مفتی محمد طیب معاویہ الازہری
دس سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے، عرب کے ریتلے صحرا سے اٹھنے والی ہواؤں کے
بگولوں میں تپش بڑھتی ہی جا رہی ہے، تاریخ انسانی کی سیاہ ترین رات میں……
کھلی فضاؤں کے اندر……سلگتے ایک چراغ کو بجھانے کے لیے آندھیوں کے جھکڑ ہر
چہارطرف سے لپک رہے ہیں…… ایک ٹمٹماتا ہوا ’’دیا‘‘ جو گھپ اندھیرے میں……
ظلمتوں کے باسیوں کو…… سر اٹھا اٹھا کے دعوت دے رہا ہے کہ آؤ……! میں تمھیں
روشنی میں نہلانا چاہتا ہوں…… میرے قریب آؤ……! میں تمھارا سراپا ایسا منور
کرنا چاہتا ہوں کہ تمھارے نور کو دیکھتے دیکھتے بہت سی آنکھیں اپنا نور کھو
بیٹھیں گی……لے آؤ میرے پاس اپنے بجھے ہوئے خالی چراغ……! میں انہیں مانجوں
گا…… قلعی کروں گا……، شفاف شیشہ کی چمنی لگاؤں گا……، اور پھر ان میں ایسا
بھڑکیلا تیل انڈیلوں گا کہ جس کی صرف چمک سے ہی کئی روشنیاں خیرہ ہو جائیں
گی……ہاں! پھر میں ان چراغوں کو اپنے وحی والے دیے سے ایسا روشن کروں گا کہ
اس کی روشنی بڑھتی ہی چلی جائے گی……مگر ظلم و ظلمتوں کے پروردہ اس دیے کو
نہ صرف بجھانابلکہ مٹانا چاہتے ہیں…… کبھی اس پر بو لہبی پتھر گرتے ہیں تو
کبھی بو جہلی تھپیڑے برستے ہیں…… پھولوں سے بھی بڑھ کر خوشبو بکھیرنے والا
یہ چراغ کبھی کانٹوں کی زد میں آ تا ہے تو کبھی اونٹ کا اوجھ ڈال کر اس کی
خوشبو باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے…… جی ہاں! چالیس برس تک……عرب کے ہر
دانشور کی آنکھ میں امید کی کرن بن کر چمکنے والا’’محمد‘‘ ……صدیوں سے جار ی
قبائلی جنگوں کو ’’حلف الفضول‘‘ کے ذریعہ ختم کرنے والا صلح جو ’’محمد‘‘……
حجر اسود کی تنصیب کا فیصلہ کرنے والا فہم و فراست کا مالک، عدل کا
علمبردار ’’محمد‘‘…… ’’رسول اﷲ‘‘ بنتے ہی انہی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے
جن کے لئے یہ کبھی امید کی کرن تھا……پھر صلح کرانے والا خود دشمنوں کی زد
میں آ جاتا ہے……عدل و انصاف کرنے والا عدالت کا خواستگار نظر آتا ہے ……اپنے
بیگانگی کی حدیں بھی پار کر جاتے ہیں…… محبتوں کا دم بھرنے والے نفرتیں
برسانا شروع کر دیتے ہیں……ناز و نعم میں بچپن و جوانی گزارنے والا قریش کا
یہ لاڈلہ بڑھاپے کی جانب قدم بڑھاتے ہی عداوتوں کا شکارہو جاتا ہے…… ہر دن
ایک نئی مصیبت جھیلتا ہے…… اس نے مکہ میں رہ کر بھی کعبۃ اﷲ سے جدائی کا غم
برداشت کیا…… عرب کے معزز ترین خاندان کا فرد ہونے کے باوجود بھی اس نے کئی
کئی راتیں چھپ کر گزاریں…… عزت و عظمت کے القاب سننے والے اس شخص نے ایک
ایک زبان سے بیسیوں گالیاں سنیں…… پھر وہ وقت بھی آیا کہ اسے اور اس کے
خاندان کو مکہ کی بستی سے نکال کر پہاڑوں کے درمیان قید کر دیا گیا…… تین
سال بعد اس قید با مشقت سے رہائی ملی تو ظاہری سہارا دینے والا چچا اور
حوصلہ بڑھانے والی رفیقہ حیات آخرت کو سدھار گئے۔
عزم و ہمت کو بھی حوصلہ دینے والا یہ انسان مکہ سے طائف کی طرف روانہ ہوا،
مگر یہ بھی تو ایک جنگل تھا، جس میں ابھی تک درندوں کا ہی راج تھا، حد تو
یہ کہ اُنہوں نے تو درندگی کو بھی مات دے دی اوراِنہوں نے ملکوتیت میں بھی
سراسیمگی پھیلا دی…… رستے زخموں اور ٹوٹتے جسم کے ساتھ ہاتھ بلند ہوئے تو
زبان پر صرف یہ تھا:
’’اے اﷲ! میں اپنی قوت کی کمزوری، تدبیر کی کمی اور لوگوں کی نگاہ میں بے
توقیری کی شکایت صرف تیرے سامنے رکھتا ہوں، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!
