جب معاشرے کھوکھلے ہو جاتے ہیں
تو ہر کام جاگتی آنکھوں میں بسے ہوئے خوابوں کی مدد سے تکمیل تک پہنچنے
لگتا ہے۔ ہر معاملہ اُمیدوں اور خوش گمانیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ لوگ محنت
کو سات سلام کرکے صرف آسرے پر بیٹھے رہنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ اور جب
یہ روش منطقی انجام سے دوچار کرتی ہے یعنی صرف اور صرف ناکامی ہاتھ آتی ہے
تب سارا غصہ اُس پر اُتارا جاتا ہے جس پر بس چلتا ہے۔ یعنی موت کو گلے
لگاکر قبر میں جو سوئیے۔ اور اگر ایک قدم آگے گئے تو خود کو ختم کرنے سے
قبل اہل خانہ کو بھی ختم کر ڈالا! جس زندگی کو سو جتن کرکے قابل رشک بنانے
کی کوشش کی جاتی ہے اُسی کو موت کے گڑھے میں دھکیلنا تمام مسائل کا حل
ٹھہرتا ہے!
نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ جنہیں تنہائی مرغوب ہوتی ہے وہ پہلے تو مردم
بیزار ہوتے ہیں اور پھر جینے سے بھی بیزار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اِس کا
بنیادی سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دوسروں سے کٹ کر جینے والے اپنے خیالوں
میں گم رہتے ہیں اور اُن کے دِل و دِماغ رفتہ رفتہ مایوسی کے سمندر میں
ڈوبتے جاتے ہیں۔ یہ روش سوچ کو منفی کرتی جاتی ہے اور پھر کمزور لمحات تاک
میں رہتے ہیں۔ خود کشی کا فیصلہ کمزور لمحے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی سے
مشاورت کرکے دِل کا بوجھ ہلکا نہ کرنے اور زندگی کو صرف مسائل کا انبار
گرداننے والوں کے گرد کمزور لمحات اپنا شکنجہ کَستے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ تنہائی کیا ہے؟ کیا کسی سے نہ ملنا اور اپنے آپ کو وقت
دینا ہی تنہائی ہے؟ وسیع تر مفہوم میں تنہائی یہ بھی تو ہے کہ اِنسان بدلتے
ہوئے وقت اور اُس کے ساتھ بدلتے ہوئے رُجحانات کا ساتھ نہ دے، اپنی علمی،
معاشرتی اور معاشی سطح بلند نہ کرے۔ جو لوگ اپنے ماحول میں پنپنے والی
تبدیلیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں وہ بھی تنہائی ہی کے تو اسیر کہلائیں
گے!
فیصل آباد میں 55 سالہ پھل فروش قاسم ولد غلام مصطفٰی نے پہلی بیوی سے
اٹھارہ سالہ بیٹے، دوسری بیوی اور اُس سے ہونے والے چار بچوں کو قتل کرکے
خود کشی کرلی۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد یا انوکھا واقعہ نہیں۔ ملک بھر میں
بہت سے لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ حل کی طرف نہیں جارہا تو
دُنیا ہی سے جانے کو ترجیح قرار دیتے ہیں! لوگ کہتے ہیں کہ اپنی یا دوسروں
کی زندگی ختم کرنے کے لیے جگر، بلکہ جگرا چاہیے۔ آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں
گے جو خود کشی کو ایسا عمل سمجھتے ہیں جس کے لیے بڑا حوصلہ درکار ہے یعنی
جو اپنی جان لے اُسے بھی خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہیے! حقیقت یہ ہے کہ سب
سے بڑی بہادری زندہ رہنے اور ہر قسم کے ناموافق حالات کا سامنا کرنے میں
مضمر ہے۔ آں جہانی پنڈت برج نرائن چکبست نے کیا خوب کہا ہے۔
مُصیبت میں بشر کے جوہر مردانہ کُھلتے ہیں
مُبارک بُزدِلوں کو گردش قسمت سے ڈر جانا
یہ سَودا زندگی کا ہے کہ غم اِنسان سہتا ہے
وگرنہ ہے بہت آسان اِس جینے سے مَِر جانا!
