مجھے ہر حال میں یہ کام کرنا ہے اگر ایسا نہ ہو سکا تو بڑی مشکل ہوگی

یہ وہ جملہ ہے جو اکثر خواتین دہراتے نظر آتی ہیں۔ کم و بیش 90 فیصد گھریلو خواتین اپنی ذمہ داریوں کو بوجھ جان کر اِس طرح خود پہ سوار کر لیتی ہیں کہ گویا یہ نہایت پریشان کن سفر ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ نفسیاتی و ذہنی دباﺅ کا شکار رہتی ہیں۔ کیونکہ خواتین پر اَمورِ خانہ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کو انجام دیتے ہوئے اکثر و بیشتر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ درحقیقت جب ہم اپنے کسی کام کو دل سے قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ایک بوجھ بن کر رہ جاتا ہے ۔ ایسی کسی بھی صورتحال میں ہم صرف پریشان ہی ہوسکتے ہیںاور ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف تو پورے گھر کا نظام متاثر ہوتا ہے اور دوسری طرف گھریلو ماحول کی خرابی کے باعث ہماری ذ ہنی اور جسمانی قوت بھی متاثر ہوتی ہے رفتہ رفتہ ہر ذمہ داری ایک شکوہ کا روپ اختیار کر جاتی ہے۔

بنیادی نفسیاتی وجہ ہے کہ بحثیت انسان ایک عورت بہت کچھ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ لیکن گھریلو ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے اپنی ذات کو ناکارہ اور بیکار سمجھنے لگتی ہیں۔ جیسے اُن کا وجود گھر میں زم ہوگیا ہے۔ جبکہ ایسا سوچنا غلط ہے۔ ایک عورت مکان کو گھر بناتی ہے اُسے سنوارتی ہے۔ اُس گھر کے افراد اُس کے گو ناگو تابع ہوتے ہیں اور عزت کرتے ہیں۔ اسلام نے خاتون خانہ کو گھر کی ملکہ یا کردار ساز ہونے کا مرتبہ دیاہے اور یقیناً یہ ایک اعلیٰ رتبہ اور اعزاز ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذات کو ناکارہ اور بیکار سمجھنا اپنے ساتھ ناانصافی ہے۔

اگر گھریلو خواتین اپنی ذات کو اِس نظریے پر رکھ کے دیکھیں تو یقینا سوچ کا یہ انداز زندگی کو نہایت خوبصورت بنادے گا اور پھر ذمہ داریاں بوجھ محسوس نہ ہوں گی۔

اپنے کاموں میں دلچسپی بڑھے گی اور بے وقعتی کا احساس نہ رہے گا۔ کیوں کہ اپنی نظروں میں بلند ہو کر ہی دوسروں کی نظروں میں بلند ہوا جا سکتا ہے۔

اپنی سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے ہر معاملے میں خود کو حالات کا ہدف قرار دینے اور کڑھتے رہنے کی بجائے اپنے آپ کو بہتری کے لئے تیار کر کے معاملات کو آسانی سے سلجھایا جاسکتا ہے۔ فقط اپنے کاموں کو خودپر بوجھ نہ بنائیں۔

کثرت کار کی شکایت اور کام کی زیادتی یا تھکن سے چور ہونے جیسے جملے ہی اعصاب شکن ہوتے ہیں۔ ہر گھریلو ذمہ داری آپ کے لئے چیلنج ہے جس کو قبول کرتے ہوئے آپ اپنی شحصیت کو منواسکتیں ہیں۔ نہ ہی مسائل کو اپنے اوپر سوار کیجئے اور نہ ذمہ داریوں کو بلا وجہ لٹکائیں ۔ کام ایسی ترتیب اور نظم سے کیجیے کہ ایک طرف کام کی زیادتی نہ معلوم ہو اور دوسری طرف وہ بہ آسانی تکمیل پا جائے۔

٭اپنی شخصیت کو تباہ کرنے کا پہلا قدم ’خود رحمی ‘ ہے۔ اپنے آپ کو مظلوم گردانتے ہوئے کام کی دہشت ذہن پر مسلط کرنا دُرست نہیں۔ اپنے کاموں میں دلچسپی لیجےے ،توزندگی سہل معلوم ہوگی۔
٭ گھریلو اَمور جیسے کھانا پکانا ، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی ستھرائی کر لینا، بچوں کی دیکھ بھال یہ تمام فرائض منصفی تو ہیں ہی ۔ ساتھ ساتھ خود کو بدلتی دنیا کے ساتھ ساتھ رکھنا بھی ضروری ہے۔
٭ اکثر صاحبِ خانہ کسی اہم مسئلے پر خاتونِ خانہ کی رائے اِس لئے لینا مناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ اُن کے خیا ل میں یہ وقت کا ضیاں ہے۔ اور اس طرح غیر محسوس طریقے سے اپنے کمتر ہونے کا احساس پروان چڑھتا ہے۔ دراصل یہ حالات بھی گھریلو خواتین کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ خواتین اپنے آپ کو بہت محدود کر لیتی ہیں۔ جبکہ گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجاسکتا ہے۔
٭ وقت کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔ ہر ذمہ داری تیزی سے مکمل کرنے کے لئے اپنی پوری قوتیں صرف کردیں۔
٭ بے وقت آرام یا ٹیلی ویژن کے سامنے وقت ضائع کرنے کے بجائے ایسے مشاغل تلاش کیجےے جو آپ کی ذہنی یکسوئی کا سبب بنے۔ اِس طرح آپ کی قابلیت کھُل کے سامنے آئیگی اور بے وقعتی کا احساس ختم ہوگا۔
٭ اپنی شخصیت پر مثبت اثر ڈالنے اور اپنا رویہ بہتر بنانے کے لئے مسکراہٹ بلاشبہ ایک مضبوط ہتھیار ہے۔ اپنے اندر محسوس کریں تو زندگی اب بھی بچپن میں تتلیاں پکڑنے جیسے ہی خوبصورت ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوشیوں کی کشید کریں۔ بچے کی معصوم شرارتوں پر چیخنے چلانے کی بجائے ایک چھوٹا سا قہقہہ بھی آپ کو خوشی سے ہمکنار کر کے کثرتِ کار کے احساس کو کم کر سکتا ہے۔
٭ گھر گرہستی چلانا یقینا کسی عورت کے لئے محاذ سے کم نہیں۔ اپنے اوپر اعتماد کیجےے۔ آپ اپنے مسائل کا بہتر حل تلاش کر سکتی ہیں۔ اِس بات پر یقین رکھیں کے اللہ کسی شخص پر اِس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔
٭ ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھتے ہوئے جسم سے زیادہ ہمارا دماغ تھکن محسوس کرتا ہے ۔ چوں کہ جسم تابع ہے دماغ کے ۔ اس لئے جسم بھی ساتھ چھو ڑ دیتا ہے ۔ دماغ تھکتا نہیں ہے بلکہ نفسیاتی طور پر تھکن کا احساس ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بے اطمینانی ، عدم دلچسپی اور اُلجھنیںہوتی ہیں۔ اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں خوبی اور جدت پیدا کیجےے۔ اِس طرح آپ کا دماغ اُس ذمہ داری کو نہ صرف قبول کریگا بلکہ آپ آسودگی بھی محسوس کریں گی۔ مثلاً کھانے کا اہتمام کرتے ہوئے نت نئے تجربات کریں۔ نئے اور مختلف انواع کے کھانے تیار کیجےے۔ ضروری نہیں کہ ایسا مہمانوں کی آمد پر ہی کیا جائے۔ بلکہ خود اپنی ذاتی خوشی اور دلچسپی کے لئے ایسا کیا جاسکتاہے۔
٭ اپنے شریکِ حیات سے گفتگو کے لئے خاص وقت نکالئے۔ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیجیے۔ اِس طرح شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ آپ کی نظر میں خود اپنی ذات کی اہمیت بڑھے گی۔ سات ہی اپنے انمول ہونے اور گھر کی ملکہ امور کردار ساز بننے کا خوبصورت احساس پیدا ہوگا۔

اختتامیہ:
کہتے ہیں کہ اگر ایک بیج بو کہ اُس کی دیکھ بھال کی جائے اور پودا بننے سے لے کر تناور درخت بننے تک اس کا خیال رکھا جائے تو زندگی کا مصرف مل جاتا ہے۔

ایک عورت گھر بناتی ہے۔ رشتوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اپنی اولاد کو معاشرے کے ساتھ چلنے کا اہل بناتی ہے۔ جب وہ ہستی ہے تو اُس سے وابستہ تمام رشتے مسکراتے ہیں۔ جب وہ دکھی ہوتی ہے تو سارا گھر اُداس ہوتا ہے۔ اتنی محبت اور مرکزیت کے بعد بے وقعتی کا احساس کیوں ۔ ذمہ داریاں جو آپ کو پہچان دیتی ہیں اُس کا بوجھ کیسا !

گھر اور چار دیواری کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیجےے وہ شکر اور صبر کرنے والوں کو زیادہ نوازتا ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311899 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.