تو ہی کمزوروں کا والی ہے، تو ہی میرا رب ہے، تو مجھے کس کے سپرد کر رہا ہے؟
کیا کسی ایسے شخص کے حوالے کر رہا ہے جو میرے ساتھ بے مروتی برتے یا کہ
دشمن کو مجھ پر غلبہ دے رہا ہے؟ تاہم اگر تو مجھ پر ناراض نہیں تو مجھے اس
کی کوئی پروا نہیں، لیکن تیری طرف سے عافیت ہی میرے لئے سہولت کا ذریعہ ہے،
میں تیری ذات کی نورانیت…… جس نے تمام اندھیروں کو روشن کیا اور دنیا و
آخرت کے نظام کو درست کیا……کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تو مجھ پر
ناراض ہو، میں تو تجھے ہی خوش کرنا چاہتا ہوں، برائی سے بچنے اور نیکی کے
کام کرنے کی توفیق تو تیری ہی جانب سے ہے‘‘-
مکہ اس زمانہ میں ایک تجارتی شہر تھا، حج کے عالمگیر اجتماع کی وجہ سے اسے
مرکزیت حاصل تھی، حج سے پہلے اور بعد میں مکہ کے ارد گرد کئی میلے اور
منڈیاں لگتی تھیں، ’’عکاظ‘‘،’’مجنۃ‘‘ اور ’’ذوالمجاز‘‘ نامی ان میلوں میں
صرف خرید و فروخت ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے فن کا مظاہرہ بھی ہوتا تھا،
مقابلے بھی ہوتے تھے اورمباحثے بھی چلتے، یہی وجہ تھی کہ عرب کے تقریباً
تمام خاندان نہ صرف ان میں شرکت کرتے بلکہ قوموں کے وڈیرے یہاں آ کے کئی
کئی روز تک خیمہ زن رہتے، اسی طرح حج کے دنوں میں بھی منیٰ کے اندر مختلف
علاقوں اور خاندانوں کے خیمے الگ الگ ہوتے، پورے پورے خاندان اپنے سردار کی
قیادت میں یہاں پر بھی پڑاؤ ڈالے ہوتے تھے۔
ابو بکر صدیقؓ ابتداء ہی میں رسول اﷲ ؐ پر ایمان لا چکے تھے، ان کے دل میں
اسلام و نو مسلموں کی فکر بھی تھی اور تبلیغ کا جذبہ بھی، چنانچہ صدیقؓ نے
نبی کی رفاقت میں اس دعوتی تحریک میں حصہ لے کر کسی بھی امتی کی طرف سے
تبلیغ اسلام کی ایک نئی طرح ڈالی،اسی پاداش میں صدیق کو بھی نبیؐ کی طرح
مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اسے بھی پتھروں کا نشانہ بنایا گیا، اس کا جسم
بھی لہو لہو ہوا، اسے بھی مکہ جیسا شہر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا مگر
پروانے کو شمع بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے خدا کا رسول بس
طائف سے واپسی پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے جانثار صدیق کی معیت
میں باہر سے آنے والے خاندانی سرداروں میں دعوت کا سلسلہ شروع کیا، میلوں
میں جا جا کر قرآن سناتے ، فصاحت و بلاغت کے مقابلوں میں حصہ لیتے اور
عربوں پر قرآن کی دھاک بٹھاتے، یہاں تک کہ ایک شخص کو مسلمان کرنے کے لئے
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو کُشتی کا مقابلہ بھی کرنا پڑا، آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم صدیق اکبرؓ کو ساتھ لے کر مختلف قبائلی سرداروں کے پاس جاتے ، صدیقؓ
خاندانوں اور نسب ناموں کے بہت بڑے عالم تھے، اس لئے عموماً ابو بکرؓ ہی
گفتگو کا آغاز کرتے، تعریف و تعارف ہوتا، حال و احوال دریافت ہوتے، پھر ابو
بکر کی طرف سے سوال کئے جاتے:
’’تمھارے لشکر میں کتنے افراد ہیں؟ تمھارے پاس دفاع کا کیا نظام ہے؟ تمھاری
جنگیں کس طرح ہوتی ہیں‘‘
(سیرۃ النبویۃ: دکتورعلی محمد الصلالی:۳۲۵/۱)
جب خاندانی وجاہت کا اندازہ ہو جاتا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آگے بڑھ
کر درفشانی کرتے:
یا ایھا الناس! قولو لا الہٰ الا اﷲ تفلحوا و تملکو بھا العرب و تذل لکم
العجم، واذا آمنتم کنتم ملوکاً فی الجنۃ۔ (فقہ السیرۃ النبویۃ:درضان
البوطی:۱۱۵)
’’من رجل یحملنی الیٰ قومہ، لیمنعنی، حتیٰ ابلغ رسالۃ ربی، فان قریشاً قد
