پولیس کانسٹیبل کی کہانی اس کی اپنی زبانی

صبح چھ بجے پولیس لائن سے پولیس کی گاڑی میں پہنچنے ہدایت ملی تھی اسی باعث میں ساڑھے پانچ بجے صبح سویرے اٹھ گیا تھا یونیفارم پہننے کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کیساتھ گاڑی میں چارسدہ آگیا ناشتہ بھی نہیں کیا اور اب دن کے ایک بج رہے ہیں رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عیاشی کررہے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں میں بھوکا کھڑا یہاں پر ڈیوٹی دے رہا ہو کیا میں انسان نہیں ہوں لعنت ہے ان سیاستدانوں پر جن کی سیکورٹی پر ہمیں مامور کیا جاتا ہے یہ وہ شکوے وو جذبات ہیں جو گذشتہ دنوں چارسدہ میں ہونیوالے ایک سیاسی پروگرام کی کوریج کیلئے راقم کو پشاور سے مردان سے آنیوالے ایک پولیس اہلکار نے کئے- راقم جب اپنی ٹیم کے ہمراہ وہاں پہنچا تو پولیس اہلکار وہاں پر سیکورٹی کیلئے متعلقہ ایریا کو چیک کررہے تھے چونکہ اس جلسے میں پارٹی کے ایک اعلی عہدیدار اور حکومت کی اہم شخصیات کی آمد متوقع تھی اور اس علاقے میں جلسے سے قبل بھی دھماکہ ہوا تھااسی باعث سیکورٹی پر خصوصی توجہ دی جارہی تھی جلسے سے قبل دہشت گردوں نے کچرے کے ڈھیر میں بم نصب کیا تھا جو بلاسٹ تو ہوا لیکن خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہیں ہوا جس کی وجہ سے بھی پولیس اہلکار سخت ذہنی تنائو کا شکار تھے-وہاںسیکورٹی پر تعینات اہلکار کا منہ بنا ہوا تھا اور عام لوگوں کیساتھ انتہائی بدتمیزی سے بات کررہا تھا جب راقم نے اس سے بات کی کوشش کی تو اس کا منہ تو بن گیا لیکن مجبورا اس کے سامنے دو تین گالیاں حالات کو دینے کے بعد وہ اپنی دل کی بھڑاس نکالنے لگا اور اپنی حالت اور ذہنی کیفیت بتا دی اس کے بقول میٹرک کے بعدغم روزگار نے میرے خاندان اور خصوصا مجھے ذہنی تنائو کا شکار کردیا استاد کی نوکری کرنا خواہش تھی لیکن وہ تو نہ ملی البتہ اس کوششوں میں اپنے علاقے کے ایم پی تک رسائی حاصل کی یہ بھی ہمارے جیسے لوگوں کیلئے بڑی ٹینشن تھی لیکن شکر ہے کہ ایم پی اے کے ساتھ کام کرنے والے ایک منشی سے میرے والد کے تعلقات تھے اسی باعث اس نے ایم پی اے بات کی اور طے یہ پایا کہ اگر والد ایک لاکھ روپے ادا کریگا تو مجھے پولیس میں نوکری مل جائیگی اور والدہ نے بہن کیلئے بنائے گئے زیورات فروخت کرکے ایک لاکھ روپے دیدئیے یہ الگ بات کہ والد نے ساری عمر جمع پونجی کرکے میری بہن کیلئے زیور ڈیڑھ لاکھ روپے کا بنوایا تھا لیکن صراف نے ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھایا اور ہم سے وہ ایک لاکھ روپے میں لے لیا-ایک لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد مجھے پولیس میں نوکری مل گئی اور والدہ سمیت سب خوش ہوگئے کہ بیٹے کو روزگار مل گیا تربیت ملنے کے بعد پولیس لائن میں میری ڈیوٹی لگ گئی اور صرف سیکورٹی میرا کام تھا لیکن سیکورٹی کی یہ ڈیوٹی بھی پاگل پن ہے میرے ساتھی جنہوں نے میرے ساتھ ٹریننگ لی تھی انہوں نے پیسے خرچ کرکے تھانوں میں تعیناتیاں کروا لی لیکن میرے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا اس باعث میں پولیس لائن میں رہ گیا اور اب وی آئی پی سیکورٹی پر ڈیوٹی کرنا میری مجبوری ہے -ان لوگوں کیساتھ جاتے ہوئے مجھے جتنا ڈر لگتا ہے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں کیونکہ یہ تو چلتے پھرتے بارود کے ڈھیر ہے گاڑی میں جاتے ہوئے یہ ڈر بھی لگتا ہے کہ کوئی ہمیں نہ مارے کوئی بلاسٹ نہ کرے یا کوئی وی آئی پی کو نشانہ نہ بنائے ویسے تو اپنی موت کا ہم جیسے پولیس کانسٹیبلوں کا غم نہیں ہوتا لیکن ہماری ڈیوٹی کے دوران کسی وی آئی پی کی موت ہمارے لئے اور ہمارے خاندان کیلئے موت ہے- پولیس کانسٹیبل کے مطابق جلسے کیلئے اسے پانچ بجے لایا گیا بغیر ناشتے کئے بغیر لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں کے مزے ہیں لیکن ابھی ایک بج رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی نے یہ پوچھا ہو کہ کچھ کھانا ہے پینا ہے میں بھی انسان ہوں پیٹ میرے پاس بھی لگا ہوا ہے میں خاک تو نہیں کھاتا اب پتہ نیہں کہ یہ نام نہاد رہنما کتنی دیر بکواس کرینگے اور یہ جلسہ ختم ہوگا لیکن مجھے ایکٹیو رہنا ہوگا ان جیسے لوگوں کیلئے یہ باتیں کرتے ہوئے پولیس کانسٹیبل جذباتی ہوگیا-

میں نے اس کی تسلی کیلئے خدا ئی خواروں کو دل سے دو تین گالیاں نکال دیں کہ یہ لوگ تو تم اور ہم جیسے لوگوں کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتے ہیںاس باعث پولیس اہلکار کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور اس نے بتانا شروع کردیا کہ ان حالات میں مجھے کوئی بتائے کہ میں کیسے عام لوگوں کیساتھ بہتر رویہ رکھو مسلسل چودہ گھنٹے ڈیوٹی نے ہم جیسے اہلکاروں کو پاگل کردیا ہے میں یہاں بھوکا کھڑا ہو اب اگر جلسہ ختم ہوا تو مجھے خود پولیس لائن جانا ہوگا اس لئے اگر روڈ پر کسی گاڑی یا ٹیکسی ڈرائیور کو میں زبردستی لے جائو تو پھر مجھے کہا جائیگا کہ میں اپنی اختیارات کا غلط استعمال کررہا ہوں لیکن یہ بھی کوئی بتائے کہ مسلسل ڈیوٹی بھوک اور پیاس ہو اور پھر واپس دفتر لے جانے کیلئے کوئی انتظام نہ ہو تو پھر کس طرح محبت سے پیش آیایا جاسکتا ہے کس طرح میں لوگوں سے پیسہ نہیں لونگا میں لازما لوگوں سے زبردستی کروں گا پولیس کانسٹیبل کی بہ باتیں اور شکوے سن کر میں پریشان ہوگا کہ اس کی باتیں اور شکوے صحیح تھی اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کا جواب میں کیا دو-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421839 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More