قیام سے لے کر اب تک بھارت نے
پاکستان کو صرف نفرت دی ہے۔ پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو
ختم کرنے کے لیے بھارت کے بہت سے دیرینہ مطالبات پورے کیے اور تجارت کے لیے
پسندیدہ ملک قرار دینے کے ساتھ ساتھ ویزہ پالیسی کو انتہائی نرم
کیا۔پاکستان نے دونوں ملکوں کی عوام کو آپس میں قریب کرنے کے لیے اپنی کرکٹ
ٹیم کو بھارت بھیجا جہاں انہوں نے بھارتی ٹیم کے ساتھ پانچ میچوں کی سیریز
کھیلی۔ پھر اس کے بعد پاکستان کی 9رکنی ہاکی ٹیم انڈین لیگ میں کھیلنے کے
لیے بھارت پہنچی، لیکن بھارتی ریاست مہارشٹر کے انتہا پسند ہندووں نے اس
وقت مسلمانوں پر زبردست حملے اور قتل عام شروع کر دیا جب بھارت پاکستان سے
ایک میچ میں ہار گیا۔ انتہا پسندہندو وں نے پاکستان کی حمایت کی پاداش میں
پانچ مسلمانوں کو قتل کر دیا جبکہ اس بلوائی حملے میں دو سو سے زائد افراد
زخمی ہوئے۔ یہ سانحہ تو کرکٹ ٹیم کے میچ جیتنے کے ردعمل میں پیش آیا،
پاکستان کی ہاکی ٹیم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ذلت آمیز سلوک کیا گیا اور
پہلے تومسلمانوں کے خون کی دشمن بھارتی دہشت گرد تنظیم شیوسینا نے احتجاج
کرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کی اور پھر بھارتی حکومت نے
سرحدوں پر جاری کشیدگی کو بہانہ بنا کر ہاکی ٹیم کو بھارت سے نکال دیا۔ آج
سے چند ماہ قبل تو بھارت میں ظلم اور نفرت کی انتہا ہو گئی، دسمبر 2012 میں
پاکستان کی نابینا افراد پر مشتمل ٹیم کے کپتان ذیشان عباسی کو بنگلور میں
جوس کے دھوکے میں تیزاب پلا دیا گیا۔ اس سے قبل جولائی 2010 میں مہاراشٹر
کی ایک ہندو جماعت نونرمان سنگھ نے اسٹار پلس کے ایک پروگرام میں پاکستانی
بچوں کی شمولیت پر شدید احتجاج کیا۔ یہ تو تھا پاکستانی کھلاڑیوں اور
فنکاروں سے نفرت کا اظہار،وہ طبقہ جو ہندوستان کے ساتھ دوستی اور امن کی
آشا کو فروغ دینے کے لیے گیا تھا۔ اب دیکھیں کہ بھارت میں ایک مسلم رکن
پارلیمنٹ اکبر الدین اویسی کوصرف محض یہ بات بولنے پر گرفتار کرکے کئی
مقدمات قائم کر دئیے گئے ہیں کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کو تو گرفتار کر رہی
ہے لیکن سانحہ گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کو سزا کیوں نہیں دیتی۔
یہ تو پاکستان اور مسلمانوں کے لیے نفرت کی وہ چھوٹی چھوٹی چنگاریاں تھیں
جو ہندوستان کو انتہائی پذیرائی دیئے جانے کے باجود بھی ”بغل میں چھری اور
منہ میں رام رام“ رکھے ہندو ستان کے اندردہک رہیں ہیں۔
لیکن جب سے امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے پر تول رہا ہے، مکمل ایشیائی
خطے پر کنٹرول کے خواب دیکھنے والے بھارت کے تیور اچانک بدل گئے ہیں اور اس
نے پاکستان کے خلاف جارحیت کو مزید تیز کر دیا ہے۔ پاکستانی سرحد وں پر
بھاری مشین گنیں جہاں روزانہ کئی کئی گھنٹوں تک آتش و آہن اگلتی ہیں وہیں
بھارتی فوجی جرنیلوں اور وزراءکی زبانیں آتش فشاں کی طرح پاکستان کے خلاف
لاوا اگلنے میں بھی مصروف ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دل سے
آواز نکلی ہے کہ اب پاکستان سے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہ سکتے، بھارت کی
بری فوج کے سربراہ جرنل بکرم سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ
بھارتی فوج پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی وقت کارروائی کر سکتی ہے۔
دوسری جانب بھارتی ائیر چیف مارشل اے کے براون نے بھی فضائیہ کو تیار رہتے
ہوئے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر لائن آف کنٹرول پر فائر بندی نہ کی گئی
تو ہم دوسرے آپشنز پر غور کریں گے۔ بھارتی وزیر داخلہ دور کی کوڑی لائے ہیں
اور ماضی کی طرح بھارت میں ہونے والے ہر واقعے کی طرح سرحد ی کشیدگی کا ذمہ
دارجماعة الدعوة کے امیرحافظ محمد سعید کو ٹھہرا دیا ہے۔ جب سب اپنے خبث
باطن کا اظہار کر رہے تھے تو پھر انا ہزارے کیوں چپ رہتے اگرچہ وہ بھارت
