ہندستان میں نئے سال کا آغاز
تحفظ نسواں کے ایک حساس موضوع پر بحث سے ہوا ہے۔یہ بحث مختلف پہلوؤں سے
جاری ہے۔ بہت سی کام کی باتیں کہی جارہی ہیں۔مگرسنگھ کے سربراہ شری موہن
بھاگوت کے ایک بیان نے اصل موضوع سے توجہ ہٹا کر ایک نئی بحث کو جنم دینے
کا کام کیا ہے۔ میزورم اور منی پور سے متصل آسام کے ضلع کچھار کے صدر مقام
سلچر میںانہوں نے کہہ دیا: ”بلاتکار بھارت میں نہیں ہوتا، انڈیا میں ہوتا
ہے۔“ اس کی یہ وضاحت کی گئی کہ اس طرح کے واقعات صرف شہروں میں پیش آتے ہیں
جہاں جدید معاشرت تیزی سے پنپ رہی ہے۔ دیہات اس لعنت سے محفوظ ہیں۔
یہ بات اسی صورت میں کہی جاسکتی ہے جب گاﺅں دیہات اور قبائلی علاقوں میں
عورت ذات پر ظلم اور زیادتیوں سے نگاہیں پھیر لی جائیں۔ زنااور جبری زنا کی
لعنت قدیم روایتی ہندستانی معاشرے میں بھی تھی اور ترقی کی چمک دمک سے
محروم علاقے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں ہیں۔یہ بات دیگر ہے کہ بڑے شہروں
میںرونما ہونے والے سنگین واقعات کی دھمک دور تک سنائی دیتی ہے جبکہ گاﺅں
دیہات کی بچیوں کی آوازیں ان کے گلوں میں رندھ کر رہ جاتی ہیں۔ عورت کے
ساتھ ظلم دور دراز علاقے میں ہو یا ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروںمیں ، ان
میں تفریق نہیں کی جانی چاہئے۔ رہی واقعات کی شرح ، تو اس کی کوئی اہمیت
نہیں، ایک واقعہ پیش آئے یا دس واقعات ، اس میں ہر ایک کی زد ایک عورت پر
پڑتی ہے وہ چاہے کوئی بھی ہو۔ ہر عورت ہماری قوم کا، ہماری جسم و جان کا
اسی طرح حصّہ ہے ،جس طرح ہماری اپنی ماں ، بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ عورت عورت
ہے، چاہے کسی عالیشان حویلی کی باشندہ ہو یا کسی بے نام و نشاں اور بے چھت
مکان میں اس کا مسکن ہو۔چنانچہ اللہ نے جس کو حساس دل دیا ہے وہ ہر ایک کی
تکلیف کو محسوس کریگا، اس میں تفریق کو سفاکی جانے گا۔
مسٹر بھاگوت نے جو بات کہی ہے اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ باتیں انہوں
نے کہاں جاکر کہیں؟ انہوں نے اپنا یہ خیال سلچر میں ظاہر کیا،جہاں کی شرح
خواندگی ہندستان کی مجموعی شرح 59.5فیصدکے مقابلہ کہیں زیادہ تقریباً 92
فیصد ہے ۔خواتین بھی خوب پڑھی لکھی ہیں ۔ ان کی شرح مردوں کی تقریباً
94فیصدکے مقابلے تقریباً 90 فیصدہے۔ اس سے متصل ریاستوںمیں بھی تعلیم عام
ہے اور اس میں عیسائی مشنری اسکولوں کا کردار بہت اہم ہے۔ عیسائی آبادی بھی
اچھی خاصی ہے۔ چنانچہ مسٹربھاگوت جب سلچر میں جاکر ” انڈیا“ کی تحقیر اور ”
بھارت “ کا گن گان کرتے ہیں تو ان کامقصد سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ان کے
پیش نظر ان سرحدی ریاستوںمیں آدی باسی بنام عیسائی و مسلم تفریق کو ثقافتی
بنیادوں پر ٹکراﺅ کا رخ دینا نہیں ہے؟آسام کے حالیہ مسلم کش واقعات کے پس
منظر میں یہ سوال بڑا اہم ہے۔
ہرچند کہ آر ایس ایس ”اکھنڈ“ بھارت اور ثقافتی (کلچرل) یک رنگی کے نعرے
لگاتی ہے اور اسی بنیاد پر یہ کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو بھارت میں رہنا
ہے تو اکثریت کے رنگ میں رنگ جانا ہوگا، مگر اب اسی نے ملک کو ثقافت (کلچر)
کی بنیاد پر دو خانوںمیں تقسیم کرنے کی طرح ڈا ل کرایک نئی ثقافتی جنگ کی
بنیاد رکھ دی ہے۔ اس بیان سے انہوں نے دراصل ہندستان میں اس بحث کا
