راجہ ماجد جاوید علی بھٹی
”1984ءکی ایک رات بارہ بجے کے بعد مجھے بیرون ملک سے فون آیا کہ کثیر تعداد
میں طیارے اسرائیل سے برصغیر کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ ہم اس عیارانہ گٹھ
جوڑ سے باخبر تھے میں نے فوراً بلا تاخیر وائس چیف آف ایئر سٹاف ایئر مارشل
جمال کو پاک فضائیہ کو ہائی الرٹ کرنے کا کہا میں نے صدر مملکت کو آگاہ کیا
اور ٹرامبے پر جوابی حملے کی اجازت مانگی۔ صدر نے منصوبے کی منظوری دیدی۔
رات دو بجے پاک فضائیہ کے 80 فیصد ارکان اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے تھے اور
اپنی پوزیشنیں سنبھال چکے تھے اور طیاروں کی خاصی تعداد قومی اثاثوں کی
حفاظت کے لئے فضاءمیں محو پرواز تھی میں نے ایئر ڈیفنس کمانڈ کو اسلام آباد
کے اوپر چند نچلی اور درمیانی سطح کی پروازوں کی ہدایت کی۔ اسی دوران اسلام
آباد سے بھارت کی اس احمقانہ مہم کو ختم کرنے کے لئے کسی نے ٹیلیفون پر
بھارت سے رابطہ کیا کیونکہ پاک فضائیہ مکمل چوکس اور تیار تھی نتیجتاً حملہ
آور واپس ہو گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ نہ سمجھ پائے کہ بھارت نے یہ
اسرائیلی منصوبہ کیوں منظور کرلیا کیونکہ اس صورت میں زیادہ نقصان بھارت کو
ہی برداشت کرنا تھا۔ ایسا ہونے کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے کھلم
کھلا جوابی کارروائی کی وضاحت کردی تھی بہرحال ہمیں خوشی ہے کہ بہتری کے
طور پر کسی نے متعلقین کو اس غیر معقول مہم کو ختم کرنےکا مشورہ دیا“۔
یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ اس واقعہ کا تذکرہ مرحوم ایئر چیف مارشل انور شمیم
اپنی کتاب "The Cutting Edge" میں کرتے ہوئے بیان کرتے کیا۔ 4جنوری 2013ءکو
پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر چیف مارشل انور شمیم اس دنیا سے رخصت ہو
گئے تو اس موقع پر مجھے ایک شعر یاد آ رہا ہے
کچھ ایسے بھی اُٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈتے پھرو گے مگر پا نہ سکو گے
ایئر چیف مارشل انور شمیم یکم اکتوبر 1931ءکو ہری پور میں ایک علمی گھرانے
میں پیدا ہوئے۔ 1950ءمیں رائل پاکستان ایئر فورس میں بطور جنگجو ہوا باز
شمولیت اختیار کی اور اسی کا آپ کو بچپن سے جنون کی حد تک شوق تھا۔ انہوں
نے مختلف بیسز کی نہایت شاندار قیادت کی جن میں سکیسر، کورنگی کریک اور
مسرور شامل ہیں۔ 60ءکی دہائی کے آخر میں وہ اردن کے شاہ حسین کے دو سال تک
فضائی مشیر رہے ۔ 1965ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں میں آپ نے بھرپور حصہ
لیا۔ 1965ءکی جنگ میں آپ کی بے مثال کارکردگی کے اعتراف میں حکومت پاکستان
نے انور شمیم کو ستارہ جرا ¿ت کے اعزاز سے نوازا۔ 1975ءمیں آپریشنز برانچ
کے سربراہ بننے سے قبل ایئر چیف مارشل پلانز اور آپریشن برانچز ایئر ہیڈ
کوارٹرز میں کئی کلیدی عہدوں پر رہے۔ 47سال کی عمر 23جولائی 1978ءکو پاک
فضائیہ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ آپ نے سات سال تک اس عہدے پر اپنی ذمہ داریوں
کو بہ احسن و خوبی سرانجام دیں۔ 5مارچ 1985ءکو آپ پاک فضائیہ کی قیادت سے
سبکدوش ہوئے۔
اندرون ملک اور بیرون شدید مخالفت کے باوجود جس کا ذکر ان کی اپنی خود نوشت
"The Cutting Edge"میں ہے پاکستان ایئر فورس میں ایف 16- کی شمولیت شاید
اور شمیم کی سب سے نمایاں کامیابی ہے جس کا سہرا ان کی ذات کے سر ہے۔ تاہم
ہمارے قومی وسائل کثیر تعداد میں ایف16- رکھنے کے متحمل نہیں تھے۔ طویل اور
پھیلی ہوئی جنگ میں تعداد کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ معاشی طور پر موزوں
اور قابل اعتماد اے 5- طیارے بھی ایف 86- کے متبادل پاکستان ایئر فورس میں
شامل کیے گئے۔ اس کے علاوہ جدید ہتھیاروں سے مسلح میراج طیاروں کے دو
سکواڈرنز قائم کیے گئے۔ ایک دوسری بے مثال کامیابی جو انور شمیم کے دور میں
حاصل کی وہ بحری جہازوں کے خلاف بحر ہند کے گہرے سمندر میں صلاحیت کا حصول
تھا جو تاریخ میں پہلی بار پاک فضائیہ میں ایئر چیف کی زیر قیادت ایک دوسری
شاندار کامیابی فلائیٹ سیفٹی کے شعبہ میں ہوئی ان کی ذاتی دلچسپی کے باعث
پاک فضائیہ کے سیفٹی پروگرام میں ترقی کے رجحان کا مسلسل اضافہ ہوا اور پی
اے ایف نے ایئر چیف کا مقرر کردہ ہدف آل ٹائم لو ایکسیڈنٹ ریٹ، اپنی تاریخ
میں پہلی مرتبہ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم فیصلہ ایئر چیف نے ایئر
ہیڈ کوارٹرز چکلالہ منتقل کرنے کیا۔ |