منعونی أن ابلغ رسالٰۃ ربی؟ (السیرۃ النبویۃ، محمد الصلابی:۳۲۵/۱)
اے لوگو! لاالہ الا اﷲ کہو کامیاب ہوجاؤ گے،اس کلمہ کے ذریعہ عرب کے مالک
بنو گے اور عجم تمھارے سامنے سر نگوں ہو گا، جب تم ایمان لے آؤ گے تو جنت
میں بھی بادشاہی ملے گی۔
کون ہے جو مجھے اپنے قبیلے میں لے جائے، میری حفاظت کرے کہ میں اپنے رب کا
پیغام پہنچا سکوں، قریش نے مجھے اپنے رب کی پیغام رسانی سے روک رکھا ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ مذاکرات چل ہی رہے ہوتے کہ آپ کا چچا ابو لہب آن
دھمکتا،گلا پھاڑ پھاڑ کے کہتا:
’’یہ جھوٹا ہے، اس کی نہ سننا، یہ بے دین ہے، اس کی بات نہ ماننا‘‘
ان حالات میں لوگوں کی طرف سے طرح طرح کے جوابات دیے جاتے، اسی طرح کی
گفتگو بنو عامر، غسان، بنو فزارہ، بنو مرۃ، بنو حنیفہ، بنو نصر ، ثعلبہ،
کندہ، کلب، بنوالحارث، بنو عذرۃ اور بنو قیس نامی قبائل کے ساتھ چلتی رہی،
مسلیمہ کذاب کے ’’بنو حنیفہ‘‘ نے سخت برے اخلاق کا مظاہرہ کیا، صعصعۃ کے
خاندان میں گئے تو ان میں سے ’’بیحرۃ‘‘نامی شخص نے کچھ زیادہ ہی تیزی
دکھائی، اپنوں میں سرگوشی کرنے لگا کہ ’’اگر میں قریش کے اس جوان کو پکڑ
لوں تو اﷲ کی قسم پورے عرب کوکھا سکتاہوں‘‘ پھر رسول اﷲ کے سامنے اپنی
شرائط پیش کرنے لگا:’’ اگر ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں، آپ کو غلبہ بھی
مل جائے تو آپ کے بعد خلافت ہمیں مل سکتی ہے؟‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا،’’خلافت کا معاملہ تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے، وہ جہاں چاہے گا تاج
خلافت رکھے گا‘‘ اس پر جواب آیا:’’آپ کی وجہ سے ہم اپنے سینوں کو عرب کے
تیروں کاہدف بنائیں، جب غلبہ مل جائے تو خلافت کوئی اور لے جائے، ہمیں یہ
معاملہ منظور نہیں‘‘
ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابو بکر اور حضرت علی ؓ کی ہمراہی
میں بنو ذھل بن شیبان کے قبیلہ میں تشریف لے گئے، حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ
ہم تینوں ایک ایسی مجلس میں پہنچے جہاں سکون و وقار تھا ، قبائلی سردار
اپنی شان و شوکت کے ساتھ براجمان تھے، ابو بکر ؓ نے آگے بڑھ کر سلام
کیا(حضرت علیؓ یہاں فرماتے ہیں کہ ’’ابو بکر ؓ ہر بھلائی میں آگے آگے رہتے
تھے‘‘) اور کہا،’’کون سی قوم میں سے ہو؟‘‘ جواب آیا:’’بنو شیبان سے‘‘ ،
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہو کر
فرمانے لگے کہ یہ لوگ قوم کے سب سے زیادہ معزز معلوم ہوتے ہیں، وہاں مفروق،
ھانی، مثنیٰ اور نعمان بن شریک نامی سردار موجود تھے، مفروق ان سب میں
زیادہ سمجھ دار تھا، اس کے بالوں کی مینڈھیاں اس کے سینے تک پہنچی ہوئی
تھیں، یہ ابو بکرؓ کے قریب تھا، انہی کے درمیان ہی پہلا مکالمہ ہوا۔
ابو بکر:تمھارے جوانوں کی تعداد کتنی ہے؟
مفروق:ایک ہزار سے زائد اور ہزار افراد کے لشکر کو قلت کی وجہ سے شکست نہیں
ہوتی۔
ابو بکر:تمھارا دفاعی نظام کیسا ہے؟
مفروق:ہم اس کے لئے خوب محنت کرتے ہیں۔
ابو بکر: دشمنوں سے تمھاری جنگیں کس طرح رہتی ہیں؟
مفروق: جب ہم غصہ میں بپھر جاتے ہیں تو ہمارا مقابلہ نہایت ہی سخت ہوتا ہے،
ہم اولاد سے زیادہ جنگی گھوڑوں کی خاطر کرتے ہیں، ہم دودھ والی اونٹنیوں کی
بجائے اسلحہ جمع رکھتے ہیں، مگر مدد تو اﷲ کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی ہم ڈول
کھینچ لیتے ہیں تو کبھی ہمارا دشمن کامیاب ہو جاتا ہے۔
مفروق: شاید کہ تو قریشی بھائی ہے؟
ابو بکر: اگر تجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارہ میں خبر پہنچ چکی ہے