احیاءکیا ہے ،جس کو یوروپ کے عیار دانشوروں نے ”دو تہذیبوں کے درمیان
مکالمہ“ کے عنوان سے چھیڑا تھااور جس کو”دو تہذیبوں میں ٹکراﺅ کا رنگ دیکر
” مغرب بنام اسلام “کی فکری وعسکری محاذ آرائی میں تبدیل کردیا۔ اسی نا
مسعود مکالمہ کے ناپاک بطن سے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ “نے جنم لیا، جس نے
دنیا بھرمیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فضا سازی کی اور ذہنوں کو اس حد تک
مسموم کردیاکہ امریکا جیسے روشن خیال ملک میں بھی منڈیز جیسی خواتین
مسلمانوں کی خون کی پیاسی نظر آنے لگیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ابھی چند
روز قبل ایک 31سالہ خاتون ایریکا منڈیز نے راہ چلتے ایک شخص کو ریل کے
سامنے دھکیل دیا تھا ، جس سے اس کی موت ہوگئی۔ اس نے پولیس کو بیان دیا ہے
کہ اس نے یہ حرکت اس لئے کی کہ وہ متوفی سنندا سین کو مسلمان سمجھی اور وہ
مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے۔
یہی سبق سنگھی فلسفہ ہندﺅں کو پڑھاتا ہے۔ چنانچہ ہم تہذیب اور ثقافت کی
بنیاد پرقوم کی کسی تقسیم کو ، چاہے وہ ہندو اور مسلم تہذیب کے نام پرہو یا
جدید اور قدیم کے نام پر ، مسترد کرتے ہیں۔
جہاں تک قدیم ہندستانی تہذیب پر بیرونی تہذیبوں کے اثرات کا سوال ہے تو یہ
کوئی انوکھی چیز نہیں۔ تہذیب و تمدن کسی جامد رویہ کا نام نہیں ۔ اس میں
وقت کے ساتھ تغیر و تبدل ایک ابدی حقیقت ہے۔ نہ ہر قدیم رویہ آج کے دور میں
قابل قبول اور مفید ہوسکتا ہے اور نہ مغرب سے آنے والا ہوا کا ہر نیا
جھونکا فرحت کا سامان مہیا کرسکتا ہے۔ چنانچہ غور اس پہلو سے کیا جانا
چاہئے کہ کون سے تبدیلی فرد، خاندان اور سماج کے لئے صحت مند اور مفید ہے
اور کونسی خلاف عقل و خلاف مصلحت شرف انسانی ہے۔جو عریانیت اور فحاشی مغرب
سے آرہی ہے اس کی مذمت و مزاحمت ضرور کیجئے، لیکن عقل و دانش کی ہر بات کو
اور جدید سائنسی فتوحات اور ٹکنالوجی کے فوائد کو کیسے مسترد کیا جاسکتا ہے؟
اب تو بھارت کا وہ منظر نامہ جس کی بھاگوت جی پیروی کررہے ہیں خود ان کے
کاریہ کرتاﺅں میں بھی نظر نہیں آتا۔ دفتر بھی ہائی ٹیک ہیں اور نیکر و شرٹ
بھی مغربی تہذیب سے مستعار ہیں۔ہرچند کہ انسانی حقوق اور خواتین کے لئے شرف
و وقار کی اولین پکار اسلام کی دین ہے ، اور محض عقیدت کی بنیاد پر
نہیںبلکہ عقل و دانش کی بنیاد پر جن کی معنویت و افادیت آج بھی مسلم ہے،
مگر گزشتہ دو صدیوں میں مغرب سے انسانی حقوق کی جو بیار چلی ہے اس کو مسٹر
بھاگوت کس طرح مسترد کرسکتے ہیں؟ منو اسمرتی کا بھارت اب کیسے چل سکتا ہے۔
شری بھاگوت سے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے وہ آخر کس بھارت کی بات کرتے ہیں؟
اس بھارت کی جس کا ذکر مہابھارت میں ہے؟جس میں جوئے میں بیوی کو ہارا
جاسکتا ہے، جس میںعورت ذات کا سرعام چیر ہرن کیا جاسکتا ہے ، جس میں سیتا
میا کو بھی اگنی پریکشا سے گزارا جاسکتا ہے؟آپ کو ہندستانی تہذیب پر اسلامی
اثرات سے بھی عار ہے اسی لئے مسلمانوں کو کثرت ازدواج کا طعنہ دیا جاتا ہے
حالانکہ قدیم ہندستان میں بھی کثرت ازدواج عام بات تھی۔ راجہ دشرتھ کی تین
بیویاں تھیں، راجہ مان سنگھ کی 12رانیاں اور درجنوں باندیاں تھیں۔ اتنا ہی
نہیں ایک بیوی کے ساتھ رکھیلیں بھی رکھی جاسکتی تھیں ، جس میں زنا کی برائی
کا کوئی تصور نہیں تھااور فقیر کو دان میں اپنی بیوی سے قربت کی اجازت دی
