سی اے میں سرفہرست پریما کا پیغام

مجھے اس خوشی کاخود تجربہ ہے جو والدین کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب نامساعد حالات کے باوجود کسی اولاد کو ، خصوصا بیٹی کوکوئی ناقابل تصور کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔ شاید اسی لئے جب ممبئی سے یہ خبر آئی کہ اس سال سی اے کا پر وقار امتحان ہماری قوم کی ایک بیٹی ’پریما جے کمار‘ نے ٹاپ کیا ہے، توفطری مسرت کے احساس سے آنکھیں چھلک گئیں۔ پریما کی یہ کامیابی صرف اس لئے خاص نہیں کہ اس نے ایک مشکل امتحان ٹاپ کرلیا بلکہ یہ کامیابی اس لئے زیادہ اہم ہے کہ جن حالات میں اس نے یہ معرکہ سر کیا ہے وہ تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے ہرگز سازگار نہیں تھے۔

پریما کا تعلق جس خاندان سے ہے اس میں نہ تو تعلیم کی روایت ہے اور نہ آمدنی میں اتنی کشادگی جس میں بچوں کی تعلیم کو جاری رکھاجاسکے۔ رہائش بھی ایسے علاقے میں نہیں جہاں پڑھنے لکھنے کاماحول ہو اور مطالعہ کے لئے سکون میسر ہو۔ ایسے حالات میں نہ صرف پڑھ لینا بلکہ ایک ہی مرحلے میں سی اے جیسا مشکل امتحان پاس کرلینا اور اس میں سر فہرست آجانا تعلیم کی دنیا کاایک نادر واقعہ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عموماً سی اے کا ہرمرحلہ ایک ہی کوشش میں عبور کرلینا نہایت دشوار ہوتا ہے اور اس کا رزلٹ بمشکل 15فیصد رہتا ہے۔ سی اے کرتے کرتے بہت سے لوگوں کی جوانی ڈھل جاتی ہے جب کہ پریما کی عمر صرف 24سال ہے اور اس نے سی اے کی ابتدائی کورس ایم کام کے ساتھ پاس کئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں پریما نے اپنے چھوٹے بھائی دھن راج کو بھی اپنے ساتھ لگائے رکھا، چنانچہ اس نے بھی اپنی بہن کے ساتھ سی اے کرلیااور 22ویں پوزیشن حاصل کرلی ۔ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ،خصوصاً جب کہ تعلیم کا خرچہ چلانے کے لئے وہ ووڈا فون کے کال سنٹر پر کام بھی کرتاہے۔شاید ایسا کم ہی ہوا ہو جب کسی بہن بھائی نے ایک ساتھ یہ کامیابی حاصل کی۔

پریماجے کمار کا تعلق ایک محنت کش خاندان سے ہے۔ اس کے والد جے کمار پیرومل آٹو رکشا چلاتے ہےں۔ ماں لنگامّل گھریلو خاتون ہیں۔ہرچند کہ پریما نے ممبئی کا نام روشن کیا مگر یہ خاندان تمل ناڈو کے ایک دور دراز گاﺅں سنکا پورم ضلع ولا پورم سے بیس سال قبل ممبئی میں آکربس گیا تھا۔ ممبئی میں کچھ دنوں جے کمار نے ایک مل میںکا م کیا، مگر تنخواہ کم تھی اس لئے آٹور کشا چلانے لگے، جس میں اب15ہزار روپیہ ماہانہ تک یافت ہوجاتی ہے۔ ماں نے بھی کچھ دنوں ایک فیکٹری میں کام کیا مگر صحت نے ساتھ نہیں دیا۔نوکری چھوڑ دی۔تنگی ترشی کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کو پڑھایا۔بڑی لڑکی کی توشادی ہوگئی، جو اب دو بچوں کی ماں ہے۔ چھوٹی بیٹی پریما پڑھائی میں شروع سے تیز تھی، اس لئے پڑھتی چلی گئی ۔ بی کام کیااور ایم کام کے ساتھ سی اے جوائن کرلیا اور 24سا ل کی عمر میں وہ کارنامہ کر دکھایا ،جس پر اس کے والدین ، اس کی ریاست تمل ناڈو کو ہی نہیںبلکہ پورے مجبور ہندستان کو فخرہونا چاہئے۔ مجبور ہندستان کو اس لئے کہ ہمارے ملک کی بڑی آبادی مختلف قسم کی مجبوریوں میں مبتلا ہے اور سب سے بڑی مجبوری کم ہمتی ہے۔