تو وہ یہ ہیں(رسول اﷲ ؐ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے)
مفروق: ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان کے تذکرے ہو رہے ہیں(رسول اﷲ ؐ کی طرف
متوجہ ہو کر) اے قریشی بھائی! تم کس چیز کی دعوت دیتے ہو؟
رسولؐ اﷲ: (ابو بکر کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سے رسول اﷲؐ پر سایہ کیا)
میری دعوت یہ ہے کہ’’ تم یہ گواہی دو کہ ُاس اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں
جو اکیلا ہے، جس کا کوئی ساجھی نہیں، اور یہ گواہی دو کہ میں اﷲ کا رسول
ہوں، اور مجھے اپنے ہاں ٹھکانہ دو، میری مدد کرو، تاکہ اﷲ کے احکام کو پورا
کر سکوں، قریش نے تو اﷲ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے، وہ اﷲ کے رسول کو
جھٹلاتے ہیں اور حق کو چھوڑ کر باطل پر خوش ہیں، اﷲ تو تعریفوں والا بے
پرواہ ہے۔‘‘
مفروق: قریشی بھائی! تمھاری دعوت اور کیا ہے؟
رسولؐ اﷲ:
قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ
تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْئاً وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً وَلاَ تَقْتُلُواْ
أَوْلاَدَکُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ وَلاَ
تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ
تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ
وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُون۔ (الانعام:۱۵۱)
(ان سے ) کہو کہ: ’’آؤ، میں تمھیں پڑھ کر سناؤں کہ تمھارے پروردگار نے (در
حقیقت) تم پر کون سی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اُس کے ساتھ کسی کو
شریک نہ ٹھہراؤ ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے
اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ہم تمھی بھی رزق دیں گے ، اور ان کو بھی۔ اور بے
حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا
چھپی ہوئی، اور جس جان کو اﷲ نے حرمت عطا کی ہے اُسے کسی برحق وجہ کے بغیر
قتل نہ کرو۔ لوگو! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اﷲ نے تاکید کی ہے تاکہ تمھیں کچھ
سمجھ آئے۔
مفروق:کچھ اور بھی سناؤ، اﷲ کی قسم یہ تو زمین والوں کا کلام نہیں، اگر
روئے زمین میں سے کسی کا کلام ہوتا تو ہم ضرور پہچان جاتے۔
رسول اﷲؐ:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ
الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ
یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون (النحل:۹۰)
بے شک اﷲ انصاف کا،احسان کا، اور رشتہ داروں کو(اُن کے حقوق) دینے کا حکم
دیتا ہے، اور بے حیائی ، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے
، تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
مفروق:قریشی بھائی! اﷲ کی قسم آپ تو عمدہ اخلاق اور نیک اعمال کی دعوت دیتے
ہیں، جن لوگوں نے آپ کو جھٹلایا ہے وہ گمراہ ہی کئے گئے ہیں، اب اس نے ھانی
کو گفتگو میں شریک کرتے ہوئے کہا: یہ ہانی بن قبیصہ ہیں جو ہمارے بڑے ہیں۔
ھانی:قریشی بھائی! میں نے تمھاری گفتگو سنی اور تیرے کلام کو سچا پایا، میں
سمجھتا ہوں کہ ہمارا اپنے دین کو چھوڑ کر تیرے دین پر آنا صرف پہلی مجلس
میں نہیں ہونا چاہیے، ہم نے ابھی تک تیرے معاملہ میں غور نہیں کیا ، جلدی
میں آدمی پھسل جاتا ہے، اور ہماری قوم بھی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ان پرکوئی
