کامران فیصل کو انصاف فراہم کیا جائے

ارض وطن کی مثال اس شہرِبے اماں جیسی ہے جیسی ہے جہاں آئے روز لاشیں گرتی ہیں لیکن اندھیرنگری چوپٹ راج کے مصداق ہمیں مرنے والے تو نظرآتے ہیں لیکن آج تک کسی مارنے والا کا چہرہ کسی اخباریا ٹیلی ویژن پر دیکھنے کو نہیں ملا کہ اسے کسی انسان کی جان لینے کے جرم میں سزادی جارہی ہے لیکن بعض اموات ایسی ہوتی ہیں جو پوری قوم کو دہلاکررکھ دیتی ہیں ایسی ہی ایک موت انتہائی ہائی پروفائل آرپی پی کیس میں انویسٹی گیشن آفیسر کامران فیصل کی ہے جو ملکی تاریخ کے ایک ایسے کیس پرکام کررہے تھے جس میں براہ راست موجودہ وزیراعظم ملوث تھے اور پانچ روز قبل ہی اسی کیس میں عدالت نے ان کی گرفتاری تک کا حکم جاری کردیا تھا کامران کی موت کو اگرچہ خودکشی کہاجارہاہے لیکن وقت کیساتھ ساتھ اس کیس کے بارے میں منظرعام پرآنیوالے حقائق جن کے مطابق کامران نے اگر خودکشی کی ہے توپھندے کے باعث اس کی گردن لمبی ہونی اورآنکھیں باہرہونی چاہیے تھیں جب کہ اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور ایسا دم گھٹنے کے باعث ہی ہوتا ہے ،اور یہ کامران کے ہاتھوں اور جسم پر تشدد کے نشانات بھی خودکشی کی واضح نفی کررہے ہیں،اسی طرح یہ عموماََ دیکھنے میں آتا ہے کہ خودکشی کرنے والا مرنے اس عمل سے پہلے اس کی وجوہات یا وصیت نامہ وغیرہ ضرور لکھتا ہے جبکہ کامران کے کمرے سے ایسی کوئی پرچی یا کاغذ کا پرزہ نہیں ملا اور سب سے اہم یہ بات کہ ان کے زیراستعمال لیپ ٹاپ بھی غائب تھا جو پولیس کے آنے سے قبل ہی نیب حکام نے اپنے قبضے میں لے لیا اسی طرح کے ہی سوالات یہ چغلی کھاتے نظرآرہے ہیں معاملات جو بتائے جارہے ہیںوہ نہیں بلکہ اس کے پس ِپردہ ضرور کچھ ایسا ہے جو چھپایا جارہاہے۔ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کامران فیصل کا بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کا نوحہ ان الفاظ میںبیان کررہاتھا کہ یقیناََ یہ سن کر ہر ایک کا دل خون کے آنسو روردیاہوگا وہ کہہ رہاتھا''میرابیٹا ایک ایماندار،فرض شناس، حلال و حرام کی سمجھ رکھنے والاایک بہادر نوجوان تھا وہ ہرگزخودکشی نہیں کرسکتااس کا قتل ہوا ہے ظالموں نے ایک بوڑھے شخص کی لاٹھی اور بڑھاپے کا واحدسہارا چھین لیا ہے ،لیکن خداکیلئے آئندہ آنیوالے لاکھوں کروڑوں کامران فیصلوں کو بچا لیجئے میں کسی تحقیقاتی کمیشن کو نہیں مانتاکہ آج تک کسی کمیشن کی رپورٹ منظرعام پرنہیں آئی سپریم کورٹ میرے بچے کے قتل پرازخودنوٹس لے کر مجھ بوڑھے کو انصاف فراہم کرے'' کامران فیصل کی موت نے ایک بوڑھے سے اس کا سہارا ہی نہیں چھینا بلکہ اس ملک میں انصاف کی شفاف اور بروقت فراہمی پر بھی بے انتہا سوالات کھڑے کردئیے ہیں ۔کسی ہائی پروفائل کیس کے تفتیشی افسر یا عینی شاہد کی پراسرارموت کا یہ پاکستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے یہ پاکستان کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانیوالے ملک میں قتل کامجرم تو قتل کرکے بچ سکتا ہے لیکن یہاں ایمانداری و ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والاسزائے موت سے نہیں بچ سکتا ۔اس سلسلے کی بدترین مثال 90کی دہائی میں کراچی میں وقوع پزیر ہونیوالے سنگین ترین جرائم کی تحقیقات کرنیوالے پولیس افسران کی ٹارگٹ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ماضی قریب میں نوجوان صحافی بابرولی قتل کیس کے گواہوں اور2007ءمیں سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرارسیدحمادرضاکو بھی نادیدہ قوتوں نے بڑے منظم طریقے سے رستے سے ہٹادیاتھا ۔کامران فیصل کی موت کے بعد نیب کے دیگر افسران کا خوفزدہ ہونااور احتجاج کرنا ایک فطری امر ہے جو کامران کی موت کواپنے لئے ایک وارننگ سمجھ رہے ہیں اس سلسلے میں جسٹس عظمت کا بیان برا معنی خیز ہے کہ پتا نہیں کامران کا جنازہ اٹھا ہے یا نیب کی ساکھ کا ۔چیف جسٹس افتخارچوہدری نے کہا کہ کامران فیصل کی موت نے سب کو ہلا کررکھ دیا ہے ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کامران کے لواحقین یہ سوال باربار کررہے ہیں کہ پوسٹ مارٹم کرنیوالوں نے کامران کے جسم پر موجود تشدد کے نشانات کو کیوں نظرانداز کردیا کیا سب بِک گئے ہیں ؟بہرحال یہ امر خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک دورکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے جس سے یہ امید ہوچلی ہے کہ کامران کے ساتھ انصاف ہوگا اور اس سے کامران کی موت کا معمہ حل ہو جائے گا۔لیکن ضرورت اس چیز کی ہے کہ حکومت فوری طور کامران فیصل جوکہ دومعصوم بچیوں کا باپ اور ایک بوڑھے باپ کا بیٹا تھا کی فیملی کیلئے بھاری امدای پیکج اور اس کے بچوں کیلئے کامران کی تنخواہ کے برابر وظیفے کا اعلان کرے تاکہ ان بچوں کا مستقبل تو محفوظ ہوسکے۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 90797 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.