(این آئی پی) لاہورنے بھی ایک
خبر اس سلسلے میں بریک کی تھی کہ وفاقی حکومت آئندہ عام انتخابات کو مد نظر
رکھتے ہوئے یکم جنوری 2013ءسے پے اسکیلز پر نظر ثانی کرکے سرکاری ملازمین
کی تنخواہوں میں اضافے کا اصولی فیصلی کر چکی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا
ہے کہ وفاقی حکومت نے 2013ءمیں ہونے والے عام انتخابات کو مد نظر رکھتے
ہوئے نگران سیٹ اپ کے قیام سے قبل سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ
کرکے نئے نظر ثانی شدہ پے اسکیلز رائج کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ نئے پے
اسکیلز کا اطلاق یکم جنوری 2013ءسے ہوگا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس
ضمن میں وفاقی محکمہ خزانہ نے سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کی
سربراہی میں قائم پے اینڈ پنشن کمیشن سے کہا ہے کہ نظر ثانی شدہ پے اسکیلز
رواں مالی سال کے بجٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کئے جائیں تاکہ سرکاری
خزانے پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے اور ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ اضافہ بھی
ہو جائے۔
گذشتہ چند مہینوں سے مختلف اخباروں میں یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ نئے
انتخابات سے قبل ملک کے سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہوں کا نیا اسٹریکچر
تیار کیا گیا ہے۔ اور نئے انتخابات سے قبل اس پر عمل در آمد بھی کر دیا
جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ مطابق پے اینڈ
پنشن کمیٹی اور وزارتِ خزانہ کے ریگولیشن ونگ نے باہمی مشاورت سے سرکاری
ملازمین کے ریشنلائزڈ پے اسٹرکچر کا مسودہ تیار کرکے وفاقی کابینہ سے
منظوری کے بعد صوبوں کو بجھوا دیا ہے۔ ریشنلائز پے اسٹرکچر کی منظور ی میں
گریڈ ایک کے ملازم کی بنیادی تنخواہ 4800سے بڑھا کر 7800روپے جبکہ سالانہ
انکریمنٹ 150سے بڑھا کر 250روپے کیا جانا ہے۔ اسی طرح پھر مختلف گریڈ کے
ملازمین کے لئے بھی فوائد بڑھائے جانے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور
میں سرکاری ملازمین کیلئے یہ احسن اقدام تصور کیا جا رہا ہے۔ مگر تاحال اس
سلسلے میں حکومتی اداروں میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ جبکہ اب کچھ ہی ہفتوں
میں ان کی حکومت تحلیل بھی ہونے والی ہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازمین کی
تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اور یہ بات موجودہ حکومت کے علم بھی لازمی ہے اس
لئے حکومت کو چاہیئے کہ آئندہ منتخب ہونے کا خواب ضرور دیکھے مگر اس طرف
بھی اپنی توجہ مبذول کرے تاکہ آپ جو خواب دیکھ رہے ہیں اس میں ہو سکتا ہے
کہ یہ سرکاری ملازمین بھی شامل ہو جائیں۔ اور ویسے بھی آج کے تیز رفتار دور
میں پرانی کہاوت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ ” تالی دونوں
ہاتھوں سے بجتی ہے“ لہٰذا حکومت سرکاری ملازمین کو جو اضافہ دینے والی تھی
اس پر سنجیدگی سے توجہ دے اور فی الفور عملی اقدامات کے ذریعے اسے لاگو کرے
تو یہ لاکھوں ووٹ بھی ان کی طرف سر نگوں ہو سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں نا کہ گیند
اب حکومت کے کورٹ میں ہے، دیکھئے وہ کیا اقدامات کر سکتے ہیں اپنے خوابوں
کی تکمیل کے لئے۔
اخباروں اور میڈیا کے ذریعے یہ خبر بھی کچھ دنوں پہلے زبان زدِ عام تھی کہ
صدر صاحب نوجوانوں کے لئے کسی پروگرام کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تین لاکھ
ہنر مندوں کو روزگار شروع کرنے کیلئے بلا سود قرضہ بھی فراہم کیا جائے گا۔
جس سے ہنر مند نوجوان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نظر نہیں آتا تھا مگر تاحال
اس پر بھی کوئی کاروائی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔ کیا یہ اعلان صرف
اخباروں تک ہی محدود تھا۔ یا پھر پردے کے پیچھے سے ہی یہ تمام کاروائی جاری
ہے اور عام نوجوان پھر ان فوائد سے محروم ہی رہیں گے۔ اخبار نے یہ بھی لکھا
تھا کہ اس پروگرام کا نام ” روزگار کی فراہمی ، خوشحال پاکستان کی نشانی “