سرکار کے مخالف ہیں تو کیا! لیکن ہیں تو وہ بھی آخر ہندو ہی نا! انا ہزارے
نے 75برس عمر ہونے کے باوجود اس بات کا اعلان کیا کہ وہ بھی فوج کے شانہ
بشانہ پاکستان سے جنگ لڑنے کو تیار ہیں، انا ہزارے کی خواہش ہے کہ بھارت
پاکستان کو 1965ءوالا سبق سکھائے اور ایک فیصلہ کن جنگ کے ذریعے فساد کی اس
جڑ کو ہی ختم کر دیا جائے۔
پاکستان کی جانب سے امن کی تمام کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے بھارت کی
پاکستانی سرحد پر اشتعال انگیزی کے بعد اس کے فوجی افسران جنگی جنون کو
مسلسل بڑھکا رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے واقعہ کو جواز بنا کربھارت پاکستان
پر جارحیت کی تیاریاں کر رہا ہے ۔ ہندوستان کے عزائم پاکستان کے خلاف کس
قدرسنگین ہیں اس بات کا اندازہ بھارتی حکمرانوں، جرنیلوں کے بیانات
اوربھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے کو دیکھ کر آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان لائن آف کنٹرول کے واقعات میں ملوث ہوتا توبھارت اقوام متحدہ
کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ یہ سب جھوٹ اور بھارتی سازش نہ ہوتی توبھارت کبھی بھی
اقوام متحدہ کے مبصرین کی جانب سے تحقیقات کے عمل کو رد نہ کرتا۔ بلکہ
بھارت تو ہمیشہ زیادتیاں کر کے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے چانکیہ
کے سیاسی اصولوں کے مطابق پوری دنیا میں اپنی سفارتی عملے کو متحرک کر دیتا
ہے اور انصاف کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہا لیتا ہے۔
بھارت نے پاکستان کی سرحدی افواج پر حملے کرنے میں پہل کی۔6جنوری کو سرحد
کی خلاف ورزی کر کے بھارتی افواج نے پاکستانی علاقے میں گھس کر ایک چوکی پر
حملہ کیا جس میں ایک فوجی شہید ہو گیا پھر 8جنوری کو دو بھارتی فوجیوں کی
ہلاکت کا ڈراما رچا کر بھارت دو بار پاکستانی علاقے میں فائرنگ کر کے مزید
دو پاکستانی فوجیوں کو شہید کر چکا ہے۔ یہ ہے وہ اصلیت جو بھارت کئی بار
پاکستان کو دکھا چکا ہے، لیکن بھارت آج بھی پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے ”کام“
پر لگا ہوا ہے۔ یہ کبھی بھی پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھ سکتا۔ پاکستان میں
کچھ بھارت پسند عناصر ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ پاکستان کو ماضی
کی تمام تلخیاں بھلا کر بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ پاکستان
نے یہ بھی کر کے دیکھ لیا، کشمیر، سیاچن، سرکریک اور پاکستانی دریاﺅں پر
بھارتی ڈیموں کی تعمیر جیسے مسائل کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے دروازے
بھارت کے تاجروں کے لیے کھول دیئے۔ ویزہ پالیسی نرم کی۔ لیکن بھارت اپنی ہٹ
دھرمی پر کل بھی قائم تھا اور آج بھی قائم ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ
سیکھنے والے حکمران ایک دفعہ پھر ہندو بنئے کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اس
کو پسندیدہ ترین قرار دے کر پاکستان کا مخلص اور ہمدرد سمجھنے کا دھوکہ
کھانے جا رہے تھے۔ لیکن احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کو اب اس بات کا
اندازہ ہو جانا چاہیے کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔ جس طرح بچھو ڈسنے کی
فطرت کو نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح بھارت بھی پاکستان کے خلاف سازشوں سے باز
نہیں آ سکتا۔ بھارت سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمیں مذاکرات سے کشمیر دےدے گا
یا وہ تعلقات بہتر ہونے کے بعد پاکستان کا اچھا ہمسایہ بن جائے گا ، تو یہ
خام خیالی ہے۔ صدیوں ہندووں کے ساتھ رہ کر مسلمانوں نے یہی سبق سیکھا ہے۔
ہاں اگر پاکستان بھارت کے شر سے بچنا چاہتا ہے تو پھر وہی اقدام کرنا ہو گا
جو بچھو کے ڈسنے سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کا سر کچل دیا جائے۔ |