حیرت ہے حضرت انسان کی عقل پر

آج میں نے فیس بک پر ایک بیج دیکھا اور پڑھ کر بڑا ہی دکھ ہوا کہ آج کا انسان گھمنڈ اور تکبر میں اتنا دور چلا گیا ہے کہ جو اس کے منہ میں آتا ہے بول دیتا ہے۔ ایک صاحب نے حدیث لکھی ہوئی تھی جس میں ایک صحابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غربت کا زکر کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب گھر جاو تو سلام کرو اور ایک صاحب نے کمنٹس کیے ہوئے تھے “الٹی گنگا! کہ غربت سلام سے نہیں بلکہ تعلیم، محنت اور پلاننگ سے ختم ہوتی ہے“ اور پتا نہیں کیا کیا ملاں کو مخاطب کرکے کہا ہوا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دین کا حاصل کرنا صرف ملاں پر ہی فرض نہیں بلکہ ہر مسلمان پر حلال حرام کی حد تک فرض ہے۔ دوسرا ملاں تو ملاں کم ازکم یہ تو سوچنا چاہیے کہ ملاں بات کس کی کر رہا ہے کم از کم ان کا تو لحاظ کرنا چاہیے۔ پڑھ کر بہت دکھ ہوا اور میں نے بھی اپنے علم کے مطاطق اس پہ کمنٹس کیا۔ چاہا آپ سے بھی شیئر کروں-

حضرت انسان کو جب کوئی تقصان ہوتا ہے تو کہتا ہے لکھا ہوا ہی ایسے تھا مگر جب کوئی کامیابی ہوتی ہے تو گھمنڈ میں آکر اپنی صلاحیتوں پر فخر کرنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ سب اس کی عقل مندی اور کامیاب تدبیروں کی ہی وجہ سے ہے۔ چاہیے تو یہ کہ اللہ کے دیے پر شکر ادا کرے اور اللہ فرماتے ہیں کہ جو شکر ادا کرتا ہے میں اسے اور دیتا ہوں۔ انسان کی سب سے پہلی ضرورت صحت ہے اور دوسری عبادت۔ آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ اگر دنیا جہان کی دولت بھی ہو مگر صحت نہ ہو تہ دولت کس کام کی اور انسان چاہے بھی تو دنیا جہان کی دولت دے کر وہ اگر اللہ نہ چاہے تو صحت نہیں خرید سکتا۔ اور عبادت بھی انسان کی چاہت اور اللہ کی توفیق سے ہی نصیب ہوتی ہے۔

یہاں پر میں ایک بات واضح کرنا چاہوں گا کہ: اگر ہم خالق کائنات پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں اس کے بتائے ہوئے ضابطہ حیات پر کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری سوچ اور تمام کی تمام صلاحیتیں محدود ہیں اور خالق کائنات کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کبھی تبدیل نیہں ہوتے۔ آج کے سائنسدان اپنی ہی تحقیق کو خود ہی غلط ثابت کر دیتے ہیں۔ دین اسلام کی بنیادی فلاسفی یہ ہے کہ ہماری عقل دین کے تابع ہے نہ کہ دین ہماری عقل کے تابع۔ اگر کوئی بھی بات اللہ اور اس کے پیغمبروں کی بتائی ہوئی ہے تو اس پر شک و شبہ قطا نہیں ہونا چاہیے۔ اور دوسری بات کامیابی کبھی بھی دولت میں نہیں ہوتی بلکہ جو لوگ خواہشات کے حصار میں رہیتے ہیں ان کو اس دنیا میں گنی چنی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔ اور ہی بھی سچ نہیں ہے کہ دولت کا حصول اور غربت کا خاتمہ محنت، تعلیم اور پلاننگ سے ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ان سب تدبیروں کے باوجود بھی کوئی نہیں چلتی اور پھر یہ بھی سچ نہ ہے کہ سب دولت مند اپنی ان صلاحیتوں سے ہی امیر ہوے ہیں۔ انسان کا اس دنیا میں مقصد دوسروں کے کام آنا ہے۔ اور آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے دولت مند اس میں کتنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر انسان کی سوچ خدمت اور امن ہوتی تو ہمیں ان نئی نئی جنگی صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیز کی کیا ضرورت تھی۔ آج دنیا مین جو کچھ ہو ریا ہے کیا یہ غربت مٹانے کے لیے اور امن کے لیے ہی ہے۔ انسان کو انسان کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی خطرہ ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
تسخیر مہر و ماو مبارک تجھے مگر
دل میں نہیں تو کہیں روشنی نہیں