معاہدہ مسلط کریں، ابھی آپ لوٹ جائیں، ہم بھی اپنی قوم کے پاس جاتے ہیں، آپ
انتظار کریں ہم بھی غور و فکر جاری رکھتے ہیں، مثنیٰ کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے کہا: یہ ہمارے بڑے اور جنگی کمانڈر ہیں۔
مثنیٰ: قریشی بھائی! میں نے تیری گفتگو سنی، میں اس کی تحسین کرتا ہوں، جو
کچھ تو نے کہا مجھے بہت ہی اچھا لگا، مگر جواب وہی ہے جو ہانی نے دیا ہے،
ہم ایران کے بادشاہ کسریٰ کے زیر اثر ہیں، اس کے ساتھ ہم معاہدہ کر چکے
ہیں، جس میں ہم ابھی کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہتے، آپ جس کام کی طرف بلا
رہے ہیں شاید کہ وہ ان بادشاہوں پر گراں گذرے، عرب کے حکمران تو عذر قبول
کر لیتے ہیں اور خطا کار کوبھی معاف کر دیتے ہیں، مگر فارسی بادشاہوں کے
ہاں نہ تو عذر قابل قبول ہوتا ہے اور نہ ہی خطائیں معاف ہوتی ہیں، اگر آپ
کو عربوں کے مقابلہ میں ہماری حمایت کی ضرورت ہے تو یہ ہم کر سکتے ہیں مگر
ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
رسول اﷲؐ: جب تم نے سچ واضح کر دیا ہے تو یہ کوئی برا جواب نہیں، یقینا دین
کی خدمت وہی کر سکتا ہے جو ہر پہلو کو مد نظر رکھے۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ اس مجلس میں نعمان بن شریک کے ساتھ کچھ مزید گفتگو
ہوئی اور پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوئے
اور اس مجلس سے رخصت ہوگئے۔
مدینہ منورہ ابھی یثرب تھا، کھجوروں کی یہ سر زمین ازل سے ہی نبی آخر
الزماں کے لئے تیار کی گئی تھی، یمن کے ایک بادشاہ نے یہا ں پر اﷲ کے آخری
نبی کے لئے گھر بھی تیار کر رکھا تھا، اس بستی کے ارد گرد یہودیوں کے کئی
خاندان صرف اس وجہ سے آباد ہو گئے تھے کہ اپنے نجات دہندہ ، اﷲ کے آخری نبی
کا استقبال کریں گے، یہاں یہودیوں کے علاوہ بت پرست مشرکوں کے بھی دو بڑے
خاندان آباد تھے، خزرج اور اوس نامی ان دونوں قبائل کے درمیان بھی صدیوں
پہلے شروع ہونے والی مخاصمت اب تک جاری تھی، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنگ کی
نوبت آتی تو یہ دونوں قبائل اپنا اپنا مدگار و حلیف تلاش کرتے، یہ سلسلہ
یوں ہی جاری تھا ، ایک خونریز جنگ ابھی ابھی ٹھنڈی ہوئی تھی کہ یک بیک اس
شہر پر ٹھنڈی روشنی والی کرنیں پڑنا شروع ہوئیں اور پھر وبائی بیماریوں کی
یہ آماجگاہ دھلنا شروع ہو ئی، اول اول یہاں سے شرک رخصت ہوا، پھر بیماریاں
اور وبائیں بھاگیں بالآخر زمین کے اس خطہ میں جنت اتری اور یثرب مدینہ بن
گیا۔
نبوت کا گیارھواں سال شروع ہو چکا تھا، عرب قبائل کے سرداروں اور اشرافیہ
نے جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت کا کوئی خاص اثر قبول نہ کیا تو
دعوت کا رخ ایک مرتبہ پھر افراد کی جانب پھر گیا، اب دعوتی سرگرمیوں کا
محور وہ افراد ہوتے جو حج، عمرہ یا کسی اور مقصد کے لئے مکہ مکرمہ آیا کرتے
تھے، انہی دنوں یثرب کا ایک ’’کامل‘‘ مکہ آیا، اونچے خاندان، ذی وجاہت شکل
و صورت اور شاعرانہ مہارت رکھنے والے اس شخص کو ’’کامل‘‘ کہا جاتا تھا، اس
کا نام ’’سوید بن الصامت‘‘ تھا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دعوت دی
تو وہ کہنے لگا:
تمھارے پاس بھی شاید ویسی ہی کتاب ہے جو میرے پاس ہے۔
رسولؐ اﷲ:تمھارے پاس کیا ہے؟
سوید:لقمان کی حکمتیں
رسولؐ اﷲ:ذرا مجھے سناؤ
سوید: کچھ پڑھ کے سنایا
رسولؐ اﷲ:یہ عمدہ کلام ہے ، مگر جو میرے پاس ہے وہ اس سے بھی افضل ہے اسے
تو اﷲ نے مجھ پر اتارا ہے، وہ ہدایت اور روشنی ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے تلاوت سنائی اور اسلام کی دعوت دھرائی،
