”امتحان کا وقت شروع ہونے میں
صرف آدھا گھنٹا باقی ہے“
”اَرے یار اب پچھتائے کیا ہُوَت جب چڑیا چُگ گئی کھیت“
”چڑیا نے ابھی کھیت چُگا نہیں“
تو سمجھو چڑیا کا پیٹ بھر گیا“
”رب کی پناہ ! تمھاری زبان سے کبھی اچھے حروف ادا ہونے کی اُمید نہیں کی جا
سکتی۔ کاش کہ تم نے کچھ پڑھ لیا ہوتا تو آج یہ نہ کہتے“
کمرا امتحان کے باہر اکثر دوستوں کے درمیان اِس قسم کے جملوں کا تبادلہ
سننے میں آتا ہے۔ چند فقرے پہلے، تو چند امتحان ختم ہونے کے بعد۔ جبکہ بعد
کے فقرے تو اور زیادہ بے محل لگتے ہیں۔ جیسے آدمی کسی میت پہ کوئی لطیفہ
سنا دے۔
بظاہر تمام ہم جماعت خوش گپیوں میں مگن امتحان ختم ہونے پر سکون کا سانس
لینے کا چرچہ کرتے ہیں۔ کینٹین پر دھاوا بول کے خوب مزے سے امتحان کے دوران
ہونے والی باتوں سے آلو کے گرما گرم سموسے کی طرح مستفید ہوا جاتا ہے کہ
”فلاں کا منہ دیکھا تھا بیچارے کو کچھ نہیں آتا تھا“ ”اور تم نے اُس کا حال
دیکھا سر نے کیسے اُس کے نقل کے تمام آلہ کار اپنی دسترس میں لے لےے“ یعنی
تقریباً تمام ساتھیوں کو طنزومزاح کا نشانہ بنانے کے بعد قریبی ساتھی سے
اپنا اور امتحانی پرچہ کا احوال بیان کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی خود کو معیار کی
کسوٹی پر پرکھتا ہے۔
کوئی خود کو افلاطون اور آئن اسٹائن تصور کرتا ہے تو کوئی وقت کی کمی کا
رونا روتا ہے۔ کہیں امتحانی پرچہ میں نقص نکالے جاتے ہیں تو کہیں سے ”دیکھا
جائےگا“ کی صدائیں سُنائی دیتی ہیں۔
حقیقت کا علم تو نامہ اعمال ملنے کے بعد ہی ہو پاتا ہے۔ کسی کی آنکھوں سے
مسکراہٹ ٹپکتی ہے تو کوئی ٹوتھ پیسٹ کا چلتا پھرتا اشتہار نظر آتا ہے۔ کہ
خوشی کی حدہی نہیں نتیجہ جو اچھا آیا ہے تو خوشی کیوں کر نہ ہو۔
دوسری جانب چند ساتھیوں کے چہرے کی ہوائیاں اُڑی ہوئیں ہیں۔ ذہن میں امّاں
کی جھاڑو کا تصّور ہے تو کوئی اَبّا کے طنز میں ڈوبے جملوں کی کڑواہٹ محسوس
کرتا ہے۔.......! یہ وہ ساتھی ہیں جن کا نتیجہ مایوس کُن ثابت ہوا ہے۔ اَرے
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگلا جملہ سننے کو یہ ملتا ہے کہ ”اگلے سال دیکھ
لیں گے اور دیکھنا اِس دفعہ پورے سال بس پڑھائی ہی ہوگی“ جبکہ نتیجہ ہمیشہ
کی طرح مایوس کن ہی نکلتا ہے۔
ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے خود سے
بہتری کی اُمید چھوڑ دینا غلط ہے۔
ایک دفعہ نمبر کم آنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اگلی مرتبہ بھی نتیجہ وہی
نکلے گا۔ اچھے کی اُمید بہر حال رکھنی چاہیے۔
ہم بھی اُسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو تمام معاملات ڈھٹائی سے اگلے سال پر
ڈال دیں۔ ہم اُس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں یہ ہم نے مانا۔ لیکن اگر پہلے سے
پورے سال کا لائحہ عمل تیار کر لیا جائے اور ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے
تحت تعلیمی سرگرمیوں میں حصّہ لیا جائے تو ہمیں صد فیصد یقین ہے کہ کامیابی
آپکا مقدر ہوگی۔
اِس ضمن میں سب سے پہلے درسگاہ میں باقاعدہ حاضری کو یقینی بنایا جائے۔
ہمارے اسکول میں پڑھنے والے ساتھیوں کے لئے ایسا کرنا مجبوری ہے جبکہ کالج
اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے طلبہ و طالبات اکثر اس معاملے میں
