کام اور اچھا استاد

قائداعظم نے کہا تھا ”کام کام اور کام “ مگر ہم نہیں مانتے اور کیوں مانیں۔ اس لیے کہ جتنا کام زیادہ کریں گے۔ غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی۔ کام کم کریں گے تو غلطیاں بھی کم ہوں گی اور سب سے خوبصورت یہ کہ اگر کام نہ کیا جائے تو غلطی کا جانس ہی نہیں رہے گا۔ خصوصاً یہ نسخہ سرکاری ملازمین کے لیے انتہائی مناسب ہی نہیں بہترین ہے۔ جو سرکاری ملازم کام نہیں کرتا۔ غلطی نہیں کرتا اور جب غلطی نہیں کرتا تو اس کی ACRخراب نہیں ہوتی اور ACRخراب نہ ہو تو ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی اور ترقی تو ہر سرکاری ملازم کی خواہش اور خواب ہوتا ہے۔

کالج میں ہمارے ایک سینئر ساتھی تھے۔ انتہائی جہاندیدہ اور زیرک۔ مجھے کلاس لینے کے لیے اُن کے کمرے کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بڑے پیار سے آواز دیتے اور اپنے ساتھ چائے پینے کی دعوت دیتے۔ میں معذرت کرتا کہ کلاس ہے رک نہیں سکتا۔ وہ بضد ہوتے کہ چھوڑو۔ کلاس کی پرواہ نہ کرو۔ اکٹھے بیٹھ کر چائے پینا بہت ضروری ہے۔ پھر راز دانہ لہجے میں اپنی عالمانہ گفتگو سے مستفید فرماتے کہ پتہ ہے حضرت قائد اعظم ساری عمر جاگتے رہے اور اُن کی قوم سوتی رہی اور آج بھی سو رہی ہے۔ گاندھی ساری عمر سوتے رہے اور اُن کی قوم جاگتی رہی، آج بھی جاگ رہی ہے جس کی وجہ سے بھارت ہم سے بہتر جمہوری ملک ہے اور اقتصادیات میں بھی ہم سے بہت بہترہے ۔ یعنی اصول یہ ہوا کہ لیڈر جاگے تو قوم سوتی ہے۔ اور لیڈر سوئے تو قوم جاگتی ہے۔ یہی اصول اپناﺅ گے تو بہتر رہو گے۔ تم پریشان رہو گے اور ہر وقت پڑھانے کے لیے بے چین تو بچے مطمئن ہوں گے اور پڑھائی سے بے نیاز۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارا رزلٹ خراب ہو جائے اور اگر تم مطمئن ہو جاﺅ۔ کبھی کبھار کلاس میں جاﺅ۔ تو دیکھو بچے پریشان ہوں گے۔ اپنی کمی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کریں گے۔ پرائیویٹ اساتذہ یا ٹیوشن سنٹرز کا رخ کریں گے۔ اُن کی تیاری بہتر ہو گی۔ رزلٹ بہتر آئے گا۔ اور بہتر رزلٹ تو استاد ہی کی بہتر کارکردگی شمار ہوتی ہے ۔ کسے خبر کہ بچے نے اپنے استاد سے پڑھا ہے یا کسی پرائیویٹ استاد یا ٹیوشن سنٹر سے۔ بہتر کارکردگی کے لیے سو جاﺅ۔ ہمارے وہ سینئر ساتھی تو یہ باتیں مذاق میں کرتے تھے مگر دس پندرہ سال میں میں محسوس کرتا ہوں کہ لوگوں نے اس زریں اصول کو عملی طور پر اپنا لیا ہے۔

استاد کی بات چلی تو اپنے مضمون پر مکمل دسترس تو استاد کی بنیادی صفت ہے مگر ایک اچھے اور سچے استاد کا اٹھنا بیٹھا، بولنا ہنسنا ، چلنا پھرنا، بات کرنا یعنی ہر عمل بچوں کے لیے سراپا تعلیم ہوتا ہے۔ تعلیم ایک مکمل عمل ہے۔ تربیت جس کا حصہ ہے۔ وہ شخص جس نے کتابیں تو بے شمار پڑھی ہوں مگر اُس کا طرز زندگی خوبصورت نہ ہو میں اُسے تعلیم یافتہ نہیں مانتا۔ لکھنے پڑھنے اور گننے کا عمل خواندگی ہے اور خواندگی بھی تربیت کی طرح تعلیم کا ایک جزو ہے۔ تعلیم نہیں۔ خواندگی تربیت اور کچھ دوسرے عناصر یک جاں ہو جائیں تو وہ تعلیم ہے۔ ایک اچھا استاد خود بھی تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور اپنے بچوں کو بھی پوری طرح تعلیم سے آراستہ کرتےا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک اچھا استاد دیئے کی مانند ہوتا ہے جو خود جل کر اپنے بچوں کو روشنی دیتا ہے کہ جس کی مدد سے وہ زندگی کا بہتر راستہ تلاش کر سکیں۔

