ہم تنقید کر کر کے اور سن سن کے
تھک چکے ہیں ہر چیز کی اصل خوبصورتی اس کے ساتھ متعین اس کی حدود سے ہوتی
ہے اسی طرح تنقیدکو بھی پرکشش رکھنے کے لیے اس کو حدود میں اور بامقصد ہونا
چاہیے اگر ہم تنقید کے بعد اس مسئلے کا کوئی حل پیش نہ کر سکیں تو میری
رائے میں ہماری تنقید با مقصد نہ ہو گی یہاں میں چاہوں گا کہ معاشرے کے
مسائل کی نشاندہی کے بعد ان کے ممکن حل کی کوشش کروں یا پھرآپ کو کم از کم
وجہ مسئلہ کی طرف متوجہ تو کر پاؤں-
آجکل میرے خیال میں ہمارے سب سے بڑے مسائل کرپشن اور دہشت گردی ہیں اور
ہمارا سب کے سب کا حکمرانوں سے لے کر عوام تک یہ حال ہے کہ ہم دوسروں کو اس
کا مورد الزام ٹھرا رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ حکومت میں ہیں
ان کی پاس طاقت ہے اور اس طرح ان پر ذمہ داری بھی زیادہ آتی ہے مگر اس کا
مطلب یہ بھی ہر گز نہ ہے کہ ہم پبلک یا دوسرے ادارے بشمول میڈیا اس ذمہ
داری سے مبراء ہیں ہاں یہ تو سچ ہے کہ ہماری ذمہ داریاں مختلف ہیں مگر ان
سے چٹھکارہ سمجھنا نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑنا بلکہ میں کہوں گا
کہ سب سے بڑی وجہ ہی ہمارا سوچنے کا یہ انداز ہے کیونکہ جب تک ہم اپنی ذمہ
داویوں کو پہچانے گے ہی نہیں تب تک نبھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ہماری قوم کی تمام تر صلاحیتیں غلط اطراف میں
استعمال ہو رہی ہیں جب تک ہمارے تختہ ذہن اور سوچنے کے انداز نہیں بدلیں گے
اور ہماری ڈائریکشنز ٹھیک نہیں ہونگی ہم اپنی مطلوبہ منزل پر کیسے پہنچ
سکتے ہیں-
کبھی ہم شخصیتوں کو تو کبھی نظام کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوتے ہیں یہ ہم
کبھی نہیں سوچتے کہ یہ سب بھی تو ہمی سے ہیں اور ہم ہی تو ہیں جنہوں نے
نظام کو چلانا ہے مثال کے طور پر کیا ہمارے پاس رشوت کو ختم کرنے کا قا نون
نہ ہے یا ادارے موجود نہ ہیں یقینا آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ سب کچھ
موجود ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ بئی سیدھا سا جواب ہے کہ ہم
خوداس کیلیے تیا نہیں ہیں کہ اس قانون اور اداروں کو چلا سکیں اگر اب بھی
آپ میرے ساتھ متفق نہ ہوں تو میں فورم کو آپ کے قیمتی خیالات اور تجویزوں
کے لیے کھلا چھوڑتا ہوں اور اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو اگے بڑھتے ہیں اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری کیا غلطی ہے یا ہم ا س کے لیے کیسے تیار
نہیں ہیں؟ تو میں آپ کی توجہ دوبارہ اپنے اس جملے کی طرف مبذول کروانا
چاہوں گا کہ اس کی تمام کی تمام وجہ ہمارا مائنڈ سیٹ اور انداز سوچ ہے ہاں
وہ کیسے؟ کیوں کہ ہم اپنی حقوق اور ذمہ داریوں سے واقف ہی نہ ہیں ہم اب بھی
اپنے زاتی مفادات اور تحفظات کو قومی اور اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں
ہم اپنے گھروں میں تو سنگ مرمر ڈلوا لیتے ہیں گھروں کے سامنے بڑے بڑے
چبوترے بنوا لیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ نکاسی کا پانی کدہر جائے گا اور
ہماری وجہ سے ہماری گلیاس اور سڑکیں خراب ہو جاتی ہیں مگر ہم الزام حکومت
پر ٹھہراتے رہتے ہیں ہمارے گھر سے کوئی ٹوٹا ہوا لوٹا بھی نہیں اٹھا سکتا
کیونکہ ہمیں اس کی ملکیت اور قیمت کا احساس ہے مگر ہماری گلیاں سڑکیں
ہسپتال سکول اور ادارے تباہ ہو رہے ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے میں نے
علماء کو یہ کہتے سنا ہے کہ اپنے مال ودولت کی حفاظت کرتے ہوئے کوئی جان دے
دے تو وہ شہید ہوتا ہے اور ہم نے ایسی مثالیں بھی دیکھی ہیں کہ لوگ ان کی
حفاظت کرتے ہوئے جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں مگر اپنے قومی اساسوں کی
حفاظت کا کبھی خیال بھی نہیں آیا کیوں؟ اس لیے کہ ابہی تک ہمارے اندر انکے
لیے جزبہ اوراحساس قیمت اور ملکیت پیدا ہی نہیں ہوا -
ہر مسئلے کا حل موجود ہے مگر ضرورت سوچنے کی ہے کہ ہمارے مسائل کی وجوہات
کیا ہیں اور ہم کس طرح سے ان پر قابو پا سکتے ہیں ہر کوئی جہاں جہاں بھی
بیٹھا ہے اگر مثبت طریقے سے سوچے تو مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے آئیے
چند موضوع بحث مسائل کو لیتے ہیں اور اپنی سوچوں کے لیے تختہ مشق بناتے ہیں
مثلا لوگ کہتے ہیں کہ جاگیردارانہ نظام ہماری بہت بڑی وجہ ہے ہر ایک کا
اپنا انداز فکر ہے اورمیں سب کا احترام کرتا ہوں مگر آج آئیے ایک اور انداز
سے سوچتے ہیں دولت اور جائداد کا ہونا یا حاصل کرنا نہ کسی مذہب میں منع ہے
اور نہ قانون میں بلکہ اﷲ کی نعمت ہے اور ہر کوئی بشمول ہم سب اس کے حصول
کے لیے کوشاں ہیں مگر اگر ممانعت ہے تو اس کے زریعہ حصول اور استعمال پر ہے
تو پھر وہی سوال کہ یہ مسئلہ کیوں بنا ہوا ہے؟ سیدھا سی بات : ہماری سوچ کا
انداز , دیکھیں جب ہماری سوچ کا انداز بدل جائے گا تو اگر وہ مجبوریاں پیدا
کر سکتے ہیں تو ان کی بھی تو ان کی بھی بہت ساری مجبوریا ں ہیں ضرورت صرف
بات کو سمجھنے کی ہے اور پھر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی
ان کاروباری حضرات اور جاگیرداروں کو سیاست اور حکومتی معاملات میں اتنی
دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟ آخر اس کی بھی تو کوئی وجہ ہے ہر بات بڑی ہی سادہ ہے
مگر ضرورت سوچنے کی ہے سوچوں کو بدلنے کی آپ سب کی دلچسپی کی ضرورت ہے ہے
تخلیقی سوچوں کی ضرورت ہے اور حل ڈھونڈنے کے بعد عمل کی ضرورت ہے - |