سوید یہیں مسلمان ہوا اور اسلام کی دولت لے کر یثرب لوٹا، مدینہ کا یہ پہلا
باشندہ تھا جو اسلامی نور سے اپنے من کو منور کر کے آیا تھا، مگر اس کی
زندگی نے وفا نہ کی اور چند ہی دنوں میں اوس و خزرج کے درمیان ہونے والی
ایک لڑائی میں قتل ہوا۔ غالباً یہی لڑائی تھی کہ یثرب سے اوس نے اپنا ایک
وفد مکہ بھیجا کہ قریش سے معاونت حاصل کی جائے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو خبر ہوئی تو آپ ان سے ملاقات کے لئے تشریف لائے، ان کے ساتھ مجلس ہوئی،
رسول اﷲ ؐ نے انہیں کہا،’’تم جو حاصل کرنا چاہتے ہو میرے پاس اس سے بہتر
چیز ہے‘‘ وہ حیرانگی سے پوچھنے لگے وہ کیا ہے؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا:
’’میں اﷲ کا رسول ہوں، مجھے اس نے بندوں کی طرف بھیجا ہے کہ انہیں اﷲ کی
عبادت کی طرف دعوت دوں کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اﷲ
نے مجھ پر کتاب بھی اتاری ہے۔‘‘
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا تو وفد میں موجود ایک
جوان’’ایاس بن معاذ‘‘ کہنے لگا:’’اے میری قوم! اﷲ کی قسم یہ اس سے بہتر ہے
جو تم حاصل کرنا چاہتے ہو‘‘ وفد میں شریک ایک شخص ابو الحیسر انس بن رافع
نے مٹی اٹھا کر ایاس بن معاذ کے منہ پر دے ماری اور کہنے لگا’’خاموش ہو
جاؤ، ہم اس لئے نہیں آئے‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ حالات دیکھ کر وہاں
سے روانہ ہو گئے، یثربی وفد کا بھی قریشیوں سے معاہدہ طے نہ ہو پایا، یہ
لوگ اپنے علاقہ میں واپس لوٹے، کچھ ہی دنوں میں ایاس کا بھی وقت اجل آ گیا،
مرتے ہوئے اس کی زبان پر یہ مبارک کلمات جاری ہوئے، لا الہ الا اللّٰہ ،
اللّٰہ اکبر، سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ۔
سوید اور ایاس کے اسلام کی وجہ سے اگرچہ یثرب میں تبلیغ تو شروع نہ ہو سکی،
مگر نبی آخر الزماں کے بارے میں لوگوں کے اندر کچھ تجسس ضرور پیدا ہوا،
چنانچہ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر ابو ذر غفاری کے کانوں میں بھی یہ خبر پہنچی،
صحیح بخاری میں اُن کے اسلام لانے کا تفصیلی واقعہ موجود ہے، وہ کہتے
ہیں،’’ہم تک یہ خبر پہنچی کہ مکہ کا ایک آدمی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، تو
میں نے اپنے بھائی کو مکہ بھیجا کہ جا کر حالات معلوم کرو اور اس شخص سے
ملاقات کر کے میرے پاس کوئی صحیح خبر لے کر آؤ، میرا بھائی مکہ سے واپس آیا
تو میں نے اس سے سوال کیا کہ تمھارے پاس کیا خبر ہے؟ وہ کہنے لگا’’اﷲ کی
قسم میں نے تو اسے ایسا پایا ہے کہ وہ خیر کا حکم دیتا ہے اور برائی سے
روکتا ہے‘‘ میں نے کہا کہ تمھاری اس خبر سے میری تشفی نہیں ہوئی، پھر میں
نے اپنا پانی والا مشکیزہ اور عصا اٹھایا اور خود رخت سفر باندھ لیا، میں
مکہ پہنچ تو گیا مگر رسول اﷲ کو پہچانتا نہیں تھا، کسی سے پوچھنا بھی مناسب
محسوس نہیں ہوا، چنانچہ مسجد حرام میں وقت گزارنے لگا، زمزم پی کر ہی گزارہ
کر لیتا، ایک مرتبہ میرے قریب سے حضرت علیؓ کا گزر ہوا تو مجھے دیکھ کر
کہنے لگے :مسافر محسوس ہوتے ہو؟ میں نے کہا جی ہاں! تو وہ مجھے اپنے گھر لے
گئے، مہمان نوازی کی، تاہم نہ انہوں نے مجھ سے آنے کا مقصد پوچھا اور نہ ہی
میں نے بتایا، اگلے دن پھر آ کر میں نے مسجد حرام میں پڑاؤ ڈال دیا، یہ دن
بھی اسی طرح گزرا کہ مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی خبر نہ
ہو سکی، ایک بار پھر علی ؓ کا گزر ہوا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے:ابھی تک
