انسانیت کا خیر خواہ

 وحشیت و درندگی کا دور دورہ تھا۔ رعایا کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ جاگیرداروں اور امراءکی شاہ خرچیوں کا سارا بوجھ اسی ستم رسیدہ طبقے کو اٹھانا پڑتا تھا۔ تہذیب وتمدن سے عاری اس سلطنت کے باسی بادشاہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر قریبی مسلم خطے میں پناہ لینے لگے۔ ان مظلوموں نے مسلمانوں کے امیر سے درخواست کی کہ ہمیں بادشاہ کے ظلم و ستم سے نجات دلائے۔ اس خیال کو مزید تقویت بادشاہ کی درندگی کا نشانہ بننے والے ان کے ایک حاکم نے دی۔ وہ بھی فریادی بن کر مسلمانوں کے امیر کے پاس آیا اور اپنی مدد کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اس درندہ صفت انسان سے نجات کے لئے ہمارے ملک پر حملہ کیا جائے۔

مسلمانوں کے امیر نے خلیفہ وقت سے اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر اپنے آزاد کردہ غلام کو سات ہزار فوج کے ہمراہ ظالم بادشاہ کی سلطنت پر چھڑائی کے لیے روانہ کیا۔ اسلامی لشکر بحری راستہ عبور کر کے دشمن پر حملہ آور ہوا۔ بالآخر گھمسان کی لڑائی لڑتے ہوئے بادشاہ ڈھیر ہوگیا اور سلطنت کے بقیہ تمام علاقے بھی مسلمانوں کے زیر سایہ آگئے۔

مسلمانوں کے یہ امیر تاریخ میں موسیٰ بن نصیر کے نام سے جانے جاتے ہیں، جو ولید بن عبدالملک کے زمانہ خلافت میں شمالی افریقہ پر حکومت کرتے تھے۔ انہوں نے عظیم جرنیل طارق بن زیاد کو ہسپانوی بادشاہ لزریق (راڈرک) کی سلطنت اندلس پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا تھا۔ اندلس آج اسپین کے نام سے معروف ہے۔

تاریخ کا یہ عظیم واقعہ آج شارخ خان کے آرٹیکل نے میرے ذہن میں تازہ کر دیا ہے۔ بالی وڈ فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار شاہ رخ خان نے ایک امریکی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ انہیں بھارت میں ہندوؤں کی طرف سے متعصبانہ سلوک کا سامنا ہے اور آج بھی کئی بھارتی سیاستدان ان پر ترک وطن کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد نہ صرف پوری دنیا میں بلکہ بھارت میں بھی مسلمان ہونا ایک ناقابل معافی جرم بن گیاتھا اور انہیں بطور مسلمان اسی طرح کے سلوک کا نشانہ بنایا گیا، جیسے ایک عام مسلمان کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ شاہ رخ خان کا اپنے مضمون میں کہنا ہے کہ بھارت کے اکثریتی ہندوؤں میں یہ خیال یقین کی حد تک راسخ ہے کہ یہاں رہنے والا مسلمان بھارت دیش کا وفادار نہیں ہے اور اس کی ازلی ہمدردیاں پڑوسی اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ ہیں۔

بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس تعصبانہ رویے پر ہر مسلمان کو دلی اذیت پہنچی ہے۔ تبھی تو جماعةالدعوة کے امیر نے شاہ رخ خان کو پیشکش کی کہ اگر اسلام کی وجہ سے بھارت میں انہیں ستایا جا رہا ہے تو وہ پاکستان آجائے۔ حافظ محمد سعید نے اسلاف کے کردارکو مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ موسیٰ بن نصیر عیسائیوں کی فرمائش پر اسپین پر حملہ آور ہوئے تھے ۔ آج اگر بھارت میں مسلمان اسلام کی وجہ سے ہندوو ¿ں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں تو مسلم حکمرانوں کو چاہئے کہ ہر سطح پر ان کی مدد کریں۔ اگرچہ حافظ سعید وہ اختیار نہیں رکھتے جو ایک ریاست کو حاصل ہے لیکن آئینی طور پر بھر پور انداز سے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ شاہ رخ خان کو پیشکش دراصل تمام ان مسلمانوں کی رہنمائی ہے جو ان جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس پیشکش کی بدولت بھارت کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوا ہے کہ یہاں کس قدر ناروا سلوک مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔اب دنیا جان چکی ہے سب سے بڑی جمہوریت کے شہری غیر محفوظ ہیں تبھی تو انسانی ہمدردی کی بنا پر انہیں پیشکش کی جا رہی ہے کہ اگر مسلمان ہونا تمہارا جرم ہے تو بھارت چھوڑ کر چلے آؤ۔

مدد کی اس پیشکش سے سیرت رسول کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے ، جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ سال کے تھے تو اپنے چچاؤں کے ہمراہ بنو قریش کی ایک مجلس میں شریک ہوئے۔ وہاں قریش کے چند قبائل نے اس بات پر حلف اٹھایا کہ جو بھی کسی پر ظلم کریں، اس سے ظلم کا بدلہ لیا جائیگااورہر مظلوم کی مدد کریں گے۔ تاریخ میں یہ معاہدہ ”حلف الفضول“ کے نام سے مشہور ہے۔ زمانہ رسالت میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کہا کرتے تھے کہ دور جاہلیت میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر میں ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا جس کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں، اگر دور اسلام میں اس عہد و پیمان کے لیے مجھے کوئی بلاتا تو میں لبیک کہتا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی بہترین رہنمائی کی ہے کہ ہر مظلوم کی مدد کی جائے۔ کیونکہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے ۔ وہ کسی پر ظلم کا روادار نہیں۔ وہ انسانیت کی خیر خواہی کا درس دیتا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات سے جس پر مسلمانوں کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ آج ایک بار پھر اسلام کے شیدائی نے اپنے قابل فخر کردار سے دنیا کے دیگر مسلم حکمرانوں کو ایک نئی دعوت فکر دی ہے۔
Farooq Azam
About the Author: Farooq Azam Read More Articles by Farooq Azam: 3 Articles with 1583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.