تحریر : ڈاکٹر بشیر شاہین
انسان اللہ تعالی کی جمالیاتی تخلیقی فضیلت کا شاہکار ہے جس سے وہ شدید
محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا یہ حسین شاہکار جس کو اس نے فکروعمل
اور ادارہ اختیار کی آزادی سے پیراستہ کرکے اس دنیا میں بھیجا ہے ۔ دنیاوی
زندگی کے دوران اچھے اعمال کرے تاکہ وہ امتحان گاہ دنیا میں کامیاب ہو کر
اپنی اصل زندگی جنت قرة العین میں بسر کرے ۔ انسان فطرةً متمدن ، مہذب اور
مل جل کر رہنے والا بشر ہے ۔ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اسے بنیادی
ضروریات زندگی مثلا روٹی ، کپڑا ، پانی ، بجلی ، گیس ، علاج معالجہ ، تعلیم
وتربیت ، سفری سہولیات ، عدل وانصاف وغیرہ درکار ہوتی ہے ۔ ان اشیاءکی غیر
موجودگی میں میں ایک انسان کے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرنا ممکن نہیں
رہتا جس کے نتیجے میں لوگ قرآن حکیم کے احکام وقوانین وہدایت وتعلیمات پر
عمل کرکے انسانیت کے اس شرف پر فائز نہیں ہو سکتے جو رب رحمان کامقصود
حقیقی ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کی فطرت کو اپنی
فطرت کے مطابق بنایا ہے معلوم ہوا ہے کہ انسان فطرةًاچھائی کو پسند کرتا ہے
اور برائی سے نفرت کرتا ہے ۔اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے کہ قرآن حکیم اور
پیغمبر اعظم ﷺ اس پر شاہد ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن لوٹ مار ،
ڈاکہ زنی ، قتل وغارت ، اغواءبرائے تاوان معاشرے کی ایک بھیانک بیماری نہیں
ہے ؟اگر ہے تو آدمی اسے کیوں کر گلے سے لگا لیتا ہے ؟ بنیادی ضرورت زندگی
کے حصول کے بغیر انسان کا دنیا میں زندہ رہنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل
ضرور ہو جاتا ہے کیونکہ انسان آسائشوں کو حاصل کرنے کے لیے غلط ملط طریقوں
پر اپنے آپکو استوار کرکے بے راہ روی کا شکار ہو کر معاشرے میں جرائم شروع
کر دیتا ہے تاکہ راتوں رات امیر بن جاﺅں ، خوشحالیاں حاصل کر لوں،کرپشن ،
لوٹ مار ، قتل وغارت ایک وبائی بیماری ہے انسان اگر ایک مرتبہ اپنے بچے کو
موت کے منہ سے بچانے یا کسی اور جان لیوا ضرورت سے پیچھا چھڑانے کے لیے
ڈاکے ، لوٹ مار اور اس قسم کی قبیح حرکت کر تا ہے جس کے بعد ان بیماریوں سے
پیچھا چھڑا نا مشکل ہو جاتا ہے پھر یہ بیماریاں معاشرے کے نفس اجتماعیہ کو
اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ گزشتہ سالوں کا واقعہ ہے کہ ملتان میں عوام نے
دو ڈاکوﺅں کو پکڑ کر تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ پولیس منہ دیکھتی
رہ گئی اور بعد میں لوگوں نے لاشیں گھسیٹتے ہوئے پولیس ڈالے تک لائیں اور
اپنے فرض سے سرخرو ہوگئے ۔یہ پہلا واقعہ نہیں کہ لوگوں نے قانون کو ہاتھ
میں لیتے ہوئے دو ڈاکوﺅں کو عبرت کا نشان بنا دیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی
بار ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جب لوگوں نے فوری انصاف کا مظاہر ہ کرتے ہوئے
ڈاکوﺅں یا قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اس خطرناک
روش کو آگے بڑھنے سے کون روکے گااور پولیس پر سے عوام کا جو اعتماد اٹھتا
جا رہا ہے اسکی بحالی کے لیے اقدامات کب اور کون اٹھائے گا۔ پولیس نے خود
کو جس طرح بے بسی کی علامت بنا لیا ہے اس کے نتیجے میں معاشرہ تیزی سے
تباہی کی طرف جا رہا ہے مگر اسے تباہی سے بچانے کی تدبیر کہیں نظر نہیں
آرہی ۔ اگر پاکستان کے سرکاری اداروں کے بارے میں یہ سروے کروایا جائے کہ
