یعقوب خان جو صدر آزاد کشمیر
ہونے کے ناطے آزاد کشمیر کی تمام یونیورسٹیز کا چانسلر بھی ہیں انہوں نے جب
پونچھ یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تو اس وقت اس یونیو رسٹی کا پی سی ون
بھی منظور نہ تھا گو کہ پی سی ون کا منظور ہونا ضروری تھا لیکن یعقوب خان
نے ان بنیادی پہلوﺅں کے بارے میں جاننا زیادہ اہم نہ سمجھا اور یونیو رسٹی
کے قیام کا اعلان کر دیا ۔ ا ±س وقت صدریعقوب خان کا یہ اقدام پونچھ کے
عوام کیلئے کسی بڑے اعزاز سے کم نہ تھا ۔وائس چانسلر ڈاکٹر منظور اور انکی
ٹیم جس میں رجسٹرار یونیورسٹی ڈاکٹر جمیل ،تنظیم اساتذہ پاکستان کے اہم ذمہ
دار پروفیسر تصدق جیسے ماہر لوگ موجود ہیں ۔اس انتظامیہ کو اس وقت سخت
چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ چانسلریونیورسٹی یعقوب خان جہاں
یونیورسٹی کا قیام تو کروا چکے ہیں وہاں وہ یونیورسٹی کو اس کی بنیادی و
اہم ضرورت 'ٹیک آف گرانٹ ' جو قریباً 10کروڑ روپے بنتی ہے دلوانے میں تاحال
ناکام رہے ہیں ۔ بات ٹیک آف گرانٹ پر ہی آ کر ختم نہیں ہو جاتی صدر یعقوب
خان نے کشمیر کونسل سے پونچھ یونیورسٹی کو 5کروڑ روپے دلوانے کا اعلان بھی
کیا تھا وہ اعلان اب تک صرف ایک اعلان ہی ہے ۔ گزشتہ ماہ جب آزاد جموں و
کشمیر مظفر آباد یونیورسٹی سے پونچھ کیلئے گرانٹ جو اس کے اپنے حصے کی تھی
کو منتقل کیا گیا تو متعصبانہ ذہنیت والوں نے اس پر بھی سیاست بازی شروع کر
دی۔ یونیورسٹی کا پی سی ون ابھی تک ہائر ایجوکیشن سے منظور ہی نہیں ہوا جس
کو منظور کروانے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ ابھی سر دھڑ کی بازی و بھرپور
زورلگا رہی ہے ، اس گرانٹ کے نہ ملنے سے یونیو رسٹی کا اندرونی مالیاتی
نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ،دوسری طرف ایرا کے زیر نگرانی راولاکوٹ شہر سے
10کلو میٹر دور چھوٹا گلہ کے مقام پر یونیورسٹی کی جو عمارت بن رہی ہے وہ
انتہائی سست روی کا شکار ہے کام میںس ±ست روی کی اصل وجہ وہاں کام کرنے
والے ادارے کی من مانی ا ور کرپشن بتائی جاتی ہے۔
ضروری گرانٹ نہ ملنے کی وجہ سے پونچھ یونیورسٹی کیلئے اس وقت چیلنجز ہی
چیلنجز ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام کے وقت سے ہی اس کو اپنی مدد آپ پرچلنے
کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دینے سے بہت سے نقصانات سامنے آرہے ہیں اوپر سے
المیہ یہ کہ اس یونیورسٹی کو بھی دیگر تعلیمی اداروں کی طرح جیالوں کا
بھرتی کیمپ بنا دیا گیا ہے اس کو تعلیم کے ساتھ ستم ظریفی نہ کہیں تو کیا
کہیں کہ پونچھ کی دھرتی کے اس اہم تعلیمی ترین ادارے میں بھی دیگر غیر
تعلیمی اداروں کی طرز پر درجنوں جیالوں کو بھرتی کیا گیا ہے اور ابھی مزید
سینکڑوں جیالوں کی بھرتیاں کی جانی باقی ہیں کیونکہ یونیورسٹی نے ابھی بہت
سے ڈیپارٹمنٹس شروع کرنے ہیں یونیورسٹی انتظامیہ اگر ایک ہی نیا ڈیپارٹمنٹ
متعارف کرواتی ہے تو اس کیلئے 20سے 30تک ملازمین چاہیے ہوتے ہیںاس سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی میں جو 10سے 12نئے شعبے متعارف
کروائے جانے والے ہیں ان میں کتنے مزید لوگ ایڈجسٹ کرنے کیلئے پر تولے جا
رہے ہوں گے۔ جیالے تو تاک میں بیٹھے ہیں کہ جیسے ہی کوئی پوسٹ سامنے آئے
صدر ریاست سے براستہ پولیٹیکل سیکریٹری معاملات طے کرتے ہوئے اپنا جوائننگ
