اور اب امریکی ہالوکاسٹ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ایک سروے کے مطابق 1929میں جرمنی میں یہودی تسلط جس درجے کاتھا ،امریکہ کے اندر 1999تک صہیونی لابی بعینہ اسی درجے کاتسلط قائم کر چکی تھی اورتادم تحریراس مقام سے معاملہ کہیں آگے تک پہنچ چکاہے۔سرآرتھربریانٹ(Sir Arthur Bryant)جو1920کی دہائی کے عالمی شہرت یافتہ مورخ ہیں،لکھتے ہیں کہ 1924میں جرمنی کی آبادی میں یہودی محض1%کی نسبت سے موجود تھے لیکن سیاست میں ان کا عمل دخل 25%تک واقع ہورہاتھا،دھاتوںکی تجارت کا57%تک،غلہ کی تجارت 22%تک اورکپڑے کی تجارت39%تک یہودیوں کے قبضے میںتھی،برلن کے چیمبرآف کامرس میں50%تک یہودی تھے اورجرمن اسٹاک ایکسچینج کے1474ارکان میں سے1200ارکان صہیونی تھے۔1931میں برلن کے اندر42%ڈاکٹر یہودی تھے اور48%وکیل یاماہرین قانون بھی یہودی تھے۔برلن کے 29تھیٹرزمیں سے23کے ڈرامہ ڈائرکٹرزیہودی تھے،تالیف کتب تقریباََتمام کی تمام یہودیوں کے زیرتسلط تھی،1931میں 144فلموں پر کام جاری تھاجن میں سے119فلمیںیہودیوں کی تحریرکردہ تھیںاوران میں سے بھی77کی قابل قدرتعدادمیں فلموںکے پروڈیوسر یہودی تھے۔1999میں ہالی وڈبھی کم و بیش یہی تصویر پیش کررہاتھااوریہودی لابی اس فلمی نشریاتی ادارے پر مکمل طورپر قابض تھی اور انتہائی بے ہودگی اور دہشت گردی و انتہاپسندی ان فلموں کے ذریعے پوری دنیامیں برآمد کی جارہی تھی۔فلموں میں اس وقت سے دکھائی جانے والی قتل و غارت گری آج دنیاکی ثقافت کا حصہ بن رہی ہے جودراصل انسانیت دشمن یہودی ایجنڈے کی ہی تکمیل ہے۔”نیل گبلر“(Neal Gabler)جوشکاگوکاایک معروف صحافی تھا،اس نے اپنی کتاب”یہودیوں نے ہالی وڈ کیسے ایجادکیا“میں بے پناہ اور ہوشربا تفصیلات فراہم کی ہیں۔فلم انڈسٹری کے بعد امریکہ کا میڈیا ،خواہ وہ پرنٹ میڈیاہو یا الیکٹرانک میڈیایا کسی بھی اور طرح کامیڈیاجو ہماری قلمی دسترس سے باہر ہے یہودی اس پر مکمل طورپر قابض و متصرف ہیں۔فاضل مولف نے برقی مواصلات ونشریاتی اداروں کو تویہودیوں کی سلطنت قرار دیاہے۔

ہالوکاسٹ سے پہلے والے جرمنی کی طرح امریکہ کی تجارت پر بھی 1999تک یہودی مکمل طورپر قابض تھے،آج بھی امریکہ کا فیڈرل ریزروبنک سے کر چھوٹے چھوٹے بنکس ،مالیاتی ادارے اورتجارتی کمپنیاں تک یہودیوں کی ملکیت میں ہیں۔اس سے بڑھ کرکہ امریکہ کے تمام پیشوں پر بھی یہودی کا بدترین تسلط قائم ہے،ییلوپیجزکی ڈائریوں اورفون بکس پرجس جس پیشے پر انگلی رکھتے جائیں یہودیوں کے ہی نام سامنے آتے جائیں گے۔ایک اسرائیلی کمپنی نے امریکی فون کے بلوں کا ٹھیکہ بھی لے رکھاہے اور پورے امریکہ میں کون کون کس کس سے کیاکیاباتیں کررہاہے سب کا علم یہویوں تک براہ راست پہنچتاہے۔پنٹاگان اور وائٹ ہاوس کا کل برقی مواصلاتی نظام(سوفٹ وئر) ایک اسرائیلی کمپنی نے بنایاہے،لگایاہے اور وہی اس کو چلا بھی رہی ہے،کیایہ کھلم کھلاامریکہ کے اعلی ترین حکومتی اداروں کی نگرانی نہیں ہے؟؟؟پس آج امریکہ بالکل اسی مقام پر کھڑاہے جہاں 1929میں جرمنی کھڑاتھا یا شاید اس سے بھی آگے۔1999، امریکہ میں یہودیوں کی آبادی کل آبادی کا 2%تھے لیکن جملہ مالی و تجارتی معاملات کا 70%ان کے ناپاک ہاتھوں میں تھا۔اور اب معاملات اس سے کہیں آگے نکل چکے ہیں اور اخبارات، ٹی وی کی سکرین اور گوگل اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کے کل ادارے ایک لحاظ سے مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں ہیں جسے وہ بطور ریموٹ کنٹرول استعمال کر کے تو براہ راست امریکی پالیسیوں کواپنی مرضی و منشاکے مطابق چلاتے ہیں۔

