ہمیں اکیسویں صدی میں داخل ہوئے
زیادہ عرصہ نہیں گذرا مگر ہم گذشتہ صدی کا جائزہ لیں کہ ہم نے معاشی ،
صنعتی ، تجارتی ، ثقافتی ،قومی اور تعلیمی سطح پر کیا کیا کیا؟
گو کہ مغربی تہذیب ایک عرصہ ہوا ہم پر مسلط کر دی گئی ۔ نئی صدی کے تقاضوں
کو مدنظر رکھ کے دیکھیں تو ایک سوال بار بار ذہن کے صفحہء قرطاس پر دستک
دیتا سنائی دیتا ہے کہ آخر کب تک ہم ایک مضطرب ، بے چین ،بے قرار اور بکھری
قوم کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے ؟ آخر وہ کون سی چیز ہے جو ہماری
بے چینی اور اضطراب کو حتم کرنے میں کار آمد ہو سکتی ہے۔اور وہ کون سی
رکاوٹ ھے جوہمیں یکجائی سے روکتی ہے جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں ۔وہاں اہل
علم و دانش کا خیال ھے کہ انسانیت ننگ وطن کرنے میں مغربی تہذیب کا کردار
بہت واضح ہے اور اب تو یہ اور کھل کے زیادہ گھناؤنے انداز میں سامنے آیا ہے
۔اس بات سے کوئی مفر نہیں کہمغربی تہذیب کے جرائم ہی ہیں جنہوں نے انسانیت
کو اسلامی معاشرے میں بھی عریاں کر دیا ہے اور اسلامی شعوروپیرہن سے ہمیں
یکسر بے گانہ اور بے نیاز کر دیا اور ہم اندھا دھند بلا سوچے سمجھے مغرب کی
بے پایاں سائنسی ترقی حیرت انگیز جدید ترین ٹیکنالوجی اور قابل رشک قسم کی
اقتصاد ی اور معاشی خوشحا لی کو دیکھتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں شایدہم یہ
بھول چکے ہیں کہ علم و فن کے گہوارے اور دولت کدے تو مکے مدینے ، بغداد اور
قرطبہ میں ہوا کرتے تھے جو علم و فن کی دولت سے مالا مال تھے ا ور سچ تو یہ
ھے کہ ا سی دولت و ہنر کو اپنا کر آج اہل مغرب خود کو مہذب کہلوا رہے ہیں ۔مغربی
تہذیب کئی صدیوں سے ہماری رگوں میں سلو پوائزن کی طرح سرائیت کر رہی ہے اور
ہم اکیسویں کے آغاز تک بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ مقام افسوس ھے کہ
اہل مغرب نے ہمیں اپنی اقدار کو فراموش کرنے کا ہنر سکھا دیا اور ہمارے
ہاتھوں میں کشکول پکڑا دیا ۔اگر اپنے اردگرد نظر دوڑایں تو ہمیں ہر مردوزن
مغربی ما حول میں لتھڑا نظر آیئگا۔ ہم نے اپنے اسلاف کی تمام درخشاں روایات
کو بھلا دیا اور الٹا مغرب کی پیروی کر کے اپنے معاشرے میں عریانی ،فحاشی ،
،چرس ، افیم ،اور شراب نوشی جیسی لعنتوں کو قبول کر لیا ۔
علامہ اقبال نے اسی لیئے مغربی تہذیب کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا ،اس نے
زندوں کو مردہ اور مردوں کو مردوں سے بدتر کر دیا ہے ،، تہذیب فرنگ کی تمام
رنگینیاں جو نگاہ کو خیرہ کرتی ہیں اہل عقل و بصیرت کے لئے تو باعث عبرت ہے
۔۔مغربی تہذیب کس طرح ھماری بنیادوں اوراقدار کو کھوکھلا کر رہی ھے کبھی
سوچا ھم نے کہ ہم کس طرح غیر محسوس طریقے سے مغرب کے پھیلائے جال میں پھنس
رہے ہیں ۔ مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں ،عریانیت کا طوفان، ہماری نودمیدہ نسل
کے لئے بدترین خطرہ ہے ۔کسی بھی ملک و قوم کو تباہی سے دو چار کرنا ہو تو
اس کی نوجوان نسل کو برباد کر دو ۔ایک طرف تو یورپ اور دوسری طرف امریکہ جو
آئے دن نت نئے طریقوں سے اپنی تہذیب کے اثرات ہماری شریانوں میں اتارنے میں
مصروف ھے۔ڈش۔کیبل۔انٹرنیٹ۔اس کا بہت بڑا زریعہ بن گئے ہیں ایجاد کوئی بھی
غلط نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے غلط یا درست بناتا ہے ۔مغرب والے ہمارا
طرز فکر اپنا کر ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم ان مغربی عناصر کو
اپنا کر روز بروز تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں ۔مغرب کی تمام تر ترقی وتہذیب
قرآن پاک کی مرہون منت ہے ۔سائنس کی جتنی تحقیقات وایجادات جو آج تک ہوئیں
وہ بلا مبالغہ قرآن پاک کے علم کے زور پہ ہیں ۔یعنی ان سب کی پیشن گوئیاں
کسی نہ کسی حوالے سے قرآن پاک کے مختلف پیرائے میں موجود ہیں کیونکہ رب
العزت نے کائنات کو انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے ۔قرآن پاک میں تسخیر
کائنات کے متعلق چھ سو سے زائد آیات موجود ہیں ۔،،
قرآن پاک کے ستا ئیسویں پارے میں سورہ رحمان کی آیت نمبر ۳۵سے۳۳ میں ارشاد
باری تعالی ہے ، اے جنوں اور انسانوں کے گروہ اگر تم سے ہو سکے تو زمین اور
آسمان کے مدار میں سے نکل کر آگے نفوذ کر جاؤ تو نہ کر سکو گئے سوائے اﷲ کی
مدد کے۔
بحر طور اہل مغرب نے جو تہذیب اختیار کی وہ ان کی خود ساختہ ہے لیکن ان کی
علمی اور مادی ترقی اسلامی اور قرآنی علوم کی مرہون منت ہے اگر ہم چاھتے کی
اکیسویں صدی میں اہل مغرب سے آگے نظر آئیں تو پھر ہمارے لیئے بہت ضروری ہے
کہ اخلاق باختہ اور حیا سوز تہذیب کو اپنے اندر جذب نہ ہونے دیں۔لیکن ان کے
علمی ترقی کے رموز سے آگاہی حاصل کر کے خود کو ان پہ برتر ثابت کریں ۔
بلاشبہ ہماری تہذیب ایک شاندار پس منظر رکھتی ہے جس پہ عمل کر ک ہم پوری
دنیا کے لیئے ایک پر شکوہ مثال پیش کر سکتے ہیں ۔تبھی ایک روشن صی بانہیں
وا کیئے ہماری منتظر ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ََ |