لیٹر حاصل کر لیں ۔ خداراہ جیالہ نوازی کیلئے یونیورسٹیوں کو نشانہ نہ بنا
یا جائے ورنہ اس کا انجام بھیانک ہو گا اس سنجیدہ نوعیت کے معاملے میں
تعلیم یافتہ طبقے سے بھی یہ گزارش کروں گا کہ آپ بھی سامنے آئیں اور علم کو
بچانے کیلئے ایسے اقدمات کی نفی کرتے ہوئے ایسے نوسرباز طبقے سے تعلیمی
اداروں کو بچائیں کیونکہ مہذب معاشروں میں تعلیم کا میدان ایسے لوگو ں
کیلئے سجایا نہیں جاتا جن کا خود تعلیم سے کوئی تعلق بھی نہ ہو اور جو خود
کرپشن کے راستے سے آئے ہوں۔رجسٹرار یونیورسٹی کا نئے پروفیسرز کی تعینا
تیوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ مشروط طور پر ایسے قابل پروفیسرز کو ایڈجسٹ
کریں گے جن کی تعلیمی قابلیت ایم ایس /ٰٓایم فل سے کم نہ ہوں ۔اللہ کرے کہ
سیاسی مداخلت ان کے سامنے نہ آئے اور وہ میرٹ پر تعیناتیاں کر سکیں ۔
دوسری طرف یونیورسٹی طلباءپر فیسوں کی مد میں مسلسل اضافی بوجھ پڑ رہا ہے
جس وجہ سے طلباءکے شدید تحفظات سامنے آر ہے ہیں ،بھاری فیسوں کی وجہ سے
یونیورسٹی میں نئے آنے والے طلباءہچکچاہٹ کا شکار ہیںاسی وجہ سے یونیورسٹی
انتظامیہ کو بی ایس پروگرام ناکام ہونے پر اس پروگرام کو فلوقت روکنا پڑ ا
۔یونیورسٹی ہاسٹل نہ بنا سکی۔طلبہ ہوڑٹلز پر طالبات کیلئے جو ہاسٹل مہیا
کیا گیا ہے وہ ناکافی اور انتہائی غیر موزوں جگہ پر ایک جیل کی مانند ہے ۔یونیورسٹی
طلباءکیلئے تاحال ٹرانسپورٹ کا انتظام موجود نہیں ایک ہی بس طالبات کیلئے
چلائی جا رہی ہے جس کی حالت مردہ گھوڑے کی مانند ہے جوناکافی بھی ہے ۔
یونیورسٹی کے فیکلٹی آف وٹرنری اینڈ انیمل سائینسز سے ڈ اکٹر آف وٹرنری (
ڈی وی ایم )پروگرام پر گزشتہ کچھ سالوں سے سوالیہ نشان ہے کہ اسکی پاکستان
وٹرنری میڈیکل کونسل ( پی وی ایم سی) سے اکریڈیشن کیلئے یونیورسٹی متعلقہ
معیار پر نہیں اتر رہی ،بتایا جاتا ہے کہ (پی وی ایم سی) سے اکریڈیشن کیلئے
یونیورسٹی کو قریباً 6کروڑ روپے درکار ہیں کیونکہ قریباً 2کروڑ روپے سے ڈی
وی ایم ہسپتال اسکے چاروں ڈیپارٹمنٹ کیلئے ضروری سامان پر قریباً 3کروڑ
روپے اور( ڈی وی ایم) لیبارٹری و لائبریری بنانے کیلئے قریباً 1کروڑ روپے
ہر حالت میں چاہیے ہیں۔
50سے 80طلباءکیلئے انجنئیرنگ کروانے کا (این ۔او۔ سی) منظورہونا خوش آئندہے
۔ اس کامیابی میں راولاکوٹ کے معروف کاروباری گروپ ' گلف ایمپائر ' نے
یونیورسٹی سے تعاون کیا ہے ۔گلف ایمپائر والوں کو مثال بناتے ہوئے پونچھ کے
دیگر کاروباری حضرات کو بھی چاہیے کہ یونیورسٹی کو بنیادی سہولیات پہنچانے
کیلئے تعاون کریں ۔ پونچھ یونیورسٹی انتظامیہ نے ابھی مزید 12 مختلف
ڈیپارٹمنٹس جن میں باٹنی ،زوالوجی ،کیمسٹری ،فزکس اور میتھ کے 4سالہ آنر
پروگرامات متعارف کروائے ہیں جبکہ سوشل سائینسز میں ایم ایس سی لیول کے
فارمیسی ،سوشیالوجی،اکنامکس ،انگریزی ،الیکٹریکل و سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں
داخلے شروع کیے ہیں یونیورسٹی کا ان پروگرامات کا شروع کرنا انتہائی خوش
آئند ہے کیونکہ پونچھ و قریب کے دوسرے اضلاع کے طلباءکو اب پاکستان کے دور
کے شہروں میں جا کر بھاری رقوم خرچ کر کہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اپنے
خطہ میں کم خرچ میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل رہے ہیں ۔ |