کون سا ادارہ سب سے زیادہ عوامی اعتماد سے محروم ہے تو سب سے پہلے نمبر پر
پولیس کا محکمہ ہی آئے گا۔ افسوناک امر یہ ہے کہ حکومتی سطح پر پولیس کی
کریڈ بلیٹی بہتر بنانے کے لیے کبھی مثبت اقدامات نہیں کئے گئے ۔ نتیجہ یہ
نکلا کہ عوام اور پولیس کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی
پولیس کے سامنے حکومتوں کی بے بسی بھی اس ادارے کے بارے میں منفی تاثرات کو
جنم دینے کا باعث بنی ہے ۔ حکمرانوں کی طرح سے پولیس کی اصلاح کے لیے کیے
جانےوالے اقدامات نے جہاں عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ۔ وہاں
قانون شکن عناصر کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں ۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ پولیس
قانون شکنوں اور طاقتورعناصر کے مقابلے میں شریف شہریوں کا تحفظ نہیں کر
سکتی ۔ ہر آنے والا نئے حکمران کو یہ بیان ضرور دینا پڑتا ہے کہ وہ تھانوں
کو دارالفلاح بنانا چاہتا ہے تاکہ شریف شہری تھانوں میں جاتے ہوئے خوف
محسوس نہ کریں ۔ اب جس معاشرے کے تھانے شرفاءکے لیے خوف کی علامت بن جائیں
اس معاشرے میں پولیس عوام کا اعتماد کیوں کر حاصل کر سکتی ہے ۔ خطرناک
ملزموں کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ پولیس گواہان کو
بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتی ۔ اب تو خطرناک ملزمان عدالتوں کے اندر پہنچ
کر گواہوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے جب قانون کے مقابلے میں لوگ قانون
شکنوں سے ڈرنے لگ جائیں تو اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ معاشرے میں امن وامان
کے لیے پولیس کا ادارہ ہی ختم کر دیا جائے ۔ اگرچہ یہ جذباتی اور ناقابل
عمل مطالبہ ہے ۔پولیس کے بغیر جدیداور ترقی یافتہ پرامن معاشرے کی تشکیل
ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ سائنس ترقی کی بدولت معاشرے میں آسائشیں اور
سہولیات آنے کے ساتھ ساتھ حرص، طمع اور خطرناک اسلحے میں بھی اضافہ ہو ا ہے
تاہم اس کے باوجود پولیس کے بارے میں عوام کے اندر اس بڑھتے ہوئے تاثر سے
اس نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو پولیس کے رویئے کی وجہ سے لوگوں میں
مسلسل پروان چڑھتاجا رہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کو ان کے حال پر چھوڑا
جا سکتا ہے ؟کیا پولیس کے بگاڑ کا سبب خود پولیس والوں کی ذہنیت ہے یا
انہیں مراعات یافتہ اور حکمرانوں نے اپنی مداخلت اور مفادات کے لیے بگاڑ
دیا ہے ؟ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں تو اپنا پیٹ ہی ننگا ہوتا ہے اس تلخ
حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پولیس اور معاشرہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں
لیکن ان دونوں کا تعلق ایسا نہیں رہا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا ۔ معاشرہ
پولیس کے وجود کو تسلیم قبول کرتا جبکہ پولیس معاشرے کے احترام سے منکر ہو
چکی ہے ۔ معاشرے کا فائدہ تبھی ہے جب پولیس کی اصلاح اور اسکا زہر نکال کر
اسے معاشرہ کے لیے مفید ادارہ بنا دیا جائے مہذب دینا ہے ۔ پولیس کا وجود
مثبت تصور موجود ہے پاکستانی پولیس کو بھی اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہونی
چاہیے ۔ جہاں تک ممکن امن وامان کے عوض پولیس مزید اپنے اندر نکھار پیدا
کرنا چاہیے بعض کمزور لمحوں میں پولیس درے دباﺅ میں آکر کار کر دگی بڑھانے
کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اپنے بندر مار کر کار کر