ہوگا۔ اس پروگرام کے تحت غیر ہنر مند نوجوان جن میں سندھ کے ستر ہزار،
پنجاب کے دیڑھ لاکھ اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے چالیس چالیس ہزار
اور ہنر مند نوجوانوں کو دو دو لاکھ روپئے قرضے فراہم کئے جائیں گے جبکہ
قرضے کی واپسی ایک ہزار روپئے ماہانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ تو یہ اعلانات کہاں
گئے۔ کیا بیورو کریسی نے اسے فائلوں کے نظر کر دیا یا پھر جان بوجھ کر اس
اقدام کو بھی ردّی کی نظر کرنے کی تیاری جاری ہے۔ ایسے اقدامات حکومت کے
لئے نہ صرف نہایت سازگار ہونگے بلکہ اگلے الیکشن میں یہ اقدامات ان کے لئے
دوبارہ وجود کی راہ ہموار بھی کر سکتے ہیں۔
ملازمین کی ایک اور شکایت یہ بھی ہے کہ بیس بیس اور پچیس پچیس سالوں کی
نوکری کرنے کے باوجود انہیں ترقی نہیں دی جاتی۔ اور نئے بھرتی ہونے والے
افراد ان سے کہیں زیادہ گریڈ میں تعینات کر دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ تجربے کے
لحاظ سے پرانے ملازمین کو کام پر زیادہ عبور حاصل ہوتا ہے۔ مگر پتہ نہیں
کہاں پر خرابی ہے ، کون سے افسران ایسے ہیں جنہیں تجربہ کار پرانے ملازمین
نظر نہیں آتے اور نئے ملازمین کو پرانے ملازمین پر ترجیح دے دی جاتی ہے۔
جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ پرانے ملازمین کو اس کی تعلیمی قابلیت اور تجربے
کی روشنی میں اگلے عہدوں پر ایمانداری سے ترقی دیا جاتا اور نئے بھرتی ہونے
والوں کو ان پرانے ملازمین کی خالی کردہ آسامی پر تعینات کیا جاتا مگر
چونکہ ہمارے یہاں ہر طرف بدحالی ، رشوت، اور کرپشن موجود ہے اس لئے اس
معاملے پر بھی شفافیت کے ساتھ عمل در آمد نہیں کیا جاتا ہے۔ اداروں کے
ارباب کو چاہیئے کہ وہ خود ان سب باتوں اور خامیوں پر توجہ دیں تاکہ پرانے
اور تجربے کار ملازمین کی حق تلفی نہ ہو۔
کئی اداروں میں ہونے والے گھپلوں، بدعنوانیوں اور غیر قانونی بھرتیوں پر
حکومتی مشینری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور انتظامیہ بھی عدم تعاون کے
جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ گورنر سندھ صاحب نے ابھی حال ہی میں سندھ یونیورسٹی
کے ملازمین کو پلاٹ دینے کی ایک اسکیم کی منظوری دی ہے ، جو کہ غریب
ملازمین کے لئے نہایت ہی مستحسن اقدام ہے جسے ہر سطح پر سراہا جا رہا ہے۔
چونکہ وہ سندھ کے جامعات کے چانسلر ہیں اس لئے انہیں دوسرے اداروں کے غریب
ملازمین کے لئے بھی ایسی اسکیموں کی سمری منگوا کر منظوری فوری دینی چاہیئے
تاکہ دوسرے ملازمین کی طرح اور اداروں کے ملازمین بھی اس بہت ہی خوبصورت
اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اسی طرح ایک ایشو یوٹیلیٹی الاﺅنس کا بھی ہے جسے سندھ گورنمنٹ نے 2مارچ
2012ءکو ایک لیٹر کے ذریعے جس کا نمبر ہے FD(SR-II)-5-145/2012جاری کیا تھا
مگر اس لیٹر پر صرف اور صرف سندھ سول سیکریٹریٹ اور پروونشل اسمبلی سندھ کے
ملازمین ہی کو اس الاﺅنس کا حقدار ٹھہرایا تھا اور انہیں ہی دیا بھی گیا۔
اور یہ الاﺅنس بحوالہ اس لیٹر کے جنوری 2012ءسے دیا گیا تھا۔ مگر کیا سندھ
میں اور سرکاری محکمے کام نہیں کر رہے ہیں۔ کیا مہنگائی صرف ان ہی دو شعبوں
کے ملازمین کے لئے کی گئی تھی بقیہ ملازمین اس مہنگائی کے ناآشنا ہیں۔ نہیں
سبھی ملازمین مہنگائی کے اس ایندھن کا حصہ ہیں مگر ان کی داد رسی نہیں
ہوئی۔ سندھ کے بقیہ سرکاری ملازمین آج تک آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی
مجوزہ یوٹیلیٹی الاﺅنس دیا جائے مگر تاحال اس معاملے پر ہر طرف سنّاٹے کا
راج ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جنہیں نوازا جانا تھا انہیں نواز دیا گیا ہے۔ اور
بقیہ ملازمین کے لئے بس اتنا ہے کہ وہ اللہ اللہ کریں اور بس!ملازمین دشمنی
یہاں سے بظاہر سمجھا جا سکتا ہے۔ سندھ حکومت کو بھی یوٹیلیٹی الاﺅنس والے
معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاکہ غریب ملازمین کی داد رسی ہو سکے۔امید
ہے کہ دو شعبوں کے ملازمین کو جس طرح اس الاﺅنس سے نوازا گیا ہے بقیہ رہ
جانے والے ملازمین کیلئے بھی یہ خوشخبری کا لیٹر جلد جاری کر دیا جائے گا
تاکہ ان کے گھروں کا چولہے بھی جلتے رہیں۔ |