چار افراد پر مشتمل پیرومل خاندان ملاڈ علاقے میں 280 مربع فٹ کے ایک کمرے کے مکان میں رہتا ہے۔ یہ مکان ایک بڑی بلڈنگ میں ہے، جس کو ممبئی کی زبان میں ’چاول ‘یا ’چال‘کہا جاتا ہے۔ ہرچال میں ایسے ہی ایک ایک کمرے کے آشیانوں میں پورے پورے خاندان گزارہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں لکھنے پڑھنے کے لئے کوئی ماحول نہیں ہوتا، مگر پریما اوردھن راج نے اسی ماحول میں رہ کر پڑھا۔ انہوں نے کسی اعلا انگلش میڈیم اسکول سے نہیں بلکہ سرکاری پرائمری اسکول سے پڑھناشروع کیا اور سرکاری کالجوں میں ہی پڑھائی پوری کی۔پریما کی وجہ سے چھوٹے بھائی نے بھی پڑھ لیا۔ گھر کی آمدنی میں مدد دینے کے لئے وہ ٹیوشن پڑھاتی رہی۔ گھر کے کام کاج میں ماں کا کچھ ہاتھ بھی بٹاتی ہوگی۔ ایسی صورت میںتعلیم میں ایسا انہماک کہ ہر امتحان میںامتیازی نمبر ، بی کام میں یونیورسٹی میںسیکنڈ پوزیشن اورایم کام کے ساتھ سی اے کے ابتدائی مراحل طے کرلینا اور پھر فائنل میں ٹاپ کرلینا، اس کی پختہ قوت ارادی، ذہانت اوریکسوئی کی غیر معمولی صلاحیت کا کرشمہ ہے۔

ذہانت تو خداداد ہوتی ہے مگرایسی شاندار کامیابی اسی وقت ملتی ہے جب وقت کا درست استعمال کیا جائے اور صحت کی حفاظت کے ساتھ جی توڑ محنت کی جائے۔ سی اے کے فائنل امتحان میں 800میں سے 607 پائنٹ حاصل کئے ہیں۔ اس کی اس کامیابی کی شاہ کلید اس کی زندگی کا نظم و ضبط ہے۔ وہ ہر کام طے شدہ ٹائم ٹیبل کے مطابق کرتی رہی اورجو کام کرتی اس میں خود پوری طرح یکسو کرلیتی ۔چنانچہ آج اچھی اچھی ملازمتوںکی آفر اس کے پاس آررہی ہیں۔ جب کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ٹھوکریں کھانے کے باوجود نوکری نہیں ملتی،پریما کی کہانی یقینا نئی نسل کے لئے ایک رہنمائی ہے۔ صلاحیت پیدا کرلی جائے تو قدر کرنے والے خود مل جاتے ہیں۔

عموماًآمدنی میں تنگی کی گاج بچوّں کی پڑھائی پر اور خاص طورسے لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتی ہے۔ لیکن پریما کے والدین مستحق مبارکباد ہیںکہ انہوں خود تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود بچوں کی پڑھائی کو اہمیت کو سمجھا۔ جس قوم میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے،کوکھ میں ہی ہلاک کردیا جاتا ہے، اس میں بیٹی کی ایسی حوصلہ افزائی یقینا ایک اچھی مثال ہے۔

