جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ

 سردار افراسیاب خان کی یاد میں ایک تاثراتی مضمون

سردار افراسیاب خان المعروف چیئرمین وفات پا گئے۔ انّا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

مرحوم کو ان کے ہزاروں مدّاحوں کی موجودگی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوہ ، پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔یہ ایک عمومی خبر ہے جو دنیا سے کوچ کر جانے والے ہر فرد کے بارے میں منظر عام پر آجاتی ہے اور اگلے دن بھلا دی جاتی ہے۔ ہر مرنے والا اپنے قریبی افراد کے اذہان میں تو زندہ رہتا ہے، لیکن مجموعی طور پر رفتہ رفتہ اسے بھلا دیا جاتا ہے ۔ الا ماشا ءاللہ۔ وہ افراد ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنہوں نے انسانیت کی خدمت کی کوئی مثال قائم کی ہوتی ہے۔ تاریخ بھلا دیے جانے والے افراد کے علاوہ بھری پڑی ہے ان افراد کے تذکروں سے جنہوں نے زندگی میں اچھے کام کیے۔

سردار افراسیاب خان المعروف چیئرمین آف چمن کوٹ آزاد کشمیر کی وفات کی خبر سن کر یہ لازم ٹھہرا کہ ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے۔ ایک ابتدائی بات قارئین کے لیے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے کہ جنہیں عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک ایسے فرد تھے کہ جس نے اپنی محنت شاقہ سے اپنا ایک مقام بنایا تھا۔ وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے تھے اور بلدیاتی انتخابات کے ذریعے لوگوں کی خدمت کے میدان میں اترے تھے۔ ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف ممکن، لیکن ان کے سماجی خدمت کے جذبے کی تحسین نہ دی جائے تو یہ زیادتی ہو گی۔

وہ میرے ان احباب میں سے ایک تھے، جن کے ساتھ دکھ سکھ بانٹا جا سکتا تھا۔ حالات و واقعات پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔دیہی زندگی میں چھوٹے موٹے تنازعات ہوتے رہتے ہیں، جن میں خانگی تنازعات سب سے اہم ہوتے ہیں۔ میں سردار افراسیاب خان کی وفات کے بعد گواہی دینا چاہتا ہوں کہ وہ لوگوں کے درمیان تنازعات میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا کرتے تھے۔ ایک دو مواقع پر میں ان کے ساتھ شریک رہا، وہ حتی المقدور فریقین کو سمجھایا کرتے تھے کہ بھئی بار بار سوچ لو۔ اپنی زندگیاں برباد نہ کرو۔ وہ انہیں سوچنے کا موقع دے کر کوشش کیا کرتے تھے کہ کس طرح باہم متصادم و متحارب لوگوں میں صلح ہو جائے۔

دینی خدمات کے حوالے سے بات کروں تو جامع مسجد چمن کوٹ اور اس سے ملحق مدرسہ کے لیے وہ ہمیشہ مصروف عمل رہتے تھے۔جامع مسجد اور مدرسہ کے لیے رفتہ رفتہ انہوں نے یہ حیثیت حاصل کر لی تھی کہ لوگوں کو قائل کرنے کے لیے ان کی ایک آواز ہی کافی ثابت ہوتی تھی۔ یہ سردار افراسیاب خان کی ذات تھی جو جامع مسجد اور مدرسہ کو ہمیشہ آباد رکھا کرتی تھی۔مدرسہ تعلیم القرآن میں سالانہ اجلاس کے موقع پر صرف چمن کوٹ ہی نہیں ، اردگرد کے تمام گاؤں کے لوگ آیا کرتے ہیں۔ یہ روایت انہوں نے قائم کی تھی کہ اب چمن کوٹ میں سالانہ اجلاس کے موقع پر تمام لوگوں کے لیے جن کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے ظہرانے کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ ایک بڑے اجتماع میں کھانے کے موقع پر ہڑبونگ مچ سکتی ہے، لیکن یہ سردار افراسیاب خان کا کمال ہوتاتھا کہ لوگ انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ ماحضرتناول کر کے جایا کرتے تھے۔ سردار افراسیاب خان کے دینی کردار کی ایک اورخاص بات یہ تھی کہ وہ مسلکی اختلافات سے ہمیشہ دور رہا کرتے تھے۔ ان کے احباب میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگ شامل تھے وہ سب کا احترام کرتے تھے اور سب ان کی بات سنتے تھے۔

سردار افراسیاب خان عمر کے ایک طویل عرصہ تک ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے، یہ ان کا حق تھا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے باوجود وہ دیگر لوگوں میں بھی اچھی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے اپنی قدیم سیاسی وابستگی ترک کر دی تھی۔ لیکن اپنے سابقہ دوستوں کے ساتھ ان کے سماجی مراسم اسی طرح برقرار رہے۔ اس کا اظہار ان کی نمازِ جنازہ کے موقع پر بخوبی ہو گیا۔ جب ہر طرح کے لوگوں نے انہیں اشک بار آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا۔

سردار افراسیاب خان کو دنیا سے رخصت کرتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے۔ ان کی موت کے بے وقعت نہیں کہہ سکتااس لیے کہ ہر موت بروقت اور برحق ہوتی ہے۔ البتہ ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ یہ ایک ایسا خلا ہے کہ جب بھی لوگ اسے محسوس کریں گے تو سردار افراسیاب خان المعروف چیئرمین کی یاد آجایا کرے گی۔ یہ یاد اس وقت زیادہ شدت سے آیا کرے گی جب لوگوں کے باہمی تنازعات ہوں گے۔ یقینا زندگی کا نظام چلتا رہے گا، لیکن سردار افراسیاب کی معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت کا اعتراف ہمیشہ کیا جاتا رہے گا۔ جامع مسجد اور مدرسہ کے معاملات یقینا بہتر انداز میں چلتے رہنے کی امید ہے۔ اسی طرح مسلکی ہم آہنگی بھی برقرار رہے گی اس لیے کہ سردارافراسیاب خان نے اس کی مضبوط بنیادیں رکھ دی ہیں۔ باہمی تنازعات میں صلح جوئی کی راہ اختیار کرنا، جامع مسجد اور مدرسہ کے معاملات کو بطریقِ احسن چلانا، تمام مسالک کے لوگوں کا احترام کرنااور سیاسی معاملات میں اختلافات کے باوجود سب سے اچھے تعلقات رکھنا یہ سردار افراسیاب خان کی روایات ہیں، انہیں ہمیشہ تابندہ رکھا جائے تو یہ انہیں ایک عظیم خراجِ عقیدت ہو گا۔ افراسیاب خان نے اپنے بہترین اخلاق و کردار کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو مسخّر کر لیا تھا۔ ع۔جو دلوں کوفتح کر لے وہی فاتح زمانہ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔آمین
Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 61868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.