منزل مقصود تک نہیں پہنچ پائے؟ میں نے کہا : نہیں پہنچ سکا، تو وہ مجھے پھر
اپنے گھر کے لئے لے کر روانہ ہوئے، راستہ میں پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس
شہر میں کیسے آنا ہواہے؟ میں نے عرض کیا: اگر تم میرے معاملہ کو خفیہ رکھو
تو بتائے دیتا ہوں، علیؓ فرمانے لگے: ضرور ایسا ہی کروں گا، تو میں نے عرض
کیا: ہمیں یہ خبر پہنچی تھی کہ یہاں کوئی آدمی اٹھا ہے ، جس کا دعویٰ ہے کہ
وہ اﷲ کا نبی ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھی تفتیش کے لئے بھیجا تھا مگر
میری تشفی نہیں ہوئی، اب میں خود ان سے ملنا چاہتا ہوں، علیؓ فرمانے لگے:
تم درست جگہ پہنچے ہو، میں بھی اسی طرف جا رہا ہوں، میں جس گھر میں جاؤں گا
تم بھی اسی گھر میں آ جانا، اگر تمھارے بارے میں کوئی خطرہ محسوس ہوا تو
میں دیوار کی اوٹ میں جا کر جوتا درست کرنے لگوں گا اور تم سیدھے چلتے
رہنا۔ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچے تو میں نے عرض کیا:مجھے اسلام
کے بارے میں بتلائیے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تشریح کی تو میں اسی جگہ
بیٹھے بیٹھے مسلمان ہو گیا، رسول اﷲؐ نے مجھ سے فرمایا:اپنے اسلام کو ابھی
ظاہر نہ کرو، اپنے علاقہ میں لوٹ جاؤ، جب میرے غلبہ کی خبر تم تک پہنچے تو
میرے ہاں آ جانا، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر
بھیجا ہے، میں تو اس کا اعلان کھلے بندوں کروں گا۔ میں مسجد حرام میں آیا
تو قریش وہاں موجود تھے، میں نے کہا:’’اے قریشیو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ
کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲ کے بندے اور
رسول ہیں‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ ان میں شور برپا ہوا:اس بے دین کی طرف
لپکو! انہوں نے مجھے مار مار کر گرا دیا، اتنے میں حضرت عباسؓ نے مجھے
دیکھا تو وہ میرے اوپر آ کر جھک گئے،قریش سے کہنے لگے: تمھیں کیا ہو گیا
ہے؟ تم قبیلہ غفار کے ایک فرد کو قتل کر رہے ہو؟ تمھارا تجارتی راستہ انہی
کی بستی سے ہو کر گزرتا ہے…… اس پر وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن صبح
میں نے پھر اسی طرح اعلان کیا تو میرے ساتھ پھر وہی سلوک ہوا جو کل ہوا
تھا۔ اب بھی حضرت عباس(جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے آکر مجھے
چھڑایا۔
یہ نبوت کے گیارھویں سال کا آخر ہے، ذی الحجہ کا مہینہ ہے…… 620 عیسوی کے
جولائی کے گرم دن ہیں ۔مکہ کے باہر کے لوگوں میں سے صرف چند ہی ہیں جنھوں
نے اسلام قبول کیا ہے، مگر کسی علاقہ میں اسلام کی مکمل تبلیغ ابھی تک شروع
نہیں ہو پائی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں آنے والے افراد سے خفیہ
ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہیں، حج کے دوران راتوں کے اندھیروں اور تنہائیوں
میں دعوت کا سلسلہ بھی جاری ہے، حج ہو چکا ہے، لوگ منیٰ میں قیام پذیر ہیں،
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رات کے وقت منیٰ کی ایک گھاٹی سے گزر ہوتا ہے،
کچھ لوگوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، اﷲ کا آخری پیغمبر ایک آس لئے ان کی
جانب قدم اٹھاتا ہے، دیکھا تو یثرب کے چھ جوان موجود ہیں، جن کا تعلق خزرج
نامی قبیلہ سے ہے، کھڑے کھڑے تعارف ہوا:
رسول اﷲؐ:تم کون ہو؟
یثربی جوان: خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔
رسول اﷲؐ:یہودیوں کے پڑوسی؟
یثربی جوان: جی ہاں!