ایجوکیشن خاص طور پر ہائر ایجوکیشن کی ترویج کے لیے پاکستان میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے نام سےایک ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ پرویز مشرف کے دور میں اس ادارے کا نام بدل کر ہائر ایجوکیشن کمیشن رکھ دیا گیا اور ڈاکٹر عطا الرحمن کو اُس ادرے کا سربراہ مقرر کیا گیا، بلا شبہ 2003ءسے لے کر 2008ءتک کے پانچ سالہ عرصے میں ڈاکٹر عطاالرحمن کی سربراہی میں اس ادارے نے پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے بے پناہ کام کیے۔ درسگاہوں میں اس دور میں نہ صرف پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا بلکہ پی ایچ ڈی کے معیار میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔، نقل کر کے پی ایچ ڈی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کا بھی سامان کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ہماری یونیورسٹیاں اعلیٰ تحقیقی مرکز بن گئیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں نئی یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بہت سی نئی یونیورسٹیوں کی منظوری دی گئی، جامعات کی درجہ بندی کی گئی۔ اساتذہ کی سلیکشن کا معیار مقرر کیا گیا۔ غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی اساتذہ کو خصوصی مراعات کے ساتھ پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے لیے بلایا گیا۔ پاکستانی طلباءکو غیر ممالک میں پڑھنے کے مواقع اور وظائف فراہم کیے ہیں۔ تعلیم کا بجٹ بڑھایا گیا۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران جو ہولناک صورتحال سامنے آئی وہ یہ کہ تحقیق کے نام پر ہم نے کلرکوں کا ایک ہجوم تو اکٹھا کر لیا ہے مگر اچھے اساتذہ کی یونیورسٹیوں میں شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔

میرے ذاتی نقطہ نظر کے مطابق 17سالہ تعلیم کے بعد ایم اے یا ایم ایس سی کرنے والا شخص اپنے شعبے کا سب سے پڑھا لکھا شخص ہوتا ہے۔ پی ایچ ڈی ریسرچ کی ڈگری ہے ۔ ہر اچھا ریسرچر اچھا استاد اور ہر اچھا استاد اچھا ریسرچر نہیں ہو سکتا۔ مگر ریسرچ کے نام پر اچھے اساتذہ پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ 1990تک کالج اور یونیورسٹی اساتذہ کے تین درجے ہوا کرتے تھے۔ 1990میں جب راقم پنجاب لیکچرر ایسوسی ایشن کا صدر تھا اور ایک بھرپور تحریک کے نتیجے میںحکومت پنجاب نے کالج اساتذہ کو چار درجاتی سروس سٹرکچر دیا۔ اُس وقت پی ایچ ڈی کی ڈگری پروموشن کے لیے نسخہ ¿ کیمیاءتھی اور لوگ کسی نہ کسی طرح یہ ڈگری حاصل کر کے اگلے گریڈ کے امیدوار بن جاتے تھے۔ اُس دور کے سیکرٹری تعلیم جناب طارق سلطان اور بعد میں 1996ءکے بعد جناب تسنیم نورانی کے ساتھ مذاکرات میں یہ طے ہوا تھا کہ اساتذہ کی کسی صورت حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر کسی پوسٹ کے لیے پی ایچ ڈی حضرات کا تجربہ پانچ سال چاہیے ہو گا تو ایم ایس سی حضرات کو آٹھ سالہ تجربے پر مسابقت کی اجازت ہو گی۔ اور تقریباً اسی اندازے سے عام اساتذہ تمام بلند ترین گریڈ حاصل کر سکیں گے۔ مگر ایم ایس سی اساتذہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے متعصب رویے نے وہ بنے بنائے رولز کو نہ صرف ختم کیا بلکہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو اچھے اساتذہ سے مکمل محروم کر دیا۔ اب سترہ گریڈ میں بھرتی ہونے والا استاد اگر سکول سروس میں ہو تو پندرہ بیس سال میں بیسیویں گریڈ کا حقدار ہو جاتا ہے مگر کالج میں استاد اٹھارہ یا کوئی خوش قسمت انیسویں گریڈ تک پہنچ سکتا ہے اور یونیورسٹی کا استاد یا تو پی ایچ ڈی کرے یا پھر یونیورسٹی چھوڑ دے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

کہتے ہیں کسی گاﺅں میں ایک کسان پچیس تیس سال سے اپنی چار پانچ مربعے زمین پر کاشتکاری کر رہا تھا اور بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ اپنی کھیتی باڑی کو جدید رہا تھا کہ اُس کے گاﺅں میں ایک صاحب آلو کی بہترین فصل پر پی ایچ ڈی کر کے آئے اور ایک ایکٹر پر اپنی تحقیق کی روشنی میں آلو کی کاشت شروع کی۔ کسان نے اُن سے رابطہ کیا اور اُن کے کہنے اور ان کی تحقیق کے مطابق اپنی زمین پر بھی کچھ آلو بیجے۔ پہلے لوگ کسان سے فصلوں کے بارے میں اُس کے تجربے اور جدید تحقیق سے مستفید ہونے کی بنا پر مشورہ کرنے آتے تھے۔ اب کوئی بھی جب مشورہ کرنے آتا تو آلو پر پی ایچ ڈی کرنے والا نوجوان اپنی چرب زبانی کے زور پر اُسے کسان تک جانے ہی نہ دیتا کہ اُس کی بہتر فصل تو میری پی ایچ ڈی کی مرہون منت ہے۔ چنانچہ کوئی گوبھی کے بارے میں پوچھنے آتا یا گندم کے۔ آلو آلو ہو کر واپس جاتا۔ ہماری درسگاہیں آج بھی اُسی آلو کے دام میں ہیں ۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ اچھے استاد درسگاہوں کا زیور ہوتے ہیں۔ درسگاہیں اُن کے اور وہ درسگاہوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ اب ایسا نہیں۔ ہم اچھے استاد ہی ناپید کرتے جا رہے ہیں۔ تو اب استاد کیا اور حوالہ کیا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444380 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More