن سیاست کی ابجد سے واقف شخص بھی یہ جانتا ہے کہ مرکزی حکومت کی زمامِ کاراصلاً سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہے ۔ایوانِ زیریں میں حزب اختلاف کی رہنما محترمہ سشما سوراج ہیں۔ لوک سبھا اسپیکر کےمسندپر میرا کما ری براجمان ہیں اورریاستِ دہلی کی وزیراعلیٰ ایک عرصے سے شیلا دکشت ہیں۔ اس کے باوجود یہ سب مل کر دہلی کو عصمت دری کا دارالخلافہ بننے سے نہیں روک سکیں ۔تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جئے للیتا نے پچھلے دنوں عصمت دری کے روک تھام کی خاطر ۱۳ تجاویز مرکز کے سامنے رکھیں لیکن اسی دوران آبروریزی کےچار واقعات ان کی اپنی ریاست میں منظرِ عام پر آگئے ۔ جن میں ایک نابالغ لڑکی کی اسکول میں اور دوسری کی بس میں ہوس کا شکار بنایا گیا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث دو ملزم نابالغ ہیں۔ مغربی بنگال میں جہاں ممتا بنرجی کی حکومت ہے گزشتہ دنوں پانچ سے دس سال کی عمر والی چار لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ سامنے آیا ۔ اس سےقبل جب اس طرح کے واقعات ذرائع ابلاغ میں آئے تھے تو اس پر ممتا نے مظلومین سے ہمدردی جتانے کے بجائے ان واقعات کو اپنے خلاف اشتراکیوں کی سازش قرار دیا تھا۔ تین سال قبل جس وقت مایاوتی اترپردیش کی وزیراعلیٰ تھیں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری کا واقعہ رونما ہوا۔ مایا نے اس کی مدد کیلئے ۲۵۰۰۰ ہزار روپئے پولس افسر کے ذریعہ بھجوائے تو یوپی کانگریس کی رہنماریتا بہوگنا جوشی نے مایا پر سخت تنقید کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ریتا کا گھر پھونک دیا گیا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ خواتین سیاستدانوں کا اگر یہ حال ہے تو صدر مملکت پرنب مکرجی کے فرزند رکن پارلیمان ابھجیت مکرجی کابیان کہ یہ احتجاج کرنے والی سجی سجائی خواتین طالبات نہیں ہیں کسی حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔

آج زانیوں کیلئے ہر کوئی موت کی سزا کا مطالبہ کررہا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ گزشتہ سال ہندوستان کی خاتونِ اول صدرِ مملکت محترمہ پرتبھا پاٹل نے پانچ زانیوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتے ہوئے عدالت کے ذریعہ انہیں سنائی گئی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا تھا ۔ ان وارداتوں میں ایک پانچ سال کی لڑکی کی آبروریزی اور قتل کا معاملہ بھی تھا۔ سزامیں تخفیف کی سفارش وزارتِ داخلہ کی جانب سے کی گئی تھی۔ اس اقدام کی جرأت وزیرِ داخلہ نےسونیا گاندھی کی توثیق کے بغیر کی ہوگی یہ ناممکن ہے۔ اس پس منظر میں امانت کو انصاف دلانے کیلئے ہونے والے احتجاج میں مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے سونیا گاندھی کی یقین دہانی کہ ہم اس جرم کو نہیں بھولیں گے اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر رہیں گے بالکل کھوکھلی معلوم ہوتی ہے ۔اس افسوسناک صورتحال پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
اب کس پہ بھروسہ کریں ،کس سمت کو جائیں
جب قافلہ سالار ہی گمراہ کرے ہے

ہندوستانی دستور عصمت دری کا شکار خاتون کا نام لینے کی اجازت ذرائع ابلاغ کو نہیں دیتا اس لئے نہ جانے کس نے اس مظلوم لڑکی کا فرضی نام امانت رکھ دیا ۔ چند ناخلف نوجوانوں کے ذریعہ امانت میں خیانت نےقوم کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر دیا لوگ بے ساختہ سڑکوں پر نکل آئے اور ایوانِ اقتدار میں لرزہ طاری ہو گیا ۔پہلے تو احتجاج کی آگ کو پانی کی توپ سے بجھانے کی کوشش کی گئی مگر جب یہ شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے توامانت کو جلاوطن کرکے پردیس روانہ کردیا گیااور سیاسی بیان بازیوں کے ذریعہ زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی گئی اس کے بعد جب تمام حفاظتی تیاریاں پوری ہو گئیں تو اس کے بعد منصوبہ بند طریقہ پر امانت کی لاش کوآخرِ ہفتہ چھٹی کے دن ایوانِ اقتدار کی مکمل ناکہ بندی کے بعد واپس لاکر نذرِ آتش کر دیا گیا اور قوم کی امانت یہ کہتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوگئی ‘‘ بنت حوا میں یہ مرا جرم ہے۔ یہ مرا جرم ہے ۔ یہ مرا جرم۰۰
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1455714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.