حریص کی دنیا بے چین اوراطمینان و سکوں کی مہک سے محروم ہوتی ہے

معاشرہ افراد سے بنتاہے اور افراد میں اچھے برے ،ذہین ،غبی ،گورے ،کالے سبھی ہوتے ہیں ۔مل جل کر رہتے ہیں ۔ان رہنے میں یکسانیت ہے ۔ان کی ضرورتوں میں یکسانیت ہے ۔ان تہذیب میں یکسانیت ہے تو پھر رونا کس چیز کا؟پریشانی کیوں ؟انسان انسان کو زیر کرنے کے درپے ہیں ۔دوسرا اسے زہر آلود نظروں سے دیکھتاہے ۔اس کی اچھائی کو بھی کمال مہارت سے اس طرح بیان کرتاہے کہ وہ کمال اس زاویہ سے زوال دکھائی دیتاہے ۔معاشرے میں آلود ہ فضاء کے بہت سے محرک ہیں ان میں ایک محرک حرص بھی ہے ۔ایک ایسا مرض کے جس کی تشخیص دنیا کا کوئی معالج کرنے سے عاجز ہے ۔سب سے پہلے تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ حرص کہتے کسے ہیں ؟

مراء ۃ المناجیح جلد ٤ ،صفحہ نمبر٦٨پر مفتی احمد یار خان نعیمی نقل فرماتے ہیں :''کسی چیز سے جی نہ بھرنے اورہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص اور حِر:ص رکھنے والے کو'' حَرِیص'' کہتے ہیں۔ یہ بہت بری خصلت ہے ۔حرص و لالچ انسان کو بے شمار مصائب میں مبتلا کر دیتا ہے کیونکہ لالچی شخص کسی مقام پر بھی مطمئن نہیں ہوتا اور لالچ بے شمار گناہوں کا سر چشمہ ہے دوسروں کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کو خود بھی اس کو حاصل کرنے کے چکر میں پریشان حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا حریص شخص کا مزاج بن جاتاہے۔

محترم قارئین :عام طور پر یہ سمجھاجاتاہے کہ حرص حِرْص صِرْف ''مال ودولت '' کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ حِرْص تو کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہوسکتی ہے،چاہے مال ہو یا کچھ اور!چنانچہ، مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو ''مال کا حریص'' کہیں گے تو مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو ''کھانے کا حریص '' کہا جائے گااور نیکیوں میں اِضافے کے تمنائی کو ''نیکیوں کا حریص '' جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو'' گناہوں کا حریص ''کہیں گے ۔لالچ اور حِرْص کا جذبہ خوراک ،لباس، مکان،سامان، دولت،عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی ایک چیزمیں ہو۔انسان و جمیع مخلوق کو پیدا فرمانے والے خدائے احکم الحاکمین اپنی مخلوق کے عادات و اطوار سے شناسا رکھنے کے لیے انھیں بیان بھی فرمایاہے ۔اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ اس نے اچھائی و برائی کے پیمانے سامنے رکھتے ہوئے دونوں کے انجام سے واقف بھی کردیاہے ۔انسان کو جس نہج پر تخلیق کیا ہے ۔پیارے اللہ کریم نے اسے بیان فرمادیا:
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْ اِذًا لَّاَمْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنْفَاقِ وَکَانَ الْاِنْسانُ قَتُوْرًا(پ١٥، بنی اسرائیل: ١٠٠)۔ترجمہ کنز الایمان :تم فرماؤ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو انہیں بھی روک رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہوجائیں اور آدمی بڑا کنجوس ہے ۔

آپ آیت پڑھیں اور غور کریں کہ قران نے قدم قدم پر کتنے پیارے انداز میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔ اعصابی امراض کی وضاحت بھی فرمادی۔انسان کی اس فطرت کوبھی بیان فرمادیا۔حقیقت ہے کہ ہم معاشرے پر نظر دوڑائیں بلکہ پوری دنیا میں دیکھیں تو انسان کی اکثریت مال و متاع کو ذخیرہ کرنے میں جتی ہوئی ہے ۔بلاحلال وحرام کی تمیزکیے ۔وہ مال جو انھیں کفایت کرجاتاہے اس کے باوجود مزید سے مزید تر کی تلاش میں سرگرداںہیں اور جب کسی کو حاجت پیش آئے تو اپنے مال سے خرچ کرتے ہوئے ،اپنی دولت سے صرف کرتے ہوئے ،اپنے اثاثوں سے نکالتے ہوئے جان جاتی ہے ۔ذہن پر کندہ یہ عبارت کہ مال کم ہوجائیگا۔دولت کم ہوجائیگی ۔اس کے پاس کار بنگلہ ہے ۔اس کے پاس بینک بیلنس ہے ۔اس کے پاس یہ ہے اس کے پاس وہ ہے ۔میرے پاس کیوں نہیں ۔اگر ہے تو اس سے پیٹ تو بھر جاتاہے آنکھیں نہیں بھرتیں ۔