ہمارا بحثیت اشرف ا لمخلوقات یہ یقین ہونا چاہیے کہ موت زندگی، عزت زلت ، کامیابی ناکامی ، سکون بے سکونی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ مال و دولت اور ٹیکنا لوجی میں اگر خالق کائنات اس میں عرت رکھ دے تو عزت اور اگر ذلت رکھ دے تو ذلت۔ ایسی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ انسان کے بس میں صرف اتنا ہے کہ خلوص اور ایمانداری سے محنت کرے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ بل گیٹس کے علاوہ بھی اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن میں یہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں بلکہ اس سے زیادہ صلاحیتیں رکھنے والے ہی اس کے لیے کام کرتے ہیں جس سے اس کو پیسہ ملتا ہے۔ یہ اللہ کی تقسیم ہے کہ ذہانت اور محنت والے اس کے پاس ملازموں کی طرح کام کر رہے ہیں اور وہ بغیر اتنی محنت کے پھل کھا رہا ہے۔

میں نے جب ایل ایل بی میں داخلہ لیا تو پرفیسر صاحب نے ہمیں ایک انگلینڈ کا آن ریکارڈ واقعہ سنایا: بہت پرانا تاریخی واقعہ ہے انگلینڈ کے ایک چرچ میں ایک آدمی چرچ میں گھنٹی بجاتا تھا جو انپڑھ بھی تھا اور عمر بھی زیادہ تھی ہوا یوں کہ پاپ نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ کو ئی انپڑھ آدمی چرچ میں کام نہیں کر سکتا۔ اس چرچ کے انچارج نے اسے وہ حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ وہ اپنی کسی اور جاب کا بندو بست کرلے۔ اس نے بڑی منت سماجت کی کہ اسے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا مگر انچارج نے معذرت کر لی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا کیو ں کہ یہ اوپر سے حکم ہے۔ خیر وہ پریشان ہو کر نکلا اور چل پڑا۔ وہ سگریٹ پیتا تھا اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سگریٹ نوش جب پریشان ہوتے ہیں تو ان کو سگریٹ سلگانے کے خواہش ہوتی ہے۔ اسی طرح اسے بھی خواہش ہوئی تو اس نے جیب میں سگریٹ کی تمنا پوری کرنے کے لیے ہاتھ ڈالا تو سگریٹ نہیں تھا۔ تو اس نے سگریٹ کے لیے دکان تلاش کرنا شروع کردی۔ ایک سیکٹر گزر گیا دوسرا گزر گیا اور اسے سگریٹ کی کوئی دکان نہ ملی۔ اچانک اسے خیال آتا ہے کہ کیو ں نہ وہ یہاں سگریٹ کا ایک کھوکھا ہی بنا لے۔ لہذا اس نے وہاں سگریٹ کا ایک کھوکھا بنا لیا۔ اس کا کارو بار چل گیا اس نے وہاں ایک ملازم بٹھایا اور خود دوسرے سیکٹر میں ایک اور کھوکھا بنا لیا۔ مختصرا یہ کہ اس کا کاروبار اتنا پھیل گیا کہ وہ انڈسٹریز کا مالک بن گیا۔ ایک دن اسے بینک مینجر کا فون آیا کہ میں یہاں پر نیا مینجر آیا ہوں اور مجھے پتا چلا ہے کہ آپ کے اکاؤنٹ میں کافی پیسا پڑا ہوا ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ بینک نے ایک نئی سکیم چلائی ہے اس میں آپ کے پیسے لگا دیے جائیں۔ وہ رضامند ہو جاتا ہے ۔ مینیجر اس کو بینک تشریف لانے کے لیے گزارش کرتا ہے۔ وہ بینک جاتا ہے۔ مینجر بڑے مودبانہ انداز میں فارم فل کرکے اس کے سامنے سگنیچر کے لیے رکھتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے میں سگنیچر نہیں بلکہ انگوٹھا لگاتا ہوں۔ مینجر کو اس پر بڑا تعجب ہوتا ہے اور وہ اسے مذاق سمجھتا ہے کہ اتنا بڑا سیٹھ فیکٹریوں کا مالک انپڑھ کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔ اور کیشئیر سے تصدیق کرتا ہے۔ اور تصدیق کے بعد جب اس کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ کاش آپ پڑھے لکھے ہوتے! وہ جواب دیتا ہے کہ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو گھنٹی بجا رہا ہوتا۔

انسان کے اختیارات محدود ہیں انسان کے اختیار میں اہل عقل ہونے کے ناطے یہ تو ہے کہ کوئی ایسا طریقہ نہ چنے جو دوسروں کے لیے نقصان دہ ہو۔ یا دوسرے لفظوں میں حلال حرام کی تمیز کرے مگر زیادہ دولت یا کم انسان کے بس میں نہیں۔ اس موضوع پر بہت لکھا جا سکتا ہے اور میں اسے پر اکتفا کرتے ہوئے چاہوں گا کہ سب اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ مواد شیئر کریں۔ شکریہ
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124324 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More