جاسکتی تھی۔ جس میں ہریجنوں ،آدی باسیوں کو انسان کا درجہ نہیں دیا جاتا
تھا اور ان کے سائے سے بھی بچاجاتا تھا ۔ جس میںلڑکی کا اٹھا لیجانا باعث
فخر جرم تھا، چنانچہ آج بھی باجے گاجے کے ساتھ بارات کا دستور اسی قبیح
ذہنیت کی یادگار ہے۔ جس میں شہوت زدگی کا یہ عالم تھا کہ بعض لوگوں نے اس
کو تقدیس کا جامہ پہنا کر مٹھوں اور عبادت گاہوں تک پہنچا دیا۔ بعض قدیم
مندروں کے درو دیواراس کے گواہ ہیں۔
بھاگوت جی اور ان کے قبیلے کو اسلامی اور مغربی تہذیت بڑی عار نظر آتی ہے۔
چنانچہ اندور میں انہوں اپنی تقریر میں پھر مسلمانوں سے کہا ہے وہ ہندو
تہذیب میں داخل ہوجائیں؟ ہمیں بتائے کی ہندو تہذیب کی جتنی اچھی قدریں ہیں
ان میں سے ہندستانی مسلمانوں نے کس سے عار کیا ہے۔ حتٰی کہ کچھ برائیاں بھی
قبول کرلیں، مثلاً برادری واد۔ اس وطن عزیز پر اگر مسلم تہذیب اور تعمیرات
کے آثار کو ہٹا دیا جائے تو یہ بتایا جائے کہ کیا بچے گا۔ مغرب کی ایک دین
ریلوے لائن کو ہی نکال دیجئے ہندستان کس مقام پر پہنچ جائے گیا؟
ان سے کہہ دو ہمیں خاموش ہی رہنے دیں وسیم
لب پہ آئے گی تو ہر بات گراں گزرے گی
البتہ مسٹر بھاگوت کا یہ مشورہ قابل توجہ ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر
ہے۔ ہم مغرب کی طرف جب نظر کرتے ہیں تو یہ تکلیف دہ صورت نظرآتی ہے کو عورت
کو بازار میں لائے جانے سے خاندان کا ادارہ بکھرگیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا
ہے مغرب کا انسان ایک ایسے ریگستان کے درمیان خود کو تنہا و تشنہ پاتا ہے
جس میںنہ ماں کی شفقت باقی رہی ہے، نہ بہن کی محبت کے جلوے اور نہ بیوی کی
وفاشعاری۔ صرف جنسی ہوس ہے اورہر طرف نفسانفسی اور خود غرضی کا دور دورہ ہے۔
خاندان صرف اور صرف عورت ذات کا ثمرہ ہے۔ عورت سے جب اس کی نسوانیت کو چھین
کر اسے کل کارخانے کا پرزہ بنادیا جاتا ہے تو پھر وہ اکائی ٹوٹ جاتی ہے جس
کو ہم خاندان کہتے ہیں۔ یہ خاندان ہی دراصل صحت مند معاشرے کی اکائی ہے۔
آخری بات: مغرب اور مشرق، قدیم اور جدید کے صحت مند عناصر اور رویوں کا
اتصال ہی ترقی اور بہتری کی شاہ کلید ہے۔ نہ مسٹر بھاگوت کے’ بھارت‘ کو
آدرش بنایا جاسکتا ہے اور نہ مغرب زدگی کو اپنی معراج سمجھ لینا چاہئے۔
آج جو ماحول بن رہا ہے وہ دین محمدی کے علمبرداروں کے لئے ایک نیا چیلنج لے
کر آیا ہے۔دنیا آج ان اقدار کی پیاسی ہے جن کی تعلیم قرآن اور رسول کی سنت
نے 14صدی قبل دی تھی۔ مگر ہم نے ان تعلیمات کے چشمہ صافی یعنی قرآن اور سنت
کو پس پشت ڈال دیا اور فقہی موشگافیوں میں دین کی صاف تصویر کو دھندلا دیا۔
اس پر خدا غضب نہ نازل ہوگا تو اور کیا ہوگا جو قرآن کے واضح احکامات کے
ہوتے ہوئے بھی حرام اور حلال کا فیصلہ دیگر پیمانوں سے کرتا ہے اور خود
عالم دین بتاتا ہے؟ دعوا یہ ہے ہم ایمان اللہ پر ، اس کی آخری کتاب پر اور
اس کے آخری رسول پر رکھتے ہیں، لیکن جب معاملہ کی بات آتی ہیں تو کہتے ہیں
دیکھو فلاں مدبر نے یہ لکھا ہے ، فلاں حاکم نے یہ کیا اور فلاںنے یہ رائے
دی ہے، قرآن کے فرمان سے زیادہ اہمیت اس کی ہے؟ کیا قرآن کے بعد کسی اور
کتاب کی بات اور رسول کے ارشاد اور عمل کے بعد کسی اور کے طریقہ پر اصرار
اور تبلیغ سے لوگوں کے دل نہیں دہلتے ہیں؟ انہوں نے اپنا ٹھکانا کہاں بنانے
کی ٹھانی ہے؟(ختم) |