محترم قارئین :تحدیث ِ نعمت کے لیے عرض کرتاچلوں کہ مجھے میرے کریم نے حرص کے مرض سے محفوظ رکھا۔اس میں دینی بصیرت ،علماء کی صحبت ،صوفیاء کی عنایت اور نیک طینت والدین کی تربیت شامل ہے ۔لیکن میں نے اپنے گرد ایک ایسی تعداد کو بھی جانتاہوں کہ جو دن رات کمانے کی دھن میں سنوار ہیں ۔چہرے زرد پڑگئے ہیں ۔نیند پوری نہیں ہورہی ،طرح طرح کہ مرض لگ گئے ہیں ۔جب حقائق کا جائزہ لیاتو معلوم ہواکہ موصوف کہ پاس گزر بسر سے بڑھ کرمال ہے ۔لیکن وہ پہلے مال سے خرچ کرنا مناسب نہیں جانتے اور مزید سے مزید تر کی پیاس بجھتی نہیں ۔اسی طرح ہمارے ہاںایک طبقہ ایساہے کہ اپنی ضرورتوں کو آسائش و زیبائش میں تلاش کرتاہے ۔وہ اس کی بساعت سے بڑھ کی بھی ہوتی ہیں لیکن حرص وطمع اس میں اس قدر راسخ ہوجاتاہے کہ وہ اپنے ہم عصر کے پاس موجود تمام نعمتوں کا حصول چاہتاہے ۔حالانکہ اگروہ حرص نہ کرتاتو وہ پرسکوں زندگی گزار لیتا۔اب نہ سکھ نہ چین۔بلکہ ہروقت بے چین۔پریشان ۔چنانچہ حرص کی اس دوڑ میں معاشرے میں ایک مقابلہ کی فضاء پیداہوتی ہے یہ ایسی سمت کاانتخاب ہوتاہے کہ جس کا اختتام شاہراہ ظلم وجبر،استحصال سے ہوتاہواملک بغاوت و نافرمانی سے انارکی و نفرتوں و عداوتوں ،چوری چکاری ،دھوکہ و دغہ بازی کی دہلیزپر ہوتاہے۔ مال کی مذموم حِرْص بھی یقینا ایک باطنی بیماری ہے جو محتاجِ علاج ہے، سرکارِ مدینہ، صاحب ِ معطر پسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:عنقریب میری اُمت کو پچھلی اُمتوں کی بدترین بیماری پہنچے گی جو کہ تکبر، کثرتِ مال کی حِرْص، دنیوی معاملات میں کینہ رکھنا، باہم ایک دوسرے سے بغض رکھنا اور حسد (کرنے پر مشتمل )ہے ، یہاں تک کہ وہ سَرکشی اختیار کر لے گی۔(مستدرک حاکم،کتاب البر والصلۃ ، باب داء الامم ۔۔۔۔۔۔الخ، ٥/٢٣٤، حدیث:٧٣٩١)
دنیامیں جو بھی مرض ہے اس کا علاج ضرور موجود ہے اس کی تحقیق و تشخیص میں تاخیر ضرور ہوسکتی ہے ایسانہیں کہ اس کا علاج موجود نہ ہو۔چنانچہ حرص جیسے مرض کی جب ہم نے نشاندہی کہ اب اس کے علاج کے حوالے سے بھی چند نکات آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کرتاچلوں کہ
(١)صبر و قناعت کرنا چاہئے یعنی جو کچھ اللہ عزوجل کی طرف سے بندے کو مل جائے اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے ۔ انسان جب ماں کے پیٹ میں رہتا ہے اس وقت فرشتہ خدا کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا ہے انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی نیک نصیبی، انسان کی بد نصیبی یہی انسان کا نوشہ تقدیر ہے۔ لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا
(٢)انسان اپنی آسائشوں کو ضرورت نہ بنائے ۔ اخراجات کو گھٹا کر کم سے کم حد تک لے آئے پر تکلف اور ہمیشہ مرغن کھانوں کی بجائے سادہ غذا کو ترجیح دینی چاہئے اور بہت زیادہ عمدہ لباس کی بجائے سادہ لباس زیب تن کریں کیونکہ اس طرح کی چیزیں بغیر لالچ اور حرص کے بھی میسر آ سکتی ہیں ۔
(٣) ظاہر اور باطن میں اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے ۔ امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اورغم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
(٤) اگر آدمی طمع نہ کرے گا اور صبر نہ کرے گا اس پر اسے گراں تو شاید گزرے گا لیکن ذلیل و رسوا نہ ہو گا لیکن اگر طمع کرے گا اور صبر نہ کرے گا تو یہ پریشانی اٹھانے کے علاوہ ذلیل و خوار بھی ہوگا اور لالچ کے باعث لوگوں کی ملامت کا نشانہ بھی بنے گا اور پھر عذاب آخرت میں بھی مبتلا رہنے کا اندیشہ رہے گا برخلاف اس کے کہ اگر صبر کا مظاہرہ کرے گا تو اس کی بدولت اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرے گا اور لوگوں میں بھی تحسین اور احترام حاصل ہوگا۔

محترم قارئین :میں تو یہی سمجھا ہوں کہ حریص کی دنیا،اطمینان و سکوں کی مہک سے محروم ہوتی ہے۔میں نے مرض کی نشاندہی اور اس کا حل بھی آپ کی خدمت میں پیش کردیااب یہ آپ پر ہے کہ آپ عملی زندگی میں کسے اپناتے ہیں ۔اللہ ہمیں عقل سلیم ،ذوق عبادت اور عظیم و نفع بخش رفاقت عطافرمائے ۔لالچ ،حرص و طمع جیسے امراض سے محفوظ فرمائے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 546292 views i am scholar.serve the humainbeing... View More