اے وطن تو نے پکارا تو لہو
کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جان باز چلے آتے ہیں
آج سے تقریباً دس سال پہلے میرے ایک استاد محترم جو شعبہ تعلیم سے منسلک
ہیں، سے ایک بار کرپشن کے حوالے سے خیالات کاتبادلہ ہو رہا تھا تو اسی
دوران انہوں نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ جو جتنا کرپشن سے کمائے گا اس سے
زیادہ وہ آفات، حادثات اور بیماریوں پہ خرچ کرے گا اور اس فرد پر زیادہ
مصیبتیں آتی جو کرپشن زیادہ کرتا ہے۔ اپنی اس بات کو زیادہ ٹھوس بنانے کے
لیے انہوں نے اپنے آپ کو سامنے رکھا اور کہا کہ میں سکول میں بچوں سے حکومت
کی طرف سے مقرر کردہ فیس سے ایک ،دو یا تین روپے اضافی لے لیتا تھا کبھی
کھلے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر تو کبھی چائے پانی کا بہانہ بنا کراور پھر اس
ماہ اپنے دو سالہ بچے کو تقریباً روزانہ ڈاکٹرسے چیک اپ بھی کرواتا تھا
کبھی گلہ خراب تو کبھی کھانسی کبھی پیٹ میں درد تو کبھی دست۔ان مصیبتوں سے
تنگ آکر ایک دن ذہن الجھ پڑا اور ایک سوال ذہن میں مسلسل گردش کرنے لگا کہ
ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہو تا ہے جب بھی بچوں سے فیس وصول کرتا ہوں اس کے
بعد مسلسل مصیبتیں مجھے گھیر لیتی ہیں؟ پورا ماہ ذہن انہی خیالات میں مگن
تھا کہ نیا مہینہ شروع ہوا اور فیس جمع کرنے کے دن آ گئے ۔فیس جمع کرتے
کرتے خیال آیا کہ اس بارکسی بچے سے زائد فیس وصول نہیں کرنی ہے لہٰذا ایسا
ہی کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تب سے نہ ڈاکٹرز کے پاس روز روز جانا پڑا
اور نہ ہی اور کسی ناگہانی آفت سے واسطہ پڑا ۔
کرپشن کاوہ دائرہ جس میں چند سال پہلے صرف چند ادارے ہی سماتے تھے اب اتنا
وسیع وعریض ہو چکا ہے کہ اب وہ ادارہ ، ادارہ ہی نہیں سمجھا جاتا ہے جو
کرپشن کے دائرہ میں نہ آتا ہولیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت ےہ بھی ہے کہ
ان اداروں میں کرپٹ افرا د کے مقابلے میں ایمان دار افراد زیادہ ہیں مگر ان
کرپٹ افراد نے ہر ادارے میں قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ہر ادارہ کرپشن
کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔اس کی وجہ ےہ ہے کہ ان کرپٹ افراد کو ہر طرح سے
سپورٹ کیا جارہا ہے اور انہیں ہر طرح کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی مراعات
بھی حاصل ہیں جس کی وجہ سے یہ ہر ادارے میں باحفاظت اپنے کام دھندوں میں
مصروف ہیں یہی وہ افرادہیں جو نہ صرف اداروں کی تباہی کا موجب ہیں بلکہ ملت
اسلامیہ کی جڑوں میں دیمک کی افزائش نسل کے لیے مال اسباب مہیا کر رہے ہیں
۔کاش۔۔۔انہیں کوئی یہ سمجھا دے کہ جس درخت کی جڑوں میں ےہ دیمک کی افزائش
نسل کر رہے ہیں کل کو اسی درخت نے ان کی آنے والی نسلوں کو حالات کی شدت و
حدت سے پناہ دینی ہے ۔تب ےہ کھوکھلا درخت کیسے ان کی نسلوں کو پناہ دے گا؟
ملکی اداروں کی طرف جب نگاہ جاتی ہے تو ایک مایوسی دل و دماغ میں ڈیرہ جما
لیتی ہے لیکن یہ اندوہناک مایوسی کے بادل تب چھٹ جاتے ہیں جب انہی اداروں
میں سے ایک ادارے کی طرف نگاہ جاتی ہے ،سینہ پھول جاتاہے اور سر فخر سے
بلند ہو جاتا ہے ۔عموماً دوسرے ممالک کی سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق کوئی
خبر پڑھ کر ایک آہ دل سے نکلتی ہے کہ کاش پاکستان میں بھی ایسا ہوتا مگر
یقین جانیں چند دن پہلے ایک غیر ملکی خبر پڑھ کر یہ آہ دل سے نہیں نکلی ۔خبر
یہ تھی کہ بھارت کی ایک ریاست میں ایک ہاتھی کا بچہ کنویں میں گر گیا جسے
با حفاظت کنویں سے نکال لیا گیا ۔اس خبر کو پڑھ کر میں نے یہ نہیں کہا کہ
کاش پاکستان میں بھی ایسا ہوتا کیوں کہ یہاں عموما ً مجھے ایسی خبروں اور
ایسے واقعات کا علم ہوتا ہے جس میں کسی کتے کی جان بچائی گئی تو کسی بلی کو
کنویں سے نکالا گیا کسی چیل کو درخت کی ٹہنیوں سے آزاد کیا گیا تو کسی زخمی
بندر کو باہمی امداد دی گئی ۔اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کی باہمی امداد کے