پاکستانی معاشرے میں ایسے بے ہمت لوگوں کی کمی نہیں جو موت کو تمام مسائل
کا حل سمجھتے ہیں۔ جب معاملات کسی طور سُلجھتے نظر نہیں آتے تو موت کو گلے
لگاکر مشکلات کو بھی دفن کرنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ قاسم کو پہلی بیوی سے بڑے بیٹے اٹھارہ سالہ آصف اور
دوسری بیوی تیس سالہ آسیہ کے مابین ناجائز تعلقات کا شبہ تھا۔ مالی مسائل
اور دیگر پیچیدگیوں نے جلتی پر تیل چھڑکا اور قاسم نے دونوں کے ساتھ ساتھ
سات سالہ مریم، چھ سالہ علی رضا، پانچ سالہ رابعہ اور ڈیڑھ سالہ عائشہ کو
بھی قتل کرکے خود کشی کو بہترین آپشن جانا!
ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔ زندگی خریدنے نکلتے ہیں اور موت کو مُرادوں کی
ٹوکری میں ڈال لیتے ہیں! کئی زمانوں تک جن مسائل کو پنپنے دیا گیا ہو
اُنہیں راتوں رات حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ناکامی ہی تو ہاتھ
آئے گی۔ اور جب ناکامی ہاتھ لگے تو زندگی کی بساط لپیٹنے میں دیر نہیں
لگائی جاتی۔ ناکامی کی وجوہ پر غور کرنے کے بجائے صرف منفی سوچ کے آغوش میں
بیٹھ کر شدید مایوسی کو گلے لگایا جاتا ہے۔ جب پُلوں کے نیچے سے پانی خاصا
بہہ چکتا ہے تب ہوش آتا ہے۔ ایسے میں چونکہ اصلاح کی زیادہ گنجائش نہیں
ہوتی اِس لیے معاملات کو لپیٹ کر قبر میں لیٹنے اور لِٹانے کا آپشن اپنایا
جاتا ہے!
مُشکلات کی بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کا وہی نتیجہ
برآمد ہوتا ہے جو قاسم کے کیس میں ہوا۔ مسائل حل کرنے کا یہ کوئی مثالی
طریقہ نہیں۔ توجہ نہ ملنے پر پودے جیسا مسئلہ کچھ عرصے میں گھنا درخت بن کر
ہمارے دِل و دِماغ میں جڑ پکڑ لیتا ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت کچھ، بلکہ
تقریباً سبھی کچھ ہر آن بدل رہا ہے۔ ہمیں اِس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا
پڑتا ہے۔ نہیں بدلیں گے تو معاملات الجھتے جائیں گے۔ ہم میں سے بیشتر اِس
خام خیالی کے اسیر رہتے ہیں کہ زندگی بس گزرتی جائے گی اور مسائل خود بخود
حل ہوتے رہیں گے۔ مسائل کبھی حل ہوتے نہیں، اُنہیں حل کیا جاتا ہے! مسائل
کو نظر انداز کرکے ہم در حقیقت اپنے وجود کو پیچیدگیوں کی آماجگاہ بنانے پر
تُلے رہتے ہیں۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے
سے گریز اور کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینا چھوٹے مسائل کو
بھی بحران میں بدل دیتا ہے۔
زندگی سے منہ موڑ کر موت کو گلے لگانے والے یہ بات تو ثابت کر ہی دیتے ہیں
کہ اُنہیں اللہ سے کوئی اُمید نہیں تھی۔ یعنی خود کشی کی صورت میں جان کے
ساتھ ساتھ ایمان سے بھی گئے۔ یہ کل تک کا رجحان تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ خود
کشی سے قبل اہل خانہ کو مُلکِ عدم روانہ کیا جاتا ہے! یعنی مرتے وقت بھی یہ
فکر لاحق ہے کہ بعد میں اہل خانہ کو پیٹ بھر کھانا کیسے ملکے گا! شیر خوار
بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اُنہیں اُن کی ماں
نے کتنی مشقت سے بڑا کیا تھا۔ یعنی اپنی ماں کی مشقت کو بھی ضائع کیا اور
اپنی اولاد سے بھی زندہ رہنے کا حق چھین لیا! دُنیا میں بھی مِٹّی خراب اور
آخرت بھی ذِلّت مقدر۔
سمجھنے اور سمجھانے کو بہت کچھ ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں تمام
خواہشیں راتوں رات بار آور کرنے اور تمام مسائل پلک جھپکتے میں حل کرنے کی
روش ترک کرنی ہوگی۔ زندگی سے حقیقی محبت کا ایک بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ
چھوٹے بڑے تمام مسائل کے حل پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ اور یہ سب کچھ اللہ
پر مکمل بھروسے کے ساتھ ہونا چاہیے۔ |