آج کل ملک بھر میں حکومت اور
باقی تمام اعضاءکو شفاف، فرض شناس اور مکمل طور پر ایماندار بنانے کی بات
زوروں پر ہے۔ جمہوریت میں ایسا ہونا بھی چاہیئے، مگر سوال تو پھر وہی
اٹھایا جائے گا کہ حکومت اور باقی تمام اداروں میں کام کرنے والے شخص جب
اسی معاشرے اور اسی ملک سے لئے جا سکتے ہیں تو ایسے میں حکومت اور اداروں
کو چلانے کے لئے ایماندار اور فرض شناس شخصیت کہاں سے لائے جائیں گے؟ اس
سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، کیونکہ ہم سب کو ہی سب کچھ کرنا اور
سنبھالنا ہے۔ یہ ہمارا ہی بنایا ہوا نظام ہے جو ہم سے ہی اچھی یا بُری بنتی
ہے، تبھی شخصیت کی سوچ میں تبدیلی کے خطرناک نتائج آج کل سامنے آ رہے ہیں۔
اگر نظام ٹھیک طرح سے کام کر رہا ہوتا تو ہر طرف سے تبدیلی کی بات نہ
اٹھائی گئی ہوتی۔ صرف حکومت اور حکومتی اداروں میں کام کرنے والے لوگوں میں
خدمتِ احساس جگانے سے ہی کچھ نہیں تبدیل ہونے والا، شخصیت کی سوچ بدلے گی
تو خاندان، معاشرہ ، ضلع اور قوم کی سوچ خود بدل جائے گی۔ شخصیت کی سوچ
اچھی تعلیم اور اچھے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے بدلی جا سکتی ہے، لیکن
سنجیدہ ہونا تو دور کی بات ہے ہم اس کی طرف کسی طرح کی توجہ بھی دینے کو
تیار نہیں۔ایسے میں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کسی درخت کی جڑ میں کیڑے لگ
جائیں اور اس کی ٹہنیوں پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاﺅ کرنے سے بیماری کا
علاج کیسے ممکن ہو پائے گا۔
اگر ہم لوگ اپنی روایت اور ثقافت کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ مذہب اور
منافقت میں الجھا کر موضوع کی سنجیدگی کو ہی ختم کرنے کے دَر پہ لگ جاتے
ہیں، جب کہ روایت اور ثقافت سے مراد انسانوں کے اقدار کی بات ہی تو کرنا
مقصود ہوتا ہے۔ انہی اقدار سے دور ہو جانے کی وجہ سے شخصیتوں کا رویہ جانور
جیسا ہوتا جا رہا ہے ،مطلب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ آج صرف اپنے لئے
ہی جی رہا ہے۔ اسی بدلتی ہوئی سوچ کی وجہ سے منظم، عامل، اور عدلیہ کے ساتھ
صحافت کے دامن پر بڑے بڑے نشان نظر آ رہے ہیں، لیکن داغ قدرتی نہیں لگتے اس
داغ کو دھونے سے ہی تمام شفافیت نکھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ان داغوں کو قدرتی
اس لئے کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان چاروں ستونوں میں کام کرنے والے اشخاص اسی
معاشرے کا حصہ ہیں، اصل میں احتجاج، سرکاری مشینری کو ٹھیک کرنے کی بجائے
اخلاقی تعلیم اور اچھے ٹی وی پروگراموں کے لئے ہونے چاہیئں۔ آج کی نسل کو
اگر بہترین تعلیم کا زیور میسر آجائے تو وہ مثالی شہری بنایا جا سکتا ہے۔
ٹی وی اور میڈیا آج زیادہ تر خاندانوں کا حصہ بن گیا ہے جس کی وجہ سے ٹی وی
کا اثر بچوں پر ماں باپ اور استاد سے کہیں زیادہ ہوتا نظر آرہا ہے اس لئے
میڈیا کے ذریعے گھر خاندان میں بہتر ماحول دے کر مثالی ملک کے ان نونہالان
کو اچھے اچھے اسباق دے کر ایک وسیع اور شفاف درخت کی مانند بنایا جا سکتا
ہے۔ ہمارے بچوں میں یوں تو وطن سے محبت اور فرض شناسی کے جذبات کُوٹ کُوٹ
کر بھرے ہیں بس ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ان کے جذبات اور احساسات کو کس
طرح اجاگر کرایا جا سکتا ہے جس سے وہ اپنے اندر حرکت محسوس کر سکیں۔
پُرانے سال نے جو مسئلے دیئے تھے ہمیں
یہ سالِ نو ہمیں ان مسئلوں کا حل دے دے
ہم اپنے اہلِ وطن کو خوشی کے گوہر دیں
ہمارے دل کو خدا جذبہ عمل دے دے
کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ افراد کے اکھٹے ہونے سے ایک خاندان وجود میں آتا
ہے۔ خاندانوں کے ملنے جلنے سے محلہ، شہر اور معاشرہ تعمیر ہوتا ہے۔ اسی طرح