لیے اس سے بھی اعلیٰ اقدامات کیے جاتے ہیں ٹریفک ایکسیڈنٹ ہوں ، آگ ہو،
زلزلہ ہو، سیلاب ہو ، بیماری ہو یا اور کوئی ناگہانی آفت ہو متاثرین کو
10منٹ کے اندر اندر باہمی امداد فراہم کر دی جاتی ہے ۔
جی ہاں یہ میرے پاکستان میں ہی ہوتا ہے پھر میں کیوں نہ ان سبز وردی میں
ملبوس ، حسن و کردار کے مالک ، محبت و شفقت کے آئینہ دارنوجوانوں پر فخر
کروں کہ جو میرے ملک کے باسیوں کوبچانے کے لیے آگ میں کود جاتے ہیں ، بکھرے
اور خون میں لت پت انسانی اعضاءکو سمیٹنا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں ، اندھے
کنوﺅں میں چھلانگ لگا کر امداد باہمی کی وہ مثال قائم کرتے ہیں کہ عقل دہنگ
رہ جاتی ہے ، سانپ سے اژدھا تک اور شیر سے چیتے تک ،سے یہ بلا خوف و خطرت
مقابلہ کرتے ہیں اور ملک عظیم کے لوگوں کوایسے ریسکیو دیتے ہیں کہ جیسے ایک
ماں کی شفقت پناہ۔شاید کے ریسکیو 1122والوں کے لیے ہی شاعر نے کہا تھا کہ
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسوں وہ خواب ہیں ہم
سال 2012ءکے لیے ریسکیو 1122کی کارکردگی متعلق رپورٹ شائع کی گئی جس کو
دیکھ کر نہ صرف خوشی ہوتی ہے بل کہ سینہ فخر سے پھول جاتا ہے اس رپورٹ کے
مطابق:
ریسکیو 1122نے 2012ءمیں 447667متاثرین کو ریسکیو کیا اور پنجاب کے تمام
اضلاع میں اپنا 7منٹ سے کم رسپانس ٹائم برقرار رکھا جو کہ ریسکیو کے جیالوں
کی چابک دستی کی زندہ و جاوید مثال ہے جس پر نہ صرف مجھے بل کہ ہر اس شخص
کو فخر ہے جس کا اس ملک سے زندگی موت کا رشتہ ہے ۔رپورٹ کے مطابق
2012ءمیںپنجاب میں 158551ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے جب کہ 2011ءمیں یہ تعداد
144270تھی۔ 2012ءمیں آگ لگنے کے 10235حادثات رپورٹ ہوئے جب کہ یہی تعداد
2011ءمیں 8360تھی ۔2012ءمیں جرائم کے 19212حادثات، ڈوبنے کے
1032واقعات،عمارتیں گرنے کے 856واقعات،127بم دھماکے رپورٹ ہوئے جس میں
ریسکیو کے نوجوانوں نے نہ صرف بروقت امداد باہمی فراہم کی بل کہ سیکڑوں
جانوں کو بھی بچایا انہیں حادثات میں 1628سپیشل ریسکیو آپریشن بھی شامل ہیں
۔
ذات پات ، قوم و مسلک میں جکڑی اس قوم کے ان جیالوں نے ریسکیو آپریشن کرتے
وقت متاثرین کی ذات پات ، قوم و مسلک کو بالائے طاق رکھ کر خدمات باہم
پہنچائی اور پہنچا رہے ہیں ۔ریسکیو 1122کے جیالوں کی یہ خدمات صرف انسانیت
تک ہی محدود نہیں ہیں یہ کبھی بلی کو ریسکیو پہنچاتے ہیں تو کبھی زخمی کتے
کو سڑک کنارے ریسکیو فراہم کر رہے ہوتے ہیں یہ درختوں کی ٹہنیوں سے چیل کو
چھڑانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی کسی موذی جانور سے خوف کھا
کر پیچھے ہٹتے ہیں ۔پھر میں کیوں نہ ان پر فخر کروں کہ انہوں نے اپنی
جوانیوں کو اس سرزمین کی مخلوقات کے لیے وقف کردیا ہے ۔
ہر بات میں سے کیڑے نکالنے والے کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ان نوجوانوں کا
کام ہی ریسکیوپہنچانا ہے اور حکومت انہیں تنخواہ بھی انہی خدمات کے عوض
دیتی ہے لہٰذا اس میں فخر کی کیا بات ؟ تو ان ناقدین کے لیے نہایت ہی سادہ
سا جواب یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام اداروں میں تمام ملازمین کو عوام کی خدمت
کے عوض ہی تنخواہ دیتی ہے اور یہ ملازمین عوام کی کیسے خدمت کرتے ہیں یہ اس
ملک کے لوگ تو جانتے ہی ہیں اب تو غیر ممالک کے لوگ بھی جان گئے ۔سب سے بڑی
مثال ہمارے عوامی نمائندے ہیں جو عوام کی خدمت کے معتبر ترین منصب پر فائز
ہوتے ہیں اور پھر کیسی خدمت کرتے ہیں یہ ہم 65سال سے دیکھ رہے ہیں ۔
آخر میں حکومت سے ایک التجا ، گزارش اور مشورہ ہے کہ ریسکیو 1122کی سروسزکو
پنجاب کے شہروں سے بڑھا کر پاکستان کے دوسرے صوبوں کے شہروں تک بھی لاےا
جائے تاکہ تمام پاکستانی ریسکیو 1122کی جدید ترین سروسز سے فیض یاب ہوسکیں
اور عوام سے گزارش ہے کہ ایسے ادارے صدیوں میں بنتے ہیں لہٰذا ان کی قدر
کریں اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے اہلکاروں
کے ساتھ اسی عزت و احترام سے پیش آئیں جن کے حقدار یہ ہیں تاکہ یہ ادارہ
بھی سہل پرستی اور کرپشن کی نظر نہ ہوسکے ۔ |