تحریر : محمد اسلم لودھی
سوائے نبی کریم ﷺ کے دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں آیا جس کا کوئی استاد نہ
ہو ۔انسان سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن ماں اور استاد کو کبھی نہیں بھولتا
بلکہ زندگی بھر استاد کی باتیں ذہن میں گونجتی رہتی ہیں۔ دوسرے لفظوں
میںاستاد انسانی اخلاقیات کو سنوارتے ہوئے انسان کو معاشرے میں زندہ رہنے
کے رنگ ڈھنگ سیکھاتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ
جس شخص سے ایک لفظ بھی سیکھا ہو وہ استاد کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے اور
استاد کا احترام ہر انسان پر واجب ہے۔ ایک مرتبہ اٹلی میں قیام کے دوران
ممتاز رائٹر اشفاق کا ٹریفک چالان ہوگیا عدالت میں پیشی کے دوران جب اشفاق
احمد نے جج کو بتایا کہ وہ استاد ہیں اور ٹریفک کی خلاف ورزی انہوں نے
دانستہ نہیں کی تو جج سمیت عدالت میںموجود ہر شخص استاد کے احترام میں کھڑا
ہوگیا اور جرمانہ کئے بغیر آپ کو چھوڑدیا گیا میں سمجھتا ہوںجو قومیں
اساتذہ کا احترام کرتی ہیں وہ دنیا میں ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ عزت و
احترام بھی حاصل کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں استاد کونہ تو عزت و
احترام حاصل ہے اور نہ ہی ملازمتوں کو مالی اعتبار سے پرکشش اور تحفظ فراہم
کیاجاتا ہے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ پاکستان میں استاد ہر حکومت کے
زیر عتاب رہا ہے کبھی نئی روشنی سکیم تو کبھی لٹریسی پروگرام کے تحت
انتہائی کم تنخواہ پر اساتذہ کو ملازم رکھا جاتا ہے پھر حکومت تبدیل ہوتے
ہی اساتذہ کرام سے ملازمتیں چھین کر بے روزگاری کا پٹہ گلے میں ڈال کر
سڑکوں پر دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دیاجاتا ہے ۔حکمرانوں کو اس بات سے غرض
نہیں ہوتی کہ قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اپنے اہل خانہ کو کیا
کھلائیں گے اور کیسے خود کو زندہ رکھیں گے ۔ اب دانش سکولوں کے نام سے ایک
نیا پروگرام کا آغاز ہو چکا ہے جہاں ایچی سن کالج طرز کی تعلیمی سہولتوں کی
فراہمی کے چرچے ہیں لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آنے والی حکومت دانش
سکولوں کے پراجیکٹ کو جاری و ساری رکھے گی جبکہ باقی ماندہ سرکاری سکولوں
اور ان کے اساتذہ کے ساتھ جو سوقیانہ بلکہ توہین آمیز رویہ اختیار کیا
جارہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے غلط
اقدامات کی سزا تو اساتذہ کرام پوری زندگی بھگتتے ہی رہتے ہیں لیکن پولیس
اور معاشرے کے بااثر افراد کے ہاتھوں بھی ان کے ساتھ انتہائی توہین آمیز
سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی مثال ان دنوں سرگودھا کے مغرور زمیندار اسلم
مڈھیانہ اور ٹیچر نفیس احمد خان لودھی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔
پرائیویٹ سکول جو اب برسات کی کھمبیوں کی طرح ہر چھوٹے بڑے شہر میں اگے
دکھائی دیتے ہیں وہ تعلیمی سہولتوں کے فقدان کے ساتھ ساتھ دو تین ہزار روپے
ماہانہ تنخواہ اور سخت شرائط پر ملازم رکھ کر تعلیم یافتہ طبقے کی توہین
کرتے ہیں بچوں سے کتنی بھاری فیس لیتے ہیں اور ٹیچر کو کیا تنخواہ دیتے ہیں
انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیاہوگی کہ عدلیہ
اور پولیس والوں کے تنخواہوں کوتو ڈبل کردیاگیا جو پوری قوم کی توہین کرتے
ہیں لیکن وہ اساتذہ جو نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کرتے ہیں انتہائی کم
تنخواہ پر نہ صرف انہیں ملازمت کرنے پر مجبور کیاجاتا ہے بلکہ کنٹریکٹ کی
صورت میں بے روزگاری کی تلوارسر پر لٹکتی رہتی ہے ۔ گویا الیکشن کا زمانہ
ہو یا مردم شماری کا کام اساتذہ کو توہین آمیز سلوک سے عہدہ برآ ہونا پڑتا
ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی روشنی سکیم ہو ، لٹریسی پروگرام یا دانش
سکول ایسے منصوبوں کو آئینی تحفظ فراہم کرکے ملازمین کی ملازمتوں کو نہ صرف
مستقل معاشی تحفظ فراہم کیاجائے بلکہ اساتذہ کی تنخواہوں کو مہنگائی کے
تناسب سے پولیس ملازمین کی طرح دوگنا کرکے انہیں معاشرے میں عزت و احترام
کا وہ مقام دیاجائے جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں بے توقیر ہونے سے بچایا ۔سوچنے
کی بات یہ ہے کہ اگر معاشرہ اور ادارے استاد کی عزت نہیں کریں گے تو وہ قوم
کے نوجونوں کی ذہنی تربیت اور نشوو نما کس طرح کریں گے ۔ |