معذور افراد معاشرے پر بوجھ نہیں

کسی بھی معاشرے کی ترقی میں نوجوان اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اگر اُن کی سوچ مثبت ہو تو یہ سونے پر سہاگے کے مترداف ہو تاہے۔ہمارے ہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری ،غربت اور مہنگائی نے جہاں عوام خصوصاً نوجوان نسل کو مایوس کیا وہاں عزم وہمت کے پیکرچند نوجوانو نے مایوسی کے بجائے ان تمام مسائل کا سامنا کرنے اور ان کو ختم کرنے کے لیے اپنی کمریں کسی ہوئی ہیں۔ دیگر ممالک کے برعکس ہمارے معاشرے میں معذور افراد کے لیے کوئی خاطرخواہ اقداماتدیکھنے کو نہیں ملتے۔ان کو معاشرے پر بوجھ سمجھ کر مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں معذور افراد شدید مایوسی اور کرب میں مبتلا ہوتے ہوئے نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے نوجوان طبقے کو یہ گوارہ نہیں ہے کہ معذور افراد یوں سسکتے رہے۔ جہاں نوجوان ڈاکٹروں نے احتجاج کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور مسیحائی کے شعبے کو بُری طرح بدنام کر رہے ہیں وہاں ایسے نوجوان ڈاکٹر بھی موجود ہیں جو اس پیشے کا حق ادا کرتے ہوئے معذور افراد کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس کے پیش نظر اولپنڈی میڈیکل کالج میں پاکستان کی پہلی نیشنل آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کا انعقاد پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان اور شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سا ئنسزراولپنڈی میڈیکل کالج نے کیا۔ کانفرنس میں ملک کے دور دراز علاقوں سے شرکاء بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔اس کا آغاز۵۱ دسمبر ۲۱۰۲ء کو دو پری کانفرنس ورکشاپس سے ہوا جس میں پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز سے تعلق رکھنے والے طلباء اور ماہرین نے شرکت کی۔ پری کانفرنس ورکشاپس میں طلباء اورپروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس پروفیشنلز کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دی گئی۔ انسانی دماغ سے کنٹرول ہونے والا مصنوعی ہاتھ کے متعلق ورکشاپ حاضرین کی توجہ کاخصوصی مرکز بنی رہی۔کانفرنس کا مقصد پاکستان میں پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز کے شعبہ سے منسلک افراد اور اداروں کو ایک چھت تلے اکٹھا کرنا اور تعلیمی و فنی معلومات کا تبادلہ کرنے کے علاوہ پاکستان میں پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز کے شعبہ میں ہونے والی ریسرچ کو سامنے لانا ہے۔
 

image

کانفرنس میں سائنٹیفک لیکچرز منعقد کیے گئے۔ جس میں ملک بھر سے شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات ، پروفیشنلز اور تعلیمی ماہرین نے حصہ لیا۔ ماہرین نے شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز کی افادیت اور پاکستان میں اسکی فراہمی کے مواقعوں اور پاکستان میں اس شعبہ کی زبوں حالی کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ کانفرنس کے شرکاء کا تعلق راولپنڈی میڈیکل کالج، رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد، ڈاؤ یونیورسٹی کراچی،ری ہیبلی کئیر ٹرسٹ راولپنڈی،آرمڈفورسز انسٹیٹیوٹ آف ریہہبلیٹیشن میڈیسن راولپنڈی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز پشادر، مظفرآباد فزیکل ریہیبلیٹیشن سنٹر ، فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال راولپنڈی، ہوپ میڈیکل سنٹر لاہور، پاکستان سوسائٹی آف ریہیبلیٹیشن اچھرہ لاہور، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام اسلام آباد ریجن، نیا قدم ٹرسٹ اور مختلف پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس ریہیبلیٹیشن سنٹرز سے تھا۔کانفرنس کے شرکاء میں ڈاکٹر بخت سرور، پاکستان میں آئی سی آر سی کے کو آرڈینیٹر مسٹر ERROL LISHMENِ نیا قدم ٹرسٹ کے بانی ڈاکٹر وقار قریشی (یو کے)، RMC associate professor orthopedics surgeryڈاکٹر زبیر جاوید،سابق آرتھوپیڈک سرجن صدر پاکستان برگیڈیئر ڈاکٹر منیر احمد چیمہ، میجر ڈاکٹر ظہیر گل بھی شریک ہوئے۔