دگی کے لیے ذریعے حکمرانوں کو ریلیف اور قانون شکنوں کو جعلی پیغام پہنچاتے
ہیں ۔ یہ طریقہ کبھی بھی جرائم کو کنٹرول کرنے میں کار گر ثابت نہیں ہو ا
اور نہ ہی اس سے پولیس پر عوامی اعتماد کو مضبوط بنانے میں کوئی مدد کی ہے
۔ جہاں تک پولیس کے بگاڑ کا سبب پولیس والوں کی ذہنیت اور پولیس کلچر تو
اسکا سادہ جواب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں پیدا ہونے والا کوئی بچہ قانون
شکن نہیں ہوتا بلکہ حالات اسے جو چاہے بنا دیں ۔ اسی طرح پولیس والوں کی
ذہنیت کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ پولیس میں تو اعلی
تعلیمی درگاہوں سے پڑھے ہوئے ایس پیز اور ای ایس پیز افسران کی بھی کمی
نہیں تو اعلی اجر اور اعظیم آور کاوشوں اورمحنت کے بل بوتے پر پولیس کے
محکمہ میں داخل ہوتے ہیں لیکن اس میں داخل ہوتے ہیں نجانے کیوں کان نمک
ومرچ بن جاتے ہیں ۔ پولیس اور حقیقت ایک ایسا ٹینک ہے جس پر معاشرے کا ہر
جھوٹا برآمد حکمران سوار ہونے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ اپنی طاقت کا لوہا
منوا سکے ۔ جس معاشرے کے عوامی نمائندوں کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہو کہ
اپنے علاقے میں پسند کا ایس ایچ او تعینات کروانا ہے تاکہ اسکی چوہراہٹ
قائم ہو سکے ۔ اس معاشرے کی پولیس کو قانون کی پاسداری کیونکر بنایا جا
سکتا ہے ۔ ایک بات طے ہے کہ جب تک پولیس کو قانون کو عوامی نمائندوں یا
بالادست طبقوں کی بجائے قانون کے سامنے جوابدہ نہیں بنا یا جا سکتا ۔ اس
وقت تک پولیس کا قبلہ درست نہیں ہو سکتا ۔ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ میرٹ
کو فروغ دیے بغیر پولیس کلچر تبدیل نہیں تاہم اس میں اضافہ یہ کیا جا سکتا
ہے پولیس میں احتساب کو رائج کیے بغیر بھی پولیس کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں
کر سکتی ۔ ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو معاشرہ میں ہر طرف پولیس ہی پولیس
کی ہاہا کار مچی ہوئی ہے ۔ اخبارات کے صفحات پولیس والوں کی انصافیوں اور
بااثر لوگوں کے ایماءپر مظلوموں کے خلاف ناجواز یوں سے بھرے پڑے نظر آتے
ہیں ۔ تو دوسری طرف پولیس کے سامنے مشتعل عوام بندہ مار دیتے ہیں یہ صورت
حال پولیس کے اعلی افسران اور حکمرانوں کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے ۔
جو ادارہ مکمل طور پر اپنی کریڈ بلیٹی اور اعتماد کھو بیٹھے وہ جلد یا بدیر
عوامی نفرت کا ہدف بن کر اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے پولیس ایک ایسے ہی
راستے پر چل رہی ہے جس طرح کہا جاتا ہے کہ بینک دیوالیہ ہو جائیںتو معیشت
تباہ ہوجاتی ہے ۔ اس طرح پولیس کا ادارہ اگر عز ت ووقار کھو بیٹھے تو
معاشرے میں انارکی پھیلتی ہے اس انارکی کا راستہ روکنے کی تدابیر اور اس
تدبیر پر عمل وقت کی اشد ضرورت ہے اس حوالے سے ایک دوسرے کو الزام دینے سے
بات نہیں بنے گی کیونکہ پولیس معاشرے کا حصہ ہے اور ہم سب ایک ہی کشتی میں
سوار ہیں ۔ ملک میں امن وامان قائم کرنے اوراصلاح واحوال معاشرے کی فلاح
وبہبود میں بہتری لانے کے لیے ہم سب کو پولیس کے ساتھ بھر پور تعاون کرنا
چاہیے ۔ معاشرہ اور پولیس لازم وملزوم ہیں ۔ اگر ہم مشکل وقت ہیں پولیس کی
رہنمائی کریں گے تو انصاف میں آسانی پیدا ہو سکے گی اور دونوں میں رہنمائی
کے ذریعے اخوت اوربھائی چارے کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ تو ہم اس طرح ایک دوسرے
کے قریب ہو سکیں گے ۔ جس سے قانون کو بھی مدد حاصل ہو گی ۔ |