رسول اﷲؐ:کچھ دیر بیٹھیں گے کہ میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں؟
یثربی جوان: کیوں نہیں۔
یثربی جوان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے
انہیں قرآن پاک سنایا، اﷲ کاتعارف کرایا اور اسلام کی دعوت دی، ان کی خوش
قسمتی تھی کہ یہ یہودیوں کی دھمکیاں سن چکے تھے، جب بھی یہود کی ان کے ساتھ
لڑائی ہوتی تو وہ انہیں ڈرایا کرتے تھے کہ اﷲ کے آخری نبیؐ آنے والے ہیں،
ہم ان کے ساتھ مل کر تمھارا ایسا قتل عام کریں گے کہ قوم عاد کی طرح تمھارا
نشان تک مٹ جائے گا، یہود کی یہی بڑھکیں ان کی سعادت کا ذریعہ بنیں، چنانچہ
ان جوانوں نے آپس میں سر گوشی کی، کہنے لگے:
’’تم پہچان چکے ہو کہ یہ وہی رسول ہیں جن سے یہود تمھیں ڈراتے تھے، دھیان
رکھو!کہیں یہود اس نیکی میں تم سے آگے نہ بڑھ جائیں‘‘
سرگوشی کے بعد ان سب جوانوں نے رسول اﷲ کی دعوت کو باقاعدہ طور پر قبول کر
لیا اور حلقہ اسلام میں داخل ہوئے، مستقبل کے بارے میں لائحہ عمل تیار ہونے
لگا، یثرب میں اوس اور خزرج کے درمیان خونریز جنگ کچھ ہی دن پہلے ختم ہوئی
تھی، کشیدگی ابھی باقی تھی، اسی تناظر میں ان یثربی جوانوں نے کہا کہ ہماری
ایک قوم سے دشمنی چلی آرہی ہے، ہم حالت جنگ میں ہیں، ہم واپس جا کر ان سب
کو آپ کے دین کی طرف بلائیں گے، ان کے سامنے قرآن پیش کریں گے، امید ہے کہ
آپ کے ذریعے اﷲ آپس کے ان دشمنوں کو اکٹھا کر دیں گے، اگر ایسا ہو گیا تو
پھر پورے عرب میں آپ سے بڑا معزز کوئی نہیں ہو گا، آئندہ سال کی ملاقات کے
وعدہ پر یہ لوگ یثرب کی طرف لوٹے۔
یہی واقعہ تھا جو اسلام کی عظمت کا عنوان بنا، ہجرت نبوی کا پیش خیمہ ثابت
ہوا اور یہی جوان تھے جن کی برکت سے یثرب ’’مدینہ‘‘ بنا، اور رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے، ان چھ قدسی صفت جوانوں کے نام یہ
ہیں:
(۱)……اسعد بن زرارۃ (۲)……عوف بن الحارث(یہ معاذ اور معوذ نامی ان جوانوں کے
بھائی ہیں جنہوں نے
جنگ بدر میں ابو جہل پر حملہ کیا تھا، ایک روایت کے مطابق اسلام لانے کے اس
واقعہ میں معاذ بھی شریک تھے)
(۳)……ر افع بن مالک (۴)……قطبہ بن عامر (۵)……عقبہ بن عامر (۶)……جابر بن
عبداﷲ
اے کاش:آج کے نوجوان بھی ان چھ جوانوں کے نقش قدم پر چل پڑیں تو آج بھی
دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے، کل اﷲ کا پیغمبر موجود تھا، صرف چھ جوانوں نے
ہمت کی تو چند ہی سالوں میں انسانیت ’’جہالت‘‘ سے نکل کر دورِ علم میں داخل
ہوئی ، آج بھی اسی پیغمبر کا دین، قرآن اور سنت موجود ہیں،اب بھی ایسا ہو
سکتا ہے کہ نوجوان وہی جذبہ لئے اٹھ کھڑا ہوتو سسکتی انسانیت جو علم و ترقی
کے نام پر جہالت ثانیہ کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے ایک بار پھر حقیقی علم
و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔ |