مکہ کے کفار اور مشرکین نے
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کو آزمانے کیلئے آپ سے تین سوالات کئے
پہلا سوال یہ تھا کہ اصحاب کہف کون تھے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ سکندر
ذوالقرنین کون تھا؟ تیسرا سوال یہ تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے؟سکندر
ذوالقرنین اور اصحاب کہف کے بارہ میں قرآن پاک میں تفصیل سے بیان کئے گئے
ہیں جبکہ روح کی حقیقت کے بارہ میں فرمان الٰہی ہے(ترجمہ)’’آپ سے یہ لوگ (اے
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم)روح کے بارہ میں سوال کرتے ہیں آپ فرمادیجئے
کہ روح اللہ کے امر سے ہے اور تمہیں اس بارہ میں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے‘‘()
مفسرین نے ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ روح
اللہ کے امر’’کن‘‘ کی ایک صورت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ‘‘ ()
اور اس میں دو چیزیں ہیں ایک خلق دوسرا امر جیسا کہ فرمایا’’سن لو! اسی کا
کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا‘‘ (الا عراف :پ ۸)یعنی اشیا کو پیدا کرنا
خلق کے ضمن میں آتا ہے اور پھر ان اشیاء کو جس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے
انھیں اس کام میں لگنے کا حکم دینا یہ ’’امر‘‘ ہے۔
مشہور مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔
’’سورہ اعراف کی آیت ’’جان لو اللہ ہی کیلئے ہیں خلق اور امر‘‘ جہاں ’’امر‘‘
کو’’خلق‘‘ کے مقابل رکھا ہے جس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کے
ہاں دو مد بلکل علیحدہ علیحدہ ہیں ایک خلق دوسرا امر دونوں میں کیا فرق ہے
اس کو ہم سیاق آیات سے بسہولت سمجھ سکتے ہیں پہلے فرمایا’’ ‘‘ (سورہ اعراف
رکوع۷) اور فرمایا’’ ‘‘ یعنی ان مخلوقا ت کو ایک معین و محکم نظام پر چلاتے
رہنا جسے تدبیر و تصرف کہتے ہیں یہ ’’امر‘‘ ہوا آگے فرمایا ’’ اللہ وہ ہے
جس نے بنائے سات آسمان اور زمین بھی اترتا اسکا حکم ان کے اندر تاکہ تم جان
لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اسکے حکم میں سمائی ہے ہر چیز‘‘ (االطلاق
رکوع۲) گویا دنیا کی مثال ایک بڑے کارخانہ کی سمجھو جس میں مختلف قسم کی
مشینیں لگی ہوئی ہوں کوئی کپڑا بن رہی ہے، کوئی آٹا پیس رہی ہے،کوئی کتاب
چھاپتی ہے، کوئی شہر میں روشنی پہنچارہی ہے اور کسی سے پنکھے چل رہے ہیں۔
ہر ایک میں بہت سے کل پرزے ہیں جو مشین کی غرض و غایت کا لحاظ کرکے ایک
معین اندازے سے ڈہالے جاتے ہیں اور لگائے جاتے ہیں پھر بہت سے پرزے جوڑ کر
مشین کو فٹ کیا جاتا ہے۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا ،اس کے کل
پرزوں کا ٹھیک اندازہ پر رکھنا اور پھر انھیں فٹ کرنا ایک سلسلہ کے کام ہیں
جس کی تکمیل کے بعدمشین کو چالو کرنے کیلئے ایک اور چیز(بجلی یا سٹیم) کی
ضرورت ہے۔اسی طرح سمجھ لو کہ حق تعالیٰ نے اول آسمان و زمیں کی تمام مشینیں
بنائیں جس کو ’’خلق ‘‘ کہتے ہیں ہر چھوٹا بڑا پرزہ ٹھیک اندازہ کے موافق
تیار کیا جسے ’’تقدیر‘‘ کہا گیا ہے پھر سب کل پرزوں کو جوڑکر مشین کو فٹ
کیا جسے ’’تصویر ‘‘ کہتے ہیں(سورہ اعراف رکوع۲) یہ سب افعال ’’خلق ‘‘ کی مد
میں تھے اب ضرورت تھی کہ جس مشین کو جس کام میں لگانا ہے لگا دیا جائے آخر
مشین کو چالو کرنے کیلئے ’’امر الٰہی ‘‘ کی بجلی چھوڑی گئی۔ غرض ادھر سے
حکم ہو ا کہ ’’چل‘‘ اور وہ چل پڑی۔
آگے لکھتے ہیں کہ ’’روح کا مبداء (یعنی پیدا ہونے کی جگہ) حق تعالیٰ کی صفت
کلام ہے جو صفت علم کے ما تحت ہے شائد اسی لئے نفخت فیہ من
روحی(القرآن)یعنی’’ میں نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی‘‘میں روح کو اپنی
