بازاروں میں زبردست چہل پہل ہے
ہر طرف لال سرخ دل نظر آرہے ہیں چھوٹے بڑے ہر سائز میں جو پسند آئے خرید
لیں-
سرخ پھولوں کی بھرمار ہے اور دام دوگنے تین گنے لیکن خریداری جاری ہے
چاکلیٹ اور کینڈیز کے ڈبے،بیکری کے تمام مصنوعات کو دل کی شکل میں بنایا
گیا ہے سٹرا بری کے دام بھی آج زیادہ ہیں اس کی مخصوص شکل کی وجہ سے اسکو
چاکلیٹ میں ڈبو کر اس شکل کو اور ابھارا گیا ہے کھلونوں نے دل پکڑا ہوا ہے
- کل شام تک یہ سب آدھی اور تین چوتھائی قیمت تک آجائینگی یہ یہاں کی معیشت
ہے ، خرید و فروخت کا طریقہ کار گاہکوں کو ایک نفسیاتی کشش اور دباؤ میں
ڈالنے کی کوشش ، زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب اور یہ احساس کہ یہ سب
انتہائی ضروری ہے مرد حضرات خواتین خاندان کے افراد ایک دوسرے کو تحائف اور
پھول دیتے ہیں جو مجھے تو اچھا لگتا ہے اسی بہانے کوئی پوچھ لیتا ہے -خواتین
مردوں کے لئے بچے بوڑھے ہر ایک دوسرے فرد کے لئے اور تیسری صنف والے
استغفراللہ ...... -چند کتوں والوں سے ہیلو ہائی ہوئی یہ رابطہ کتے کی سطح
پر ہوتا ہے انکے کتے کی تعریف کر لی نسل وغیرہ پوچھ لی انکی خوشی کا کوئی
ٹھکانہ نہیں ہر جگہ زندگی گذارنے کےاپنے آداب اور تقاضے ہوتے ہیں - یہ میں
نے ابھی کچھ عرصے سے شروع کیا ہے -کتوں اور بلیوں اور دیگر پالتو جانوروں
کے لئے بھی ولنٹاٰ ئن کے تحائف کی خریداری جاری ہے انکے لئے بھی دل کی شکل
میں اشیا ء تیار ہیں جو انکو کل دیے جائینگی -آخر کو وہ بھی خاندان کے فرد
ہیں ہر تہوار پر انکے تحائف کا خیال ضروری ہے وگرنہ زیادتی کا احتمال ہے
---یہ تو کرہ ارض کے اس نصف حصے کی کہانی ہے جہاں 13 فروری کی شام ہے جبکہ
باقی نصف پر دِن طلوع ہو رہا ہے اور وہ بھی 14 کا -وہاں کا ہنگامہ یہاں سے
زیادہ بے ہنگم ہے لیکن وہ پوری طرح اس کے لئے تیار ہیں - تقریبا 30 -٣٢ سال
پہلے ایک عزیزہ پاکستان آئین تو دل کے شکل کے دیدہ زیب چوکلٹ کے ڈبے کافی
مقدار میں لائیں ایک روز مخصوص بناوٹ کے متعلق پوچھ ہی لیا ...بتایا کہ
وہاں ایک دِن منایا جاتا ہے جسے day valentine کہتے ہیں اور یہ اس دِن دِیے
جاتے ہیں میں نے پہلی مرتبہ یہ نام اس وقت سنا- (اب تو ہم بھی اس میں طاق
ہوگے کہ بعد میں اونے پونے خرید لو) - اور پھر کس کے گھر جائیگا طوفان بلا
میرے بعد --اس طوفان نے سارے ممالک کودیکھتے ہی دیکھتےجھکڑ لیا وہاں بھی
جہاں سب کچھ در پردہ ہو رہا ہے - اس کی کیا تاریخ ہے St. Valentine حقیقتا
کون تھا اور تھا بھی کہ نہیں بس اب یہ دِن حقیقت ہے -امریکا اور یوروپ کے
کاروباری دماغوں نے یہ دِن بنا لیا اور ساری دنیا کے لئے ایک شغل شروع کر
دیا - امریکا کوئی دِن منائے اور باقی پیچھے رہیں اچھی باتوں کو اپنانا
مشکل ہے لیکن جو اپنایا جاسکتا ہے اس میں دیر کیسی؟ پھر میڈیا اور
ٹیکنولوجی جسنے دنیا کو اسقدر چھوٹا کر دیا -نامعلوم ہمارے عید نے انکو
ابتک کیوں متاثر نہ کیا اور مشکل ہی ہے کہ کرے -ہماری دلجوئی کے لئے عید کے
ٹکٹ تو نکال لئے جو ہم ڈر کے مارے نہیں خریدتے "ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں
کچھ " -اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حد بندی کہاں کرنی ہے ، جائز اور ناجائز
کی تفریق کیسے کی جائے ؟ ایک درمیانہ اور جائز راستہ اختیار کرنے کی ضرورت
ہے آخر نوجوانوں کو بھی کوئی مثبت سرگرمی چاھئیے -آپ انکو آخرت کی عذاب سے
ضرور خبردار کریں لیکن دنیا میں عزت اور وقار کے ساتھ جینا بھی سکھایں- ہم
الله سے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا سوال کرتے ہیں -حیا ڈے منانا
بہت اچھا خیال ہے کچھ سوچیں اسکو کیسے دلچسپ بنانا ہے -جوانوں کو اس
تنگنائی میں نہ بند کریں کہ انکو سانس لینا بھی مشکل ہوجائے - اب میں تو آپ
لوگوں کو کوئی happy happy ہرگز نہیں کہونگی -- |