سنہ 1983میں جب تمل ناڈو کے ایک گاﺅں’پے یولی‘ ضلع قاضی کوڈ کی ایک لڑکی پی ٹی اوشا نے کویت کھیل کود کے ایشیائی مقابلے میں 400میٹر کی دوڑ میں ریکارڈ قائم کیا ،تو مجھے یاد ہے کہ مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی کے جلسہ تقسیم انعامات میں سابق صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ نے کہا تھا کہ اب ہندستان کو دنیا میں باوقار مقام دلانے میں ہماری بیٹیاں آگے نکل رہی ہیں۔ ایسی ہی مثال ٹینس اسٹارسئینا ناہیوال کی ہے۔ اس کی ولادت پرتو اس کو دادی کو بڑا صدمہ ہوا تھا مگر اس کے والد اور والدہ نے اس کی ٹیلنٹ کو سمجھا اور آج وہ دنیا میں ہندستان کا نام روشن کررہی ہے۔اس طرح کی چھوٹی بڑی اور بھی مثالیں ہیں۔اس ضمن میں اپنے ایک تجربہ کا ذکر بھی ناروا نہ ہوگا۔چند سال قبل رائفل ایسو سی ایشن جوہڑی ، ضلع باغپت نے (جو گاﺅں میں ہماری خاندانی حویلی میں قائم ہے) باغپت کی ایک سابق خاتون ڈی ایم کامنی رتن کی دعوت پر یوپی کے مشرقی ضلع سلطان پور میںطلباءاور طالبات کےلئے شوٹنگ کیمپ لگایا، جس میں بڑی تعداد میں مسلم لڑکیوں نے بھی حصہ لیا۔ ٹرائل کے بعد جن بچوں میں ٹیلنٹ نظرآیا ، ہماری ایسوسی ایشن کے روح رواں ڈاکٹر راجپال نے ان پرخصوصی توجہ دی۔ چنانچہ کئی بچوں کو مشن اولمپک کے تحت فوج نے اپنے اسکول میں داخلہ دیدیا۔ کئی کو ملازمت دیدی۔ تین لڑکیوں کو انڈین ایر لائنس سے وظائف مل گئے۔ ان میں سے ایک لڑکی مہ جبین بانو کوہندی میڈیم سے انٹرکا امتحان سیکنڈ ڈویزن پاس کرنے کے باوجود اسپورٹس کوٹہ میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں داخلہ مل گیا۔اس کی بڑی بہن بہن کو کھیل کوٹے میںیوپی پولیس میں سب انسپکٹر کی اسامی مل گئی۔ مہ جبیں بانو نے سخت مشکلات کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے بی اے پاس کرلیا۔ خوش قسمتی سے پونا کے سادھنا سینٹر فار منجمنٹ نے اس کواعزازی ایم بی اے میںداخلہ دیدیا، جہاں وہ آخری مرحلے میں ہے ۔ اسی دوران ایک کمپنی نے اس کو ایک اچھی جاب کی آفر بھی دیدی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے ریاستی سطح کے ایک کمپٹیشن کے دوران مہ جبیں کے والد کا ناگہانی انتقال ہو گیا۔ مگر اس کے بھائی شعیب نے کہا کہ کمپٹیشن ختم ہونے تک اس کو یہ اطلاع نہ دی جائے۔ اس بہنوں نے بھی گھر پر تعلیم کا ماحول نہ ہونے کے باوجو استقامت کا ثبوت دیا۔ خاص بات یہ ہے بانونماز روزہ کی پابند ہے۔ اس ذکر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اگرتھوڑی سی رہنمائی مل جائے اور گھرسے سپورٹ مل جائے تو صلاحیتیں اورذہانتیں نکھر آتی ہیں اور وسائل کی تنگی کے باوجود بچے کامیاب ہوجاتے ہیں۔

پریما کی اس کامیابی پر انعامات کی جھڑی سی لگ گئی ہے۔ مہاراشٹرا کے گورنر کے شنکرنارائنن نے راج بھون بلاکر اس کو اعزاز دیا اور ایک لاکھ روپیہ کا چیک دیا۔ تمل ناڈو کی وزیراعلا کماری جے للتا نے دس لاکھ روپیہ، اسٹیٹ شپنگ منسٹر جی کے واسن نے پانچ لاکھ روپیہ اور ڈی ایم کے چیف ایم کروناندھی نے ایک لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا۔یہ ابتدا ہے۔ اصل انعام تواس کو آگے ملیگا اور سب سے بڑی بات وہ طمانیت ہے جو ایسی کامیابی کے بعد ملتی ہے اور جس کے بعد ترقی کے در کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی کمزوروں کی بااختیاری (ایمپاورمنٹ) کا راستہ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پریما کو اس کامیابی پر کوئی غرور نہیں ہے۔متانت اس کے چہرے بشرے سے اور اس کی گفتگو سے صاف عیاں ہے۔اس کو یہ احساس ہے کہ اس کے والدین نے اس کے لئے بڑی قربانی دی ہے اب وہ ان کے لئے راحت کا ستون بن جانا چاہتی ہے۔ اس کی اس کامیابی سے نجانے کتنے بچوں کو حوصلہ ملیگا۔

تفصیلات اور بھی ہیں، مگر توجہ طلب نکتہ یہ ہے عزم اور حوصلہ اصل جوہر ہے۔ملک و ملت کے جو بچے ذہین ہیں ان کی شناخت اسکول کے مرحلے میں ہونی چاہئے ۔ ان پر توجہ دی جائے تو اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے بچیاں فطری طور سے محنتی ہوتی ہیں۔ ان کو اچھی تعلیم دی جائے ، گھر کا ماحول چست و درست رکھا جائے تووہ بھی خاندان کا نام روشن کرسکتی ہیں۔ آج تعلیم کا غلغلہ عام ہے اور لڑکیاں لڑکوں سے آگے نکل رہی ہیں۔ اس کے باوجودبعض گھرانوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ خصوصاً مسلم گھرانوں میں یہ امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے لڑکیوں کی اچھی طرح تعلیم و تربیت دی وہ یوم آخرت مجھ سے اتنا ہی قریب ہوگا جتنی انگشت شہادت سے درمیانی انگلی۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.