امریکہ میںیہودی کل 2%ہونے کے باوجود چارسوامریکی امیرترین لوگوں میں ایک سو یہودی ہیں،مملکت کے بااثرلوگوں میں ان کی شرح11%ہے،صحافتی و اشاعتی اداروں کے مالکان کا 25%یہودیوں پرمشتمل ہے،معاشرتی وامدادی تنظیموں پر 17%سے زائدیہودی قابض ہیںاورمملکت و ریاست کے اہم ترین مناصب پر براجمان افسران میں سے 15%سے زائد یہودی ہیں۔امریکہ کے دوسو سرفہرست دانشوروں میں سے ایک سو یہودی ہیں،امریکہ کی صف اول کی جامعات میں 20%پروفیسرزیہودی ہیں،واشنگٹن اور نیویارک کے بہترین قانون دانوں اور وکلاءمیں سے 40%یہودی ہیں،فلمی ڈائکٹرزکا 59%یہودیوں پر مشتمل ہے اورلکھاری حضرات ،ادباءو شعرائ،میں یہ شرح 58%تک ہے،اور یہ ہندسیات 1999تک کے ہیں ۔اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اب اس سے کتنے زائد ہو چکے ہوں گے۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ان اعلی ترین مقامات تک یہودی اپنی قابلیت یالیاقت یامحنت کی بنیاد پر پہنچیے ہوں،ایک بار نہیں متعدد مرتبہ صحافیوں نے یہودیوں کے بڑے بڑے جالوں(Net Works) کا پتہ لگایاہے جن کی بنیاد پر بہت پہلے سے خوب سوچ سمجھ کراور افراد کو ہدف بناکر انہیں خاص مقاصد کے لیے آگے لایا جاتاہے،ایک یہودی کو کسی خاص مقام تک پہنچانے کے لیے کل یہودی لابی سرگرم عمل رہتی ہے اور بعض اوقات بے پناہ سرمایا بھی پانی کی طرح خرچ کیاجاتاہے،اورپھر بڑامقام حاصل کرنے کے بعد وہ شخص اپنے ملت و مذہب کے مفادات کا تحفظ کرتاہے اور اپنے ہم مذہب دیگرافراد کے لیے آگے بڑھنے کے راستے ومواقع فراہم کرتاہے اور اس منصب کے لیے اہل تر افراد کی ترقی کاراستہ معدوم کر کے تو ان کے حق سے انہیں محروم کردیتاہے،جبکہ دوسری دنیاؤں میںبڑی گرمجوشی سے یہ تصورذہن نشین کرایاجاتا ہے کہ یوایس اے میں ادارے بہت مضبوط ہیں جبکہ وہاں صرف یہودی لابی ہی مضبوط ہے۔

امریکی معاشرے سمیت امریکی حکومت بھی ارباب حل و عقدبھی اس یہودی تسلط کو کڑوی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور سخت ناپسند کرتے ہیں،1972ءمیں ایک غیرروایتی گفتگوکے دوران صدر رچرڈنکسن سے ایک اعلی امریکی عہدیدار بلے گراہم نے کہاکہ جناب صدر!!میڈیاپریہودی تسلط ختم کریں نہیں تو مملکت زوال پزیر ہو جائے گی صدر رچرڈ نکسن نے جواب دیا کہ خیال تو میرابھی یہی ہے لیکن میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ایڈمرل تھامس مورر(1912-2004)جوامریکہ کے سابق چئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ہیں انہوں نے ایک دفعہ بہت برملا لہجے میں کہا کہ میں (امریکی)صدر کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن یہ یہودی جو چاہتے ہیں کروالیتے ہیں اور انہیں ہربات کا علم ہوتاہے،میں اس مقام پر ہوں جہاں ان کے بارے میں کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہوں لیکن اگرامریکی عوام کو پتہ چل جائے کہ ہماری حکومت پر ان کا کتنا اثرونفوذ ہے توعوام ان یہودیوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں،ہمارے شہری جانتے ہی نہیں کہ دراصل ہو کیارہاہے۔