بات کو اور وسیع کیا جائے تو کچھ گاﺅں کو ملا کر ایک ترقی سیکشن وجود میں
آتا ہے، کچھ ترقی شدہ علاقوں کو ملا کر ایک تحصیل اور کئی تحصیلوں کو ملا
کر ایک ضلع بنایا جاتا ہے۔ پھر کچھ اضلاع کے گروپ کو ایک کمشنری اور کئی
کمشنریوں کو ملا کر ایک ریاست کی تشکیل کی جاتی ہے۔ اور پھر انہی ریاستوں
یا صوبوں کو ملاکر ایک ملک کی تعمیر ہوتی ہے۔ (اور لازمی ہے کہ اسی طرح
ملکوں کو جوڑ کر پوری دنیا تخلیق کی گئی ہوگی) خاندان سے لے کر ریاست یا
صوبوں تک کی بنیاد ایک ہی ہوتی ہے اگر شخص کا لفظ ہٹا دیا جائے تو تمام
اداروں کا وجود خود بخود ہی ختم ہوتا نظر آئے گا۔ اس کے باوجود آج یہ خیال
بہت عام ہو گیا ہے کہ معاشرے کا ماحول خراب ہو تا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے
تمام حصہ کرپٹ اور لاپروا ہو گئے ہیں، ملک اور معاشرہ کی کسی کو فکر ہی
نہیں ہے۔ تمام ہی فرد و افراد ذاتی مفاد کی تکمیل میں لگے ہوئے نظر آرہے
ہیں۔فرض پر عمل کرنا شاید کسی کی ترجیح میں شامل ہی نہیں ہے۔ اسی طرح کے
اور دیگر واقعات جو کسی نہ کسی چوراہے، فٹ پاتھوں، گاﺅں کی چوپالوں کے ساتھ
بس، ٹرین ، ہوائی جہاز، اور دیگر سواریوں کے سفر کے دوران یا کسی بھی بحث
کی جگہ پر سننے کو عام طور پر مل ہی جاتے ہیں۔ اس طرح کے حالات و واقعات کو
سننے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے کہ معاشرہ، محکمہ، وزارت، حکومت یا قوم کوئی
تو ہے نہیں، جو ان کی اپنی کوئی سوچ ہو، تو پھر یہ سب خراب کیوں نظر آ رہے
ہیں۔
ویسے تو ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جواب تو بالکل
سیدھا سادھا سے ہے کہ ان سب کی بنیاد شخص ہے اور شخص بھی کسی اور ملک کے
نہیں، بلکہ اسی ملک کے ہیںجو خاندان اور معاشرہ سے لے کر منظم، عاملہ،
عدلیہ، اور صحافت کو سنبھال رہے ہیں۔ مطلب صاف ہے کہ اگر زیادہ تر جگہ ایک
ہی جیسا آلودہ ماحول نظر آتا ہے تو نظام سنبھالنے کی ذمہ دار کرپٹ اور لا
پرواہ کیوں نظر آتے ہیں۔ تو کہیں نہ کہیں شخصیت ہی خرابی کے دہانے پر ہے ۔
اس وقت ملک میں چاروں طرف کا ماحول نہ صرف خراب دکھائی دے رہا ہے بلکہ زوال
پذیر بھی ہے۔کسی ایک کے کچھ کرنے سے نہ سب کچھ صحیح ہو سکتا ہے اور نہ ہی
سب کچھ غلط ، اس لئے ہم سب کو مل جل کر معاشرے کی ابتدائی اوور ہالنگ کرنے
کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن ، بیروزگاری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اور دوسرے
مسائل میں گھرے ہوئے ملک اور عوام کو خوشگوار فضا میں لانے کے لئے پُل کا
کام سر انجام دے سکیں۔
یہ بد ترین صورتحال ہے جس کی فکر میں ملک کا ہر شہری خاص طور پر باضمیر اہل
وطن اس وحشیانہ طرزِ عمل کو بند کر دینا چاہتے ہیں ، ویسے بھی برادر کُشی
کے اس کاروبار میں مارنے اور مرنے والے دونوں کے لئے کوئی راہِ نجات نہیں
ہے اس طرح کے واقعات سے دنیا کو یہی پیغام جا رہا ہے کہ اسلام میں تشدد اور
خون خرابہ کی پوری آزادی ہے (نعوذ باللہ) حالانکہ اسلام بنیادی طور پر امن
، عافیت اور خیر سگالی کی تعلیم دیتا ہے۔آج ان تمام معاملوں پر اکھٹے ہوکر
سوچنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والا وقت ہم سب کا بہتر
مستقبل ہو ۔ آج کے حالات و واقعات کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ
آنے والا وقت اور زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ ملک کے غافل شہریوں
(غفلت کی نیند سونے والے) سے بہترین ملک کی تشکیل مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس
لئے بہتر ہے کہ ہم کروٹ لے کر سونے کے بجائے سب مل کر ملک کو مضبوط بنانے
کے لئے کوشاں ہو جائیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
آمین۔ |