تُو بھی نا تمام، میں بھی نا تمام

حقیقت سے انکار تو کسی کو بھی نہیں ہو سکتا کہ صبحِ آزادی کے سورج کے طلوع ہونے کے بعد سے ہم سب نے جو سفر شروع کیا تھا اس میں ہمیں بہت سی کامیابیاں ملی تھیں، بڑے بول کے مصداق یہ کہہ سکتے ہیں کہ چاند پر کمند ڈال لیا، سمندروں کی تہوں تک اپنی پیٹھ بنائی ، لاکھوں میل کی پگ ڈنڈیوں کو سڑکوں میں تبدیل کیا، اس طرح مہینوں کی مسافت کو دنوں میں اور دنوں کی مسافت کو گھنٹوں میں تبدیل کرنے کا سہرا بھی ہمارے ہی سر ہے۔ آج دنیا میں جمہوری نظام حکومت کا تمغہ بھی ہمارے پاس ہے۔ لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے جو خواب دیکھا تھا وہ چھیاسٹھ برسوں کے بعد بھی ادھورا ہے۔ آج بھی ملک میں ایک طرف کچھ ایسے شہری ہیں جو عالیشان محلوں اور آسمان کو چھوتی بلدنگوں میں زندگی گزار رہے ہیں تو دوسری طرف لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہری کھلے آسمان تلے فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا لائحہ عمل دارالخلافہ میں تیار کیا جاتا ہے مگر وہاں بھی لوگ گھروں سے ناواقف ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بوتل بند پانی پر زندگی بسر کر رہا ہے تو دوسری طرف کروڑوں لوگوں کو ندیوں اور تالابوں اور آلودہ پانی پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنے کتون کو روزآنہ کیلو دو کیلو دودھ اور قیمتی کیک کھلا کر بھی مطمئن نہیں ہیں تو دوسری طرف کروڑوں بچے عدم تغذیہ کے شکار ہیں۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ افسوس صد افسوس ! آزادی کے چھیاسٹھ برسوں کے بعد بھی ملک میں اتنی بری آبادی کسمپرسی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی شعبے میں مستحکم کیا جائے مگر ملک میں اس طرح کی سیاست ہو رہی ہے کہ اس سے کسی کا بھی بھلا نظر نہیں آ رہا ہے۔

کیا اس ملک کے سترہ یا اٹھارہ کروڑ کی آبادی کو باعزت شہری بن کر جینے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم جس آئین اور جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس میں ہر شہری کو جینے کے مساوی حقوق دینے کی وکالت بھی کی گئی ہے۔ آئین اور جمہوریت دونوں ہی یہ کہتی ہے کہ بغیر کسی تعصب و تحفظ کے ملک کے ہر شہری کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ملک کے ہر شہری کو آزادی اظہار حاصل ہوگا۔ ملک کا ہر شہری اپنی ٹہذیبی شناخت کو قائم رکھے گا۔ مگر ہمارے یہاں سب الٹا چل رہا ہے۔ اقتدار پر بُرا جمان حکومت گھڑیالی آنسو تو بہاتی ہے مگر فسادات پر قابو پانے ، بیروزگاری کو ختم کرنے، مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دیتی۔ ملک میں دہشت گردانہ واقعات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ شدت پسند ہر نئے دن میں کوئی نہ کوئی کاروائی ڈال دیتے ہیں۔ آئے دن اخبارات کے شہ سرخیوں میں اور میڈیا کے بریکنگ نیوز میں ایسے دلدوز واقعات کا ذکر ہوتا رہتا ہے ۔ مگراس پر سخت کاروائی کرنے کے بجائے وزارتِ داخلہ موبائل سروس کی لوڈ شیڈنگ اور ڈبل سواری پر پابندی کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام سخت پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اگر کسی کا بیٹا ، کسی کا باپ، یا کوئی اور گھر سے بہت ہی ضروری کام کی غرض سے نکل جائے تو وہ ان حالات میں اپنے لوگوں سے رابطے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ پھر جب تک وہ واپس گھر نہیں آجاتے جب تک گھر کے افراد تذبذب میں ہی مبتلا رہتے ہیں۔
پوچھا اگر ہے آپ نے ، سُن لیں جنابِ من
اسرار اب کہیں گے ہی باتیں کھری کھری
مارچ تیئس ہو کہ چودہ اگست ہو
بے روزگار کیا کریں ڈھونڈیں جو نوکری