اس امریکی جرنیل نے دبے دبے لفظوں میں یہ بھی کہ دیا کہ اسرائیل ہمیں اپنی جنگوں میں استعمال کرتاہے۔”وانے میڈسن“جو امریکی صحافی ہیں اور خارجہ تعلقات اور خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں ،ان کے بقول امریکی خفیہ ایجنسیوں کو ہمیشہ اسرائیل سے خطرہ رہتاہے کہ اسرائیل کے جاسوسوں نے امریکی خفیہ اداروں میں سراغ لگارکھے ہیںاوراپنے جال بھی بچھارکھے ہیں۔یہودیوں کے اس میڈیاکنٹرول سے تنگ آکر اب وہاں کے محب وطن امریکیوں نے قومی اتحاد کے نا م سے ایک تحریک شروع کی ہے جس کا نعرہ”ایک سفید(آنے والا)کل“ہے،اس کے بارے میں ان کی کوشش اور دعوی ہے کہ یہ تحریک صہیونی اثرات سے پاک ہو گی۔

دوسری دنیاؤں میں بسنے والے لوگ یہودیوں سے کوسوں دور ہونے کے باوجود ان کی پالیسیوں سے اور ان کے انسان دشمن رویوں سے ناک تک تنگ آچکے ہیں جبکہ جو لوگ رہتے ہی یہودیوں کے زیر تسلط ہیں وہ کس قدر ان سے نالاں ہوں گے؟؟؟،اس بات کا صرف اندازہ ہی کیاجاسکتاہے جبکہ دنیامیں کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس سے یہودیوں کے براہ راست زیراثررہنے والوں کی تکالیف کو ناپااورماپا جا سکے۔فلسطینی مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی تکالیف دوسری دنیاؤں کے عوام و خواص تک پہنچ جاتی ہیں اور لوگ ان سے اظہارہمدردی واظہار یک جہتی کر لیتے ہیںلیکن امریکہ کے عوام اس لحاظ سے حد درجہ قابل رحم ہیں کہ تیسری دنیاکے عوام انہیں جتنا آسودہ و مطمئن سمجھتے ہیں اور دور سے وہ ڈھول جتنے سہانے لگتے ہیں ان کی حقیقت اس سے بالکلیہ مختلف ہے ۔دراصل یہودیوں نے پوری امریکی عوام سمیت کل ریاست کے اداروں اور ان کی حکومتوں تک کو اپنے مذہبی وقومی مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے بری طرح یرغمال بنارکھاہے ۔امریکی سینٹ،امریکی صدریہ اور امریکی ایوان نمائندگان وغیرہ سب دکھانے کے دانت ہیں جو عرف عام میں یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ کہلاتے ہیں ان کے درپردہ و پس پشت ”کارپوریٹ امریکہ“کارفرماہے جو امریکہ کی اصل حکمران قوت ہے جس کی باگ دوڑ ایک سو ایک فیصدیہودی لابی کے ہاتھ میں ہے اور یہ لابی موم کی ناک کو جس طرف چاہے پھیر دیتی ہے۔ظلم کی رات جتنی طویل ہو آخر کو ختم ہوتی ہے،اسرائیل کی ریاست اپنی تاریخی عمر پوری کیاچاہتی ہے اور استعمارکا یہ ٹائٹانک اکیلا نہیں ڈوبے گا،بہت جلدامریکہ کے عوام جم غفیر کی شکل اختیارکرتے ہوئے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایک ایک گھر سے یہودیوں کو نکالیں گے اور یہ آسمان دیکھے گا کہ تاریخ کاایک اورہولناک ہالوکاسٹ وقوع پزیر ہوگااور یہ وقوعہ جتنی تاخیر کا شکار ہوگا اپنے حجم میں اتناہی بڑھتاچلاجائے گاکہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔انسان دشمن یہودی اسی انجام کے حق دار ہیں کیونکہ قرآن مجید نے بھی ان کے حق میں یہی فیصلہ دیاہے کہ ”ذلت و مسکنت ان پر مسلط کر دی گئی ہے“،پس یہودیوں کا زوال سیکولرازم کے سرمایادارانہ نظام کاآخری دن ہوگااور انسانیت ظلم کے اندھیروں سے نجات پالے گی،انشاءاﷲ تعالی
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.