جب دسمبر 1979میں روس افغانستان
میں داخل ہوا تھا تو کچھ لوگ سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے کہ وہ دیکھو سرخ
پھریرا سرحد عبور کرنے والا ہے تمہاری داڑھیاں نوچ لی جائیں گی اور سارا
انقلاب ہوا کی طرح اڑا دیا جائے گا سرحدوں پر انقلاب کے سویرے کی نوید
سنائی گئی لیکن ان سب کو کیا ادراک کہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسی قوم بھی
بستی ہے جو صرف اور صرف اﷲ پر اعتماد کرتی ہے پھر سوویت یونین کے ساتھ جو
ہوا وہ سب نے دیکھا اس ملک ہی نہی پوری دنیا نے اس عالمی طاقت کو رسوا ہوتے
دیکھااس کے بعد جس امریکا کو یہی لوگ گالیاں دیتے رہے اسی کے دروازے پر
بھیک کے لیے کھڑے نظر آنے لگے اسی کی پوجا شروع کر دی یعنی آقا تبدیل ہو
گئے، وفاداریاں بدل گئیں وہی گارنٹیاں جو یہ سوویت کو دیتے تھے اب امریکہ
کو دینے لگے انہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ ہونے کیا والا ہے اس وقت یہ طاقت
کے پجاری اور مادی وسائل کو خدا سمجھنے والے کہتے تھے کہ یہ ٹیکنالوجی کی
دنیا ہے افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں یہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح
مارے جائیں گے ایسے میں پورے ملک میں کچھ لوگ بقول ان کے "بیوقوف" تھے جو
کہا کرتے تھے کہ دیکھو اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس قوم کی
فرمانروائے مطلق ہے اور جو کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر
یہ اس واحد و جبار کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے آج
موجودہ دنیا کی تاریخ میں واحد افغان قوم ہے جو سرخرو ہے کسی قوم کے سینے
عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے اتنے زیادہ میڈل نہی سجے جتنے اس قوم کے سینے
پر آویزاں ہیں روس تو یہاں سے ذلیل و رسواء ہو کہ نکلا لیکن جاتے جاتے اپنی
سپر طاقت بھی اسی افغانستان کے پہاڑوں میں کہیں کھو گیا اس کے اپنے اتنے
ٹکڑے ہوئے جتنے وہ افغانستان کے کرنا چاہتا تھا وقت کے ساتھ ساتھ ایک اور
دنیاوی سپر طاقت نے ایک نیا ڈرامہ بنا کر اسی افغان قوم پر یلغار کر دی اور
اس نہتی قوم کو سات سمندر پار ہونے والی دہشت گردی کا قصور وار بنا دیا
گیاجس قوم کے لیے نہ کھانے کو کچھ تھا نہ رہنے کو جگہ تھی بقول ان لوگوں کے
کہ: افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں : ہاں مگر تھا ایک جزبہ ایمانی اپنے
ملک کو قابضوں سے بچانے کی لگن اپنے وطن کو آزاد کروانے کے لیے لڑنے کا
جزبہ تو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی دنیا کی جدید ٹیکنالو جی سے لیس قوم کے کلسٹر
بمبوں سڑنگز مزائلوں کو جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے سامنے
افغان چار دن بھی نہیں نکال سکیں گے آج ایک عشرہ ہو چکا ہے ایسے ڈٹے ہوئے
ہیں کہ جیسے ان سے بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوں ان افغانوں پرتو اس لڑائی
پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی کئی سپر پاورز کا مقابلہ کر
چکے تھے اور ان نہتے مسلمانوں سے لڑنے کے بعد ان سپر پاورز کا جو حال ہوا
وہ تو ساری دنیا نے دیکھ لیا لیکن اگر کچھ نہ بدلا تو وہ یہ نہتے افغان ہی
تھے جو ایک بار پھر نئے حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں تھے کیونکہ وہ جانتے
تھے اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس کی فرمانروائے مطلق ہے اور جو
کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر یہ اس واحد و جبار کی غیرت
کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان
افغانوں سے جو بھی ٹکرایا ان کو تو نہ توڑسکا البتہ خود اس کا اپنا وجود
برقرار رکھنا ممکن نہ رہا دنیا کے تاریخ دان افغان لوگوں کی اس خوبی کو اس
قوم کی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں کہ کیسی نڈر بے باک اور بہادر قوم ہے
جب امریکہ نے 9/11کا سارا ملبہ ان کے سر تھونپ دیا اور حملہ آور ہو ا تو
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ بہت جلد وہ افغانستا ن کو فتح کر لے گا
اس بات کا خود امریکیوں کو بھی اندازہ نہ تھا کہ ایک ایسی قوم جس کے پاس
ٹیکنالوجی تو دور کی بات کھانے کو کچھ نہیں ہے وہ ان کے لیے اتنی مشکلات
پیدا کر دیں گی کہ خود امریکہ کو اس جنگ کے اثرات سے بچانا مشکل ہو جائے گا
اب جبکہ امریکہ اس جنگ میں بری طرح سے دھنس چکا ہے اور اس کی معیشت کا حال
بہت ہی برا ہے ہر سال لاکھوں امریکی بے روزگار ہو رہے ہیں امریکہ کے چوٹی
کے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں کئی بڑی امریکی کمپنیاں بھی ایسی ہی بحرانی
کیفیت کا شکار ہے تو وہ اس جنگ سے نکلنا چاہتا ہے کیونکہ یہاں اس جنگ کے
اخرجات اب اس کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں اور اس جنگ میں ہونے والا جانی
نقصان بھی ان پر اپنے عوام کی طرف سے پریشر کو بڑھا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ
اس کے اتحادی یورپی ممالک میں جو حالیہ معیشت کی بد ہالی کی صورت حال ہے اس
وجہ سے اس کے اتحادیوں کا بھی اس پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ اس جنگ سے اب نکل
جانا ہی بہتر ہے کیونکہ اس کو مذید جاری رکھنا اپنے آپ کو تباہی اور بربادی
میں دھکیلنے کے مترادف ہو گا امریکہ 2014میں افغانستان سے نکل جانے کے لیے
تیار ہو چکا ہے اور اس کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں طالبان
قیدیوں کی رہائی طالبان رہنماؤں پر لگائی جانے والی پابندیوں میں نرمی وہ
ممالک جن کا طالبان حلقوں میں اثر رسوخ ہے ان کو طالبان کو مذاکرات کی میز
پر لانے کے لئے راضی کرنا دنیا کے مختلف ممالک میں طالبان کو اپنے دفاتر
کھولنے کے لیے اجازت دینا وغیرہ شامل ہیں امریکہ نے جو اہداف اس جنگ میں
کودتے وقت مقرر کیے تھے ان کو پس پشت ڈال کر وہ اس جنگ سے جان چڑانا چاہتا
ہے کیونکہ اگر اس نے اس کو جاری رکھا تو شاید پاقی سپر پاورز کی طرح اس کا
بھی شیرازہ بکھر جائے جو کہ امریکہ کھبی بھی نہیں چاہیے گا اور اب وہ لوگ
جو ہر بار ان غیر ملکی طاقتوں کو خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں کسی نئے شکار
کو پھانسنے کی کوشش میں ہیں کیونکہ ان کو نہ تو افغانستان سے کوئی مطلب ہے
نہ امریکہ سے انھیں تو صرف اپنا مفاد عزیز ہے جس کے لئے وہ کسی کو بھی
استعمال کر سکتے ہیں ۔ |