نیشنل آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کانفرنس کے چیئر مین آرگنائزنگ کمیٹی زیشان زاہد نے شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسزکو ریہیبلیٹیشن میڈیسن کا انتہائی اہم ستون قراردیا ۔ان کا کہنا تھا پاکستان میں اس شعبہ سے متعلق سہولیات اور آگاہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں اس وقت شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس سے متعلق صرف چار تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ حکومتی سطح پر اس بارے میں کوئی خاطر خواہ کام دیکھنے کو نہیں ملتا۔جسمانی معذوری کا شکار افرادبے سہارا بیٹھے حکومتی اقدامات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصدلوگوں میں شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس سے متعلق آگاہی پیدا کرنا اور پاکستان میں اس شعبہ سے متعلق ماہرین، پروفیشنلز ، اساتذہ اور طلباء کو ایک چھت تلے اکٹھا کرنا اور شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس سائنسز میں ہونے والی جدت سے ہم آہنگ کرنے کے علاوہ جدیدآلات اور ٹیکنالوجی سے متعلق فنی طربیت دینا تھا۔ شعبہ پروستھیٹکس وہ شعبہ ہے جس میں ہم کسی بیماری یا حادثات کے نتیجے میں کٹ جانے والے اعضاء کی جگہ نئے مصنوعی اعضاء لگاتے ہیں تاکہ معذوری کا شکارافرادکسی پر بوجھ بنے بغیر اپنی زندگی احسن طریقے سے گزار سکیں اورمعاشرے میں ہونے والی تمام سرگرمیوں میں مساوی بنیادوں پر حصہ لے سکیں۔ جبکہ شعبہ آرتھوٹکس وہ شعبہ ہے جس میں ہم کسی بیماری مثلا پولیو وغیرہ کی وجہ سے ہو جانے والے جسمانی معذوری کا شکار افراد کے لیے ایسے آلات تیار کرتے ہیں جن کی مدد سے انکے کمزور اعضاء کو ناصرف سہاراملتا ہے بلکہ انکے ٹیڑھے پن کو ٹھیک کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ جدیدسائنسی طریقہ کار اور شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس میں ہونے والی ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ فریکچر کی صورت میں فریکچر بریسز کا استعمال انتہائی مفید ہے۔ فریکچر بریسز کی مدد سے ہم اپنے روزمرہ کے کام کاج بستر پر پڑے بغیر با آسانی کر سکتے ہیں۔ فریکچر بریسز کے استعمال سے فریکچر جڑنے کے عمل کو بھی تقویت ملتی ہے۔انہوں کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس افغان جنگ میں متعارف کروایا گیا۔ پھر پاکستان میں پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز کی باقاعدہ تعلیم کے لیئے جرمنی کے تعاون سے پیٹکاٹ پشادرمیں قائم کیا گیا۔جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز رکھ دیا گیا۔جس سے پاس آؤٹ ہونے والے سینکڑوں طلباء اندرون و بیرون ملک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جبکہ پنجاب میں راولپنڈی میڈیکل کالج میں شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز میں ڈگری پروگرام کا آغاز 2008میں پروفیسر ڈاکٹر سلیم احمد (ہیڈ آف شعبہ آرتھوپیڈکس ) کی کاوشوں کے نتیجے میں کیا گیا۔ بینظیر بھٹو ہسپتال میں APPNAرہیبلیٹیشن سنٹر کا قیام بھی انکی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جس سے آج راولپنڈی کی عوام کے علاوہ ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والے میں میریض بھی مستفید ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ پنجاب میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی بھی آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس سائنسز سے متعلق چار سالہ ڈگری پروگرام کروا رہی ہے۔اسکے علاوہ سندھ میں ڈاؤ یونیورسٹی بھی اس شعبہ میں کام کر رہی ہے۔

پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان کی پیٹرن مسز ثوبیہ مقبول صاحبہ نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں جسمانی معذوری کا شکار افراد کی شرح عالمی ادارہ صحت کی ترقی پذیر ممالک کے متعلق طے کی گئی شرح سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جب کہ شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کی سہولیات کی فراہمی زیادہ تر نیم سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے ذریعے سے ممکن ہو سکی ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کی فراہمی کو ضلعی سطح پر یقینی بنانا ہے جبکہ پاکستان میں ڈویژن لیول پر بھی حکومتی اقدمات نظر نہیں آتے۔ جس کی وجہ سے شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کے پروفیشنلز ملک میں رہ کر کام کرنے کی بجائے بیرون ممالک خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا ا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ معذورں کو معاشرے اور ملکی معیشت پر بوجھ بننے کی بجائے ایک فنکشنل ممبر بنایا جا سکے تاکہ وہ کسی پر بوجھ بنے بغیر اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت احسن طریقے سے کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس کی پاکستان میں بہتری اور مسادی بنیادوں پر ان سہولیات کی فراہمی کے لیے پروستھیٹکس آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان حکومت کے ساتھ مل کر اقدامات کر سکتی ہے۔تاکہ ملک سے معذوری کا شکار ہو جانے والے افراد کو کسمپرسی کی زندگی سے نکال کر معاشرے کا ایک باعزت فرد بتایا جا سکے۔ کیونکہ جسمانی معذوری کا شکار چاہے مرد ہو یا عورت معاشرے سے مکمل طور پر کٹ کر رہ جاتا ہے۔ جب معذور مرد کا تعلق ایسے معاشرے سے ہو جہاں وہ اکیلا ہی اپنے خاندان کی کفالت کا ذمہ دار ہو تو وہا ں پس منظر ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اس کے لیے خود کو سنبھالنا تو ایک طرف پورے خاندان کی کفالت نا ممکن ہو جاتا ہے۔نوبت فاقہ کشی سے بڑھ کر خودکشی تک پہنچ جاتی ہے۔ غربت کی وجہ سے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسے میں شعبہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس ان کے لیے زندگی کی امید نو ہے۔ جسکی مدد سے نا صرف وہ اپنے روز مرہ کے کام کاج کے قابل ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے خاندان کی کفالت بھی با آسانی کر سکتے ہیں۔ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس آلات کی مدد سے وہ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرکے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔لہٗذا حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ضلعی سطح پر آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس سے متعلق سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے بل کہ آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس سے متعلق جدید ریسرچ سنٹر زکا قیام عمل میں لائے تاکہ ملکی وسائل کو بروکارلاتے ہوئے ملکی سطح پر آرتھوٹکس اینڈ پروستھیٹکس آلات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان کے نائب صدر محمد ساجد، جنرل سیکرٹری ریحان علی ملک، سیکرٹری انفارمیشن راجہ منصور علی جنجوعہ اور فنانس سیکرٹری اویس حسین نے اس عزم کا ایادہ کیا کہ وہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان کے پلیٹ فارم سے اس طرح کی سرگرمیوں کومستقبل میں بھی جاری رکھیں گے ۔ سالانہ بنیادوں پر پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان کی طرف سے ملک کے مختلف شہروں میں کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔اس کے علاوہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس کے شعبہ سے متعلق معلومات اوراس کی اہمیت سے متعلق آگاہی کے لیئے عوامی مہم کا بھی آغاز کیا جائے گا تا کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سے مستفید ہو سکیں۔پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی کے اغراض و مقاصد سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی کے قیام کا مقصد ملک میں پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس کے اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنا، ریسرچ کو فروغ دینا، عالمی اداروں کی طرف سے دی جانے والی سکالرشپس کی منصفانہ اور میرٹ کی بنیاد پر تقسیم،حکومتی سطح پر پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس کے شعبہ میں کیے جانے والے اقدامات میں تکنیکی مدد فراہم کرنا اور پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس پروفیشنلز کی جدید اصولوں پر تربیت اور معیار تعلیم کی بہتری شامل ہے۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سائنسز سے متعلق کانفرنس کا انعقاد پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس سوسائٹی پاکستان اور شعبہ پروستھیٹکس اینڈ آرتھوٹکس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔جسکی وجہ سے پاکستان میں اس شعبہ کے بارے میں آگاہی اور ترقی میں فروغ ملے گا۔ان نوجوان ڈاکٹروں کے عزم کو سراہنا ضروری ہے تا کہ ان کے عزم وہمت میں کمی واقع نہ ہو جائے۔ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے حکومتی مدد انتہائی ضروری ہے۔ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں معذور افراد کو معاشرہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور وہ ملکی ترقی میں عام افراد کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 50926 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More