لگ بھگ ہر سال ہی ہم گذرے ہوئے سال کو خدا حافظ اور نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں اور یہ امید لگاتے ہیں کہ یہ سال ہمارے لئے اور ہمارے ملک کے لئے سودمند ثابت ہوگا۔ مگر ہم سب ہی صرف جملوں کی لفاظی ہی کرتے ہیں مگر حالات و واقعات کو سدھارنے کے لئے کوئی مثبت عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ گذرے ہوئے سال میں ہماری جمہوریت کتنی توانا یا کمزور ہوئی ہے اور جمہوری اداروں کی کارکردگی اور فعالیت کس پوزیشن میں ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ آزادی کے بعد جو ڈھیر سارے حقوق عوام کو حاصل ہوئے تھے اس پر عمل در آمد ہو رہی ہے یا نہیں۔ ووٹ ڈالنے کا حق، اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی زبان کو فروغ دینے کا حق، تعلیم حاسل کرنے اور پورے ملک میں جہاں مرضی ہو جاکر روزگار حاصل کرنے کا حق، آزادی ¿ اظہار کا حق حاصل ہوا یا نہیں۔ (مگر ہمارے یہاں اس طرح کا کوئی رواج نہیں کہ کسی اور شہر کا باشندہ کسی دوسرے شہر میں جاکر اپنے لئے کوئی نوکری حاصل کر لے یا کسی دوسرے صوبے کے شہر میں رہائش اختیار کر لے۔ یہ دو بنیادی باتیں ہیں جن پر بڑے اور امیر لوگوں پر تو یہ لاگو ہے مگر کسی غریب اور متوسط طبقے کو یہ حق آج بھی حاصل نہیں ہے، رہائش تو درکنار وہ تو کسی اور شہر میں اپنے لئے روزگار بھی حاصل نہیں کر سکتا۔)

آج ملک کو آزاد ہوئے تقریباً چھیاسٹھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر کیا ہم نے عظیم رہنماﺅں کی قربانی کو رائیگاں کر دیا ہے۔ کیا ہم نے ملک سے سارے خرافات ، بدعنوانی، فرقہ پرستی، تنگ نظری، لسانی عصبیت اور دیگر چیزوں سے نجات حاصل کر لی ہے؟ کیا ہم نے ایسی روایت قائم کی ہے جہاں شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پلایا جا سکے؟ کیا ہم نے اپنے بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر حاصل کر لی ہے؟ کیا آج ہمارا ملک مکمل طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو چکا ہے؟ کیا ہم نے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کر دیا ہے؟ کیا ہم نے اپنے ملک کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے جہاں ترقی کی شاہراہوں پر ہم گامزن ہو چکے ہیں؟ اگر نہیں کیا تو آنے والے برسوں میں کیا ہم یہ تمام اہداف حاصل کر لیں گے؟ یہ سب سوالات ہیں جن کے جواب کا عوام کو آج بھی انتظار ہے........

ہم سب عوام تو بس اس بات کے قائل ہیں کہ ملک میں کسی بھی طرح کے تخریبی اور بدامنی کے کام میں جو لوگ بھی ملوث ہیں انہیں سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے تاکہ ملک کے لوگوں کو امن و امان جیسی بنیادی چیز میسر ہو سکے۔ لیکن اگر کسی خاص ایجنڈے کے تحت کسی کاص مقصد کی شناخت کو مسخ کرنے کی سازش ہو تو نہ صرف ہماری جمہوریت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے بلکہ ملک کی سالمیت کے لئے بھی خطرناک ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے وقار کو بلند کرنے اور سالمیت کو مستحکم کرنے کے لئے تمام تر تحفظات اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر اتحاد کے ساتھ جانبِ منزل رواں دواں رہیں تاکہ اُن شہیدوں کی روح کو اطمینان ملے جن کی شہادتوں کی بدولت ہمیں یہ آزادی ملی تھی اور دنیا کے نقشے پر ہمارا ملک پاکستان وجود میں آیا ہے۔شاعر اپنے تئیں اس شعر کو لکھنے میں حق بجانب ہی لگتا ہے کہ:
عشق تیری انتہا، عشق میری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام ، میں بھی ابھی نا تمام
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.