پیغمبر اعظم ﷺ کی آمد اور بشارتوں کے نقیب

ایک انقلاب آیا۔ 12ربیع الاول کی صبح کو کائنات کو امن و آشتی کا وہ پیغام ملا جس کی مثال عالمِ دہر میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب کی بشارتیں ان عظیم پیغمبروں نے دی جنھوں نے اپنے اپنے عہد میں انسانیت کی برہم زلفوں کو سنوارا۔ انسانیت کو توحید باری کی طرف بلایا۔ درسِ بندگی سکھایا۔انبیاے کرام کی جلوہ گری کسی علاقے میں ہوئی، کسی قوم کی پدایت کو نبی تشریف لائے اور خلقِ خدا کو گمرہی کے اندھیرے سے نکال کر ایمان کی شاہراہ پر گامزن کیا، حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے اپنی دعوت کے بارے میں فرمایا تھا:”میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔“ (متی ب51/24)

لیکن جب کائنات میں آکری نبی پیغمبر اعظم ﷺ کی جلوہ گری ہوئی تو حکم الٰہی سے محبوب الٰہی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ اِلَیکُم جَمِیعًا (پ۹،ع10) ”اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں“....اس آفاقی دین کی تکمیل آقائے کونین ﷺ کی آمد آمد سے پوری ہوئی۔ کعب بن لوی جو عربی کا بڑا شاعر تھا وہ تمناے دل کو اس طرح بیان کرتا ہے:
یالیتی شاھداً فحواءدعوتہ
حین العشیرة تبغی الحق خذلانا

ترجمہ: اے کاش میں اس کی دعوت کے وقت زندہ رہتا، جب کہ اس کے اہل خاندان حق کی اعانت سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔ (ضیاے حرم نومبر 1987ئ،ص13)

جب کہ پیغمبر اعظم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری نہیں ہوئی تھی۔ انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو خاتم الانبیا کی آمد آمد کی بشارت سنائی۔ دیکھیے دیکھیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیا فرماتے ہیں۔انجیل برنباس(The Gospal of Barnabas) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے خدائی پیغام بیان کیا گیا ہے: ”جب میں آپ کو دنیا میں بھیجوں گا تو اپنا رسول نجات بنا کر بھیجوں گا اور آپ کا کلام ایسا سچا ہوگا کہ زمین و آسمان فیل ہو سکتے ہیں لیکن ترا دین کبھی فیل نہ ہو گا، آپ کا مبارک نام محمد ہے۔“ (مرجع سابق جنوری 1984ءص17) اسی میں ایک اور مقام پر حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے ہے:
”آپ کا بیٹا جو عرصہ دراز کے بعد دنیا میں تشریف لائے گا اور میرا رسول ہو گا، جس کی خاطر میں نے ساری چیزیں پیدا کی ہیں، جب وہ آئے گا تو دنیا کو نور بخشے گا جس کی روح تخلیقِ کائنات سے ساٹھ ہزار برس پہلے ملکوتی شان میں رکھی گئی تھی۔“ (نفس سابق) مفتی اعظم علامہ مفتی مصطفی رضا نوری فرماتے ہیں
کیسا تاریک دنیا کو چمکا دیا
سارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے انجیل یوحنا کے باب 16 کی ورس7 14 میں ہے:
”یہ اس لیے ہوا کہ وہ قول پورا ہو جو ان کی شریعت میں آیا ہے کہ انھوں نے مجھ سے بے سبب عداوت کی لیکن جب فارقلیط آئے گاجس کو میں تمہارے پاس (؟) کی طرف سے بھیجوں گا یعنی روحِ حق جو (؟) کی طرف سے نکلتی ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔“ (یوحنّا 15:25۔26) [راقم نے قوس میں جو علامت’؟‘ لگائی ہے وہاں عیسائیوں نے خدا کے لیے ’باپ‘ کا لفظ لکھا ہے۔جو درج کرنا مناسب نہیں۔]

فارقلیط (Parakletos ) کے معنی ہیں بہت تعریف کیا گیا جو لفظ ”احمد“ کا مترادف ہے، اور یہاں بشارت آمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی واضح ہے۔

ورقہ بعثتِ نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے انتظار میں تھے، انھوں نے بہت سی بشارتیں سنیں، وہ ضیاے کونین کی جلوہ باری کا اس طرح بیاں کرتے ہیں:
ویظہر فی البلاد ضیاءنور
یقیم بہ البریة ان تموجا
ترجمہ: ہر طرف اس کے نور کی روشنی پھیل جائے گی جس میں لوگ گم راہی سے بچ کر صحیح راستے پر آجائیں گے۔

حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام مصائب کے وقت اور امتحان کے وقت اسی عظیم ذات کا وسیلہ لیتے،اپنی قوم کو کیسی آفاقی تنبیہ فرما رہے ہیں جس میں قبولِ حق کا پیغام بھی ہے اور اطاعت کا درسِ محبت بھی:”اے میری قوم کے لوگو! جب وہ میرا مثیل نبی آئے تو اس کی اطاعت کرنا، اس کی پیروی میں عار نہ سمجھنا۔“....اسی میں اللہ کریم کا یہ حکم بھی درج ہے: ”میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تجھ (یعنی موسیٰ علیہ السلام) سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منھ میں ڈالوں گا۔“ (استثنا،18۔19)

قرآن مقدس کی اس آیہ مبارکہ میں کلام الٰہی بزبانِ مصطفی ﷺ کا جلوہ نظر آتا ہے، ملاحظہ کریں ارشاد ربانی: وَمَا یَنطِقُ عَنِ الھَوٰی o اِن ھُوَاِلَّا وَحی یُّوحٰی o (سورة النجم:۳۔۴)
ترجمہ:اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی جاتی ہے“ (کنزالایمان)

یہ کیسی حیرت زا بات ہے کہ آخری نبی ﷺ کی ولادت نہیں ہوئی ہے لیکن کونین میں آمد کے ڈنکے بجائے جارہے ہیں، بشارتیں دی جا رہی ہیں، بشارتوں کے نقیب عظمت نبوی کے پھریرے کائنات میں لہرا رہے تھے
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

اللہ کے پیغمبر حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام فرماتے ہیں: ”خلو محمد یم زہ دودی زہ رعی۔“ (تسبیحات سلیمان پ۵/12، بحوالہ ضیاے حرم جولائی1972ء) یعنی ”وہ ٹھیک محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہیں وہ میرے محبوب ہیں اور میری جان۔“

حضرت یحیٰ علیہ السلام نبوی شان بیان فرماتے ہیں: ”جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زور آور ہے، میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لایق نہیں، وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا، اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ کھلیان کو خوب صاف کرے گا۔“ (انجیل متی، بحوالہ ایضاً)

حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مبارک ہیں وہ تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ سدا تیری حمد کریں گے، وہ بکہ (مکہ) سے گزرتے ہوئے ایک کنواں بناتے ہوئے۔“ (زبور باب84، بحوالہ ایضاً)

بشارتیں سنائی جاتی رہیں۔ آمد کی مبارک گھڑیوں کی یاد دلائی جاتی رہیں۔ سُہانی گھڑی کے چرچے کیے جاتے رہے،دیکھو دیکھو قرآن عظیم بشارتوں سے پھرنے والوں کے بارے میں کیا کہتا ہے:
”اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر“ (سورةالبقرة:89)

جب کائنات میں اس نور حق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد ہوئی تو اس رحمت کاملہ پر خوشی منانے کا حکم رب تعالیٰ نے دیا:
”تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔“ (سورہ یونس:58)

محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی نہ منانے یعنی نعمت کی یاد سے غافل ہونے والوں کے لیے فرمایا گیا:
”اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کر سکو گے بے شک آدمی بڑا ظالم بڑا نا شکرا ہے۔“ (ابراہیم:34)

آمدِ سید عالم ﷺ کی بشارتیں سُنائی جاتی رہیں۔ اتنا کچھ اہتمام کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین کہ وہ عظیم پیغمبر اس شان سے جلو گر ہوا۔ جس کی آمد سے ظلم کے ایواں میں زلزلہ آگیا، حق تلفی کا خاتمہ ہو گیا۔
انسانیت کو حیاتِ جاوداں مل گئی۔ حقوق کی بحالی ہوئی اور دہشت گردی کی پسپائی ہوئی۔ وہ ابررحمت بن کر آئے۔ ان کا آنا بھی رحمت، ان کا چلنا بھی رحمت، ان کا تکلم و تبسم بھی رحمت۔ پھر اس رحمت پر خوشی کیوں نہ منائی جائے گی۔ اللہ کے شکر میں ساری دنیا کے مسلمان صدیوں سے خوشی و مسرت میں اسلامی شان کے ساتھ جشن مناتے چلے آئے ہیں۔ یہ ایمانی عمل برابر جاری ہے۔ اور اس کے ذریعے اتحادِ اسلامی کا عظیم نمونہ دنیا کودیکھنے کو ملتا ہے۔٭٭٭
Gulam Mustafa Razvi
About the Author: Gulam Mustafa Razvi Read More Articles by Gulam Mustafa Razvi: 277 Articles with 281507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.