لاپرواہی دکھاتے ہیں۔اور غیر حاضری کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے تَسلسُل اختیار کر
جاتا ہے۔ جو کہ غلط ہے۔ درسگاہ میں حاضری کامیاب سال کے لئے پہلی سیڑھی کی
حیثیت رکھتی ہے۔
سال شروع ہونے کے تین ماہ بعد پہلے کے مضامین کی مشق ضروری ہے۔ یعنی جو
مضامین اِس عرصے میں پڑھائے جا چکے ہیں۔ اُن کی تیاری کر لی جائے۔ اِس طرح
تعلیمی سال کے آخر میں بوجھ نہیں پڑے گا۔
امتحان سے کچھ عرصے قبل اپنے معمولاتِ زندگی کو تبدیل کرنا نہایت ضروری ہے۔
یعنی باقاعدہ طور پر
دوسری غیر نصابی سرگرمیوں سے کنارا کرتے ہوئے پڑھائی کے لئے وقت مقرر کیا
جائے۔
گروپ اسٹڈی کا طریقہ کار بھی نہا یت مناسب ہے۔ ایک موضوع پر دو تین ساتھی
مل کر اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں اِس طرح سب ایک دوسرے کا نقطئہ نگاہ سے
واقف ہونگے ساتھ ساتھ سمعی بصارت میں آواز گونجنے کے اپنے فائدے ہیں۔ دوران
امتحان غیر شعوری طور پر کسی پہلو کے ذہن میں آتے ہی اُس مدعا کو شاملِ
تحریر کیا جاسکتا ہے۔ چند طلبہ و طالبات انگریزی آتی ہو نہ آتی ہو خود کو
صفحہ اول میں شامل کرنے کے لئے انگریزی کوحربہ سمجھتے ہیں۔ انگریزی لکھنا
پڑھنا صحیح طرح آتی ہو تو الگ بات ہے۔ لیکن خوامخواہ انگریزی کا وبال سر پہ
اُٹھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کوشش کی جائے کے اظہار کے لئے وہ زبان
استعمال کی جائے جس پہ مکمل عبور حاصل ہو۔
جو اسباق یاد ہیں اُن پر رسہ کُشی کرنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی اکثر دیکھا گیا
ہے جو مضامین یاد ہیں اُنہیں کو بار بار پڑھ کر حفظ کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔ اِس کی جگہ اُن مضامین کو پڑھا جائے جن کے بارے میں آگہی کم ہے۔
ایامِ امتحان میں اور امتحانی پرچہ ملنے کے بعد دونوں صورتوں میں پہلی شرط
ذہن کو پر سکون رکھنا ہے۔ بلا ضرورت فکر و پریشانی کو اپنا ساتھی نہ بنایا
جائے اِس طرح دماغی کار کر دگی کے ساتھ ساتھ جسمانی کارکردگی بھی متاثر
ہوگی۔
اکثر امتحانی پرچہ ہاتھ لگتے ہی کہیں اندر سے آواز آتی ہے کہ ” مارے گئے
ایک سوال بھی نہیں آتا“ جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ امتحانی پرچہ میں موجود تمام
سوالات کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک سوال کے کئی پہلو نکلتے ہیں۔ ایک
طویل گہری سانس کھینچنے کے بعد پرچہ شروع کرنا بہتر ہے۔
عموماً پرچہ پانچ سوالات پر محیط ہوتا ہے۔ ہر سوال کے لئے تیس منٹ کا وقت
رکھنا چاہےے۔ ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کس سوال کے کتنے نمبر
ہیں۔ یا وہ سوال کونسا ہے جو کم وقت میں ہو سکتا ہے۔ جو سوال کم وقت لے
اُسے آخر کے لئے رکھ دینا چاہےے۔
پرچہ ختم کرنے کے بعد ایک دفعہ حل شدہ کاپی کا جائزہ لینا بہتر ہے۔ تاکہ یہ
تَسلی کر لی جائے کے کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا یا اگر کچھ غلط ہے تو اُسے
درست کر لیا جائے۔
اللہ کا نام لے کر کاپی نگراہ امتحان کو سونپ دی جائے۔ نتیجہ نکلنے تک
بارگاہِ الٰہی میں کامیابی کی دُعا کرتے رہنا چاہےے۔ اور نتیجہ نکلتے ہی
شکرانے کے نوافل کا اہتمام کرنا بہترین عمل ہے۔ تاکہ رب راضی ہو جائے اور
ہمیشہ دنیا و آخرت کی کامیابی مقدر بَنے۔ |