طرف منسوب کیا۔کلام اور امر کی نسبت متکلم سے صادر و مصدور کی ہوتی ہے اسی
لئے فرمایاکہ ’’جان لو اللہ ہی کیلئے ہیں خلق اور امر‘‘میں امر کو خلق کے
مقابل رکھا ہاں یہ امر ’’کن‘‘ باری تعالیٰ شانہ سے صادر ہوکرممکن ہے جوہر
مجرد کے لباس میں یا ایک ’’ملک اکبراور روح اعظم‘‘ کی صورت میں ظہور پکڑے
جس کا ذکر بعض آثار(حدیث )میں ہوا۔گویا یہیں سے روح حیات کی لہریں دنیا کی
ذوی الارواح میں تقسیم کی جاتی ہیں اور انکا کنکشن یہیں سے ہوتا ہے۔
آگے چل کر لکھتے ہیں کہ رہا یہ مسئلہ کہ روح جوہر مجرد ہے یا جسم نورانی
لطیف؟ جیسا کہ جمہور اہل حدیث کی رائے ہے اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی
ہے جو بقیتہ السلف بحر العلوم سید انور شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہاں تین
چیزیں ہیں (۱) وہ جواہر جن میں مادہ و کمیت دونوں ہوں، جیسے ہمارے ابدان
مادیہ(۲) جواہر جن میں مادہ نہیں کمیت ہے جنہیں صوفیا اجسام مثالی کہتے ہیں(۳)
وہ جواہر جو مادہ و کمیت دونوں سے خالی ہوں جن کو صوفیاء ارواح اور حکماء
جواہر مجردہ کے نام سے پکارتے ہیں۔جمہور اہل شرع جس کو روح کہتے ہیں وہ
صوفیا ء کے نزدیک جسم مثالی سے موسوم ہے جو بدن مادی میں حلول کرتا ہے اور
بدن مادی کی طرح آنکھ کان،ناک اور ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء رکھتا ہے۔ آج کل
یورپ میں جو سوسائٹیاں روح کی تحقیقات کر رہی ہیں انھوں نے بعض ایسے
مشاہدات کئے ہیں کہ ایک روح جسم سے علیحدہ تھی اور روح کی ٹانگ پر حملہ
کرنے کا اثر جسم مادی کی ٹانگ پر ظاہر ہوا وغیرہ۔(تفسیر القرآن از علاّمہ
شبّیراحمد عثمانی)
مندرجہ بالاسطور سے معلوم ہوا کہ روح کی حقیقت در اصل حرکت کرنا ہے دوسرے
الفاظ میں حرکت وہی چیز کرے گی جس میں روح ہو گی چاہے وہ کسی مخلوق کا جسم
ہویا کسی مشینری کی باڈی وہ اپنی ’’روح‘‘ کے بغیر حرکت نہیں کر سکتی البتہ
جاندار مخلوق اور بے جان مشینری کی روح میں فرق ہے مشینری نے ایک مخصوص
انداز میں گھومنا یا حرکت کرنا ہے مگر جاندار مخلوق کا معاملہ مختلف ہے
جاندار مخلوق روح آجانے کے بعد جو حرکات کرتی ہے انھیں دو حصوں میں تقسیم
کیا جاسکتا ہے (۱)نفع حاصل کرنے کیلئے (۲)نقصان سے بچنے کیلئے،یہ بات ہر
قسم کی مخلوقات انسان، حیوان ،چرند،پرند وغیرہم میں باسانی ملاحظہ کی
جاسکتی ہے۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور باعث تخلیق کائنات! اس لئے
اسکا معاملہ دوسری مخلوقات سے مختلف ہے اسے ارادہ و اختیار کی قوت سے نوازا
گیا ہے خالق کائنات نے اسے یہ حقیقت سمجھانے کیلئے کہ کھانے پینے اور دیگر
طبعی ضروریات کے علاوہ کونسی حرکت یا فعل اس کیلئے فائدہ مند ہے اور کونسی
حرکت نقصان دہ ہے، انبیآء کرام کا ایک عظیم الشان سلسلہ قائم فرمایا جس میں
ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش پیغمبر اس دنیا مین تشریف لائے جنھوں نے اپنے
قول و عمل (اسوہٗ حسنہ) سے انسان کو اسکے حقیقی نفع و نقصان سے آگاہ کیا
یعنی دین اسلام ! جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسکے مطابق جو افعال یعنی
عبادات، معاملات، اور حقوق و فرائض وغیرہم ادا کئے جائیں گے وہی اسکے لئے
دائمی طور پر نفع دینے والے ہیں اور اس سے ہٹ کر جو کام کئے جائیں وہ اس کے
لئے ہمیشہ کیلئے نقصان دہ ہیں چنانچہ فرمان الٰہی ہے،’’ جو کوئی اسلام کے
سوا کوئی اور دین چاہے تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا او ر وہ شخص
روز آخرت خسارہ پانے والوں میں ہوگا‘‘ (القرآن)لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ
اپنے افعال کو دین اسلام کے تابع کرلے تاکہ اسے دنیا و آخرت میں کامیابی
نصیب ہو |