عام آدمی خاص کیسے بن جاتے ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جو تگ ودو کی زندگی گذارنے والے ہر صاحب شعور کو بے چین
رکھتا ہے۔” مطالعہ‘مشاہدہ اور ملاقات“ یہ وہ تین ہتھیار ہیں جن سے لیس ہو
کر راقم اپنی معلومات کے دائرے کو وسعت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ جناب منور
مغل کا نام اکثر قارئین کے حافظہ میں محفوظ ہوگا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے
جناب مغل سے مفصل گفتگو کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔لیکن میری خوش بختی کہیے کہ
گزشتہ دنوں یہ موقع میسر آگیا۔فون کرنے پر جواب آیا کہ ابھی جائیں۔ تعارف
تو پہلے سے ہی تھا رسمی بات چیت کے بعد مغل صاحب کہنے لگے‘”مجھے دوستوں نے
کہا کہ تم ایک محض دکاندارہو‘چیمبر کے صدر کے لئے تمہیں ووٹ کون دے گا۔
لیکن میں نے محنت شروع کردی۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات‘انڈسٹری کے مالکان
میرے مقابلے پر تھے۔لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور باقی لوگ تو ایک سال
کےلئے چیمبر کے صدر بنتے ہیں ۔میں تین بار اس وفاقی چیمبر آف کامرس اینڈ
انڈسٹری کا صدرمنتخب ہوا۔آج یہ اربوں روپے کی بلڈنگ کھڑی ہے۔یہاں بزنس
کمیونٹی کے مسائل حل کرنے کے لئے باقاعدہ ایک سسٹم قائم ہے۔ اور اسی چیمبر
میں دنیابھر کے کاروباری اور حکومتی عہدیداران آتے ہیں۔ ہال میںلگی تصویروں
سے آپ کو میری محنت کا اندازہ ہوجائے گا“
اسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے فاﺅنڈر چیئرمین منور مغل پاکستان
کی بزنس کمیونٹی کے ایک معتبر رہنما ہیں۔ انہوں نے (ق) لیگ کے ٹکٹ پر
2008ءمیں قومی اسمبلی کی سیٹ کے لئے الیکشن میں بھی حصہ لیا اور تن تنہا
سماج اور سیاست کے بڑے بڑے لوگوں سے اپنی صلاحیت اور اہلیت کا لوہا منوایا۔
تساہل اور آرام پسندی پر میرا بھی بہت جی چاہتا ہے!۔ڈاکٹر صاحب اکثر ایسا
ہوتا ہے کہ نیند کے شدید جھٹکے لے رہا ہوتا ہوں۔لیکن فون آجاتا ہے جی میری
والدہ شدید علیل ہوگئی ہیں یا میرے بیٹے کی شادی ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے
۔جانا پڑتا ہے ۔یہ سوچ کر چلا جاتا ہوں کہ شائد میرے جانے سے صاحب خانہ کی
دلجوئی ہوجائے۔شائد یہی عمل میدان حشر میں نجات کا ذریعہ بن جائے“۔منور مغل
اپنے روز وشب کی مصروفیات بیان کر رہے تھے۔ گفتگو کا رخ پاکستان کی اقتصادی
صورتحال کی طرف مڑ گیا۔ کہنے لگے حکومت جو بھی ہے یا جو بھی آئے گی۔ اصل
مسئلہ ملکی قرضوں کی ادائیگی کا ہے۔ملکی قرضے اور غیر ملکی قرضے سب ادا کئے
جاسکتے ہیں۔ ابھی حکومت نے ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا ہے۔ایف بی آر کے اپنے
اندازوں کے مطابق چالیس لاکھ ایسے لوگ ہیں جو چھوٹ یعنی ایمنسٹی کے ذریعے
ٹیکس نیٹ میں آسکتے ہیں۔اگر ان چالیس لاکھ لوگوں سے چالیس ہزار روپے فی کس
کے حساب سے لئے جائیں تو کونسا قرضہ باقی رہ جائے گا۔شرط صرف یہ ہے کہ ایف
بی آر پہلے اپنے اندر کی کرپشن ختم کرے تاکہ لوگ اس ادارے پر اعتماد کرسکیں۔
اگر صرف ٹیکس جمع ہونا شرو ع ہوجائے تو کسی غیر ملکی امداد کی ضرورت ہے ‘
نہ کشکول لے کر خیرات مانگنے کی حاجت رہے گی۔“
پاک بھارت تجارت کے بارے میں منور مغل کا کہنا تھا‘”ہم جب بھارت جاتے ہیں
اور واہگہ بارڈر پر دیکھتے ہیں کہ ٹرکوں کے ٹرک پاکستان آرہے ہیں اور جب
پوچھتے ہیں کہ ان ٹرکوں میں کیا جارہا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ٹماٹر‘
پیاز‘ادرک۔یہ ٹماٹر ہم گملوں میں اگا سکتے ہیں۔گھر کے صحن میں پیاز پیدا
کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ کیسی تجارت ہے جس میں اکثر وہ اشیا درآمد کی جاتی
ہیں جو بڑی آسانی کے ساتھ یہاں پیدا ہوسکتی ہیں۔آپ 7200 اشیاءکی فہرست دیکھ
لیں۔پان‘بیڑی کے سوا کچھ نہیں۔مسئلہ کیا ہے۔بجلی نہیں‘ ڈیزل نہیں‘ تعلیم
نہیں“۔
”کیا حکومت کو پہلے علم نہیں تھا کہ سی این جی کے ذخائر کتنے ہیں۔ اس کی
کھپت کس سیکٹر میں کیا ہونی چاہیے اور اس کے نرخ کا فارمولا کیا ہوگا۔پہلے
پوری قوم کو سی این جی پر کنورٹ کرایا۔ماحول دوست فیول کی مہمات چلائی
گئیں‘اب اچانک سی این جی کو محدود بلکہ ختم کرنے کے منصوبے پر عمل شروع
کردیا گیا۔ کیا لوگوں کے اربوں روپے ڈوب نہیں جائیں گے؟۔ بیرونی تو دور کی
بات اندرونی سرمایہ کار بھی بھاگ جائیں گے ۔بجلی نہیں ہوگی تو فیصل آباد کے
ٹیکسٹائل کے یونٹس کی طرح باقی کے بچے کچھے صنعتی یونٹس بھی بنگلہ دیش اور
ملایشیاءمنتقل ہوجائیں گے۔“
”ڈاکٹر صاحب ۔ اصل مسئلہ نیتوں کا فتور ہے ۔اگر نیت ہی ٹھیک نہیں تو پھر
کیا کاروبار کیسی ترقی اور کس طرح کی گڈگورننس“
”کیاآپ اپنی تگ و دو کی اس زندگی سے مطمئن ہیں؟
”ڈاکٹر صاحب‘ اپنی سوچ کو ہمیشہ بلند رکھیں ہمارا بڑا مسئلہ یہ کہ مزدور
سوچتا ہے کہ کاش کہ اس کا بیٹا نوکری چھوڑ کر کوئی کھوکھا لگالے اس کی سوچ
کی اڑان زیادہ سے زیادہ یہی ہوگی۔وہ یہ سوچتا ہی نہیں کہ اس کا بیٹا بھی
وزیراعظم بن سکتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ اپنی سوچ کو بلند رکھنا اور اپنے لوگوں کے
ساتھ جڑے رہنا چاہیے۔
ملاقات ختم ہوئی تو دوست کالم نگار بیگ راج سے جناب منور مغل کی شخصیت پر
تبصرہ کرنے کو کہا‘
”منور دل روشن دماغ“ بیگ راج نے خاکہ کشی کی۔چیمبر کی خوبصورت بلڈنگ سے
باہر نکلے‘مجھے منور مغل کی گفتگو علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی تشریح معلوم
ہوئی